تحریر : قادر خان یوسف زئی اس وقت ملک کو فرشتے چلا رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر اعظم خان موسی خیل نے سینیٹ میں اپنے ایک خطاب کے دوران کیاتھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی، سینیٹ کے اختیارات میں اضافے، احتساب سب کے لئے یکساں اصول اپنانے کی ضرورت ہے۔ داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو ایوان میں بحث کے بعد ہی منظور کرانا چاہیے۔سینیٹراعظم خان موسی خیل کے خیالات کی تائید کئی اراکین پارلیمنٹ نے بھی کی اور حکومتی کارکردگی پر مایوسی اور کابینہ کوکاغذی کشتی قرار دیتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا ہے ملکی سیاسی حالات اس نہج پر آچکے ہیں کہ کاغذی ریاست کو’ آئی سی یو’ میں مزید آکسیجن دیکر زندہ رکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔عام انتخابات سے قبل سینیٹ کے الیکشن قریب آرہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں کے سبب ملکی سیاسی حالات کو غیر یقینی صورتحال میں تبدیل کی کوشش کی جارہی ہے۔ فیض آباد دھرنے کے بعد ریاست کی رٹ پر کئی سوالات کے ساتھ کئی حساس معاملات بھی غور طلب ہیں کہ ان دھرنوں کے مقاصد میں عدلیہ اور فوج کے خلاف کوئی سازش تو شامل نہیں تھی؟ ۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کا حیران کن بیان بھی قابل غور رہا کہ فیض آباد آپریشن میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا ۔ لیکن دوسری جانب دھرنا مظاہرین سے معاہدے میں شریک بھی نظر آتے ہیں ۔21 روز تک جڑواں شہر کے لاکھوں عوام کو مسائل کا سامنا رہا ۔ سوالیہ نشان یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ حکومت کو اگر 22ویں دن بھی یہی کچھ کرنا تھا تو پہلے ہی دن رضا کارانہ عمل کو کیوں نہیں اپنایا گیا جس کا مطالبہ دھرنا مظاہرین کررہے تھے۔
فیض آباد دھرنا مستقبل میں ملکی و مذہبی سیاست کی نئی داغ بیل ڈال چکا ہے یا پھر عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے فرقہ وارانہ سازشوں کے ساتھ مسلکی بنیادوں پر پاکستان کے دو بڑے مسالک کے درمیان ایک نئی پراکسی کی بنیاد رکھی جا چکی ہے ۔ ختم نبوت ۖ پر کسی سیاست ، لسانیت ، قومیت ، مسلک یا مذہب کا اختلاف نہیں رہا ہے کہ قادیانی جماعت کو پاکستان کے مسلمانوں نے متفقہ طور پر اپنی ریاست میں اقلیت و غیر مسلم قرار دے دیا تھا تو پھر اس معاملے کو چھیڑنے کی نوبت و جرات کیوں کر پیش آئی۔ یہ یقینی طور پر ایک ایسی سازش ہے جس کا سرا شائد ہی کسی کو معلوم ہوسکے ۔ کیونکہ شق ترمیم پر بنائی جانے والی رپورٹ کو آشکارہ نہیں کیا جارہا۔ ذمے داروں کا تعین بھی ہوچکا ہے لیکن اس حساس معاملے سے صرف نظر کرنے کا مقصد کسی ایک شخصیت کا انفرادی فیصلہ قطعی نہیں ہوسکتا خاص طور پر اُس وقت جب امریکہ ، توہین رسالت ۖ کے معاملے میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کرکے آئین میں تبدیلی کا اشتعال انگیز مطالبہ کررہا ہو۔فوج نے مدبرانہ حکمت عملی کے سبب ایک بار پھر نون لیگ کو محفوظ راستہ ملا ہے اور ماضی میں ایسے سنہرے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ نون لیگ کیا چاہتی ہے۔
جمہوری حکومت کی تاریخ میں سوشل میڈیا سمیت تمام نجی برقی ذرائع ابلاغ کو بند کرایا گیا جبکہ سرکاری ٹی وی کی نشریات کو بحال رکھی گئیں جس نے آزاد میڈیا اور خود میڈیا کے اپنے کردار پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ بعض میڈیا ہاوسز کی جانب سے حساس معاملے کی سنگینی کو ریٹنگ کیلئے جس طرح استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ، صحافت کے سنجیدہ حلقوں نے ریاست کے چوتھے ستون کے لئے ایسے نیک شگون نہیں قرار دیا ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے فوج طلب کرنے کے معاملے پر وزارت داخلہ کو جواب میں عسکری حکام کی جانب سے دیا جانے والا جواب ہنوز وضاحت طلب ہے ۔ کہ پاک فوج تفویض کردہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار اورسول حکومت کی مدد پاک فوج کی آئینی ذمہ داری ہے۔ لیکن پولیس نے اپنی بھرپور اہلیت سے کام کیوں نہیں کیا۔، پولیس کے ساتھ رینجرز موجود تھی، لیکن رینجرز کو تحریری احکامات کیوں نہیں دئیے گئے؟، عسکری حکام نے یہ بھی کہاکہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے روایتی طور پر فوج استعمال نہیں کی جاتی، ہنگامہ حل کرنے کے لیے فوج کا استعمال کیا جاتا ہے۔ہنگامہ ختم کرنے کی خاطر فوج کی تعیناتی کیوں ؟۔ اس کے علاوہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار اور موجودہ وزیر داخلہ احسن اقبال کے درمیان سرد جنگ کھل کر سامنے آئی جس نے نون لیگ کے قلعے میں کھلی دراڑوں کو مزید جلا بخشی۔آرمی چیف کا متحدہ عرب امارات کا دورہ مختصر کرکے گذشتہ رات وطن واپسی کو سنجیدہ لیا گیا۔ جبکہ وزیر اعظم پاکستان کا سابق وزیر اعظم کے گھر میں مشاورت کے لئے مسلسل تین گھنٹوں تک کے قیام نے موجودہ وزیر اعظم کے فیصلوں کی حیثیت کو بھی نمایاں کیا ہے ۔حکومت کی جانب سے ماضی میں موبائل فون بندش کی اقدامات ، قیام امن کے نام پر کئے جاتے رہے ہیں لیکن جس طرح برقی ابلاغ و سوشل میڈیا کو بند کرایا گیا اس اقدام کو آمرانہ طرز حکمرانی سے بھی بدترین صورتحال قرار دیا گیا ہے۔ جس پر صحافتی تنظیموں اور براڈکاسٹر ایسوسی ایشن کی جانب سے سخت ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ دوسری جانب وفاق کی ناقص حکمت عملی کے سبب لیبک یارسول اللہ ۖ کے مطالبات میں اضافہ اور سختی بڑھتی گئی جس کی وجہ سے ایک بار پھر فوج کو ہی ثالث بننا پڑا اور ملک ایک انتہائی خطر ناک صورتحال سے دوچار ہونے سے بال بال بچ گیا لیکن حالات و واقعات یہی بتا رہے ہیں کہ یہ معاملات مستحکم و پائدار عمل کے بجائے کمزوری کی دلالت کررہے ہیں اور اہم اداروں کی حیثیت کو فروعی مفادات کے لئے مجروح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بعض سیاسی رہنمائوں جن میں حکمران جماعت کے سنیئر اراکین بھی ہیں،کے مطابق موجودہ حالات میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر دبائو بڑھ گیا ہے کہ وہ قبل ازوقت انتخابات کے لئے اسمبلیاں تحلیل کردیں۔ بصورت دیگر موجودہ حالات کا اب بھی پر امن حل نہیں نکالا گیا تو خدا نخواستہ اسی صورتحال بھی درپیش آسکتی ہے جس میں کوئی تدبیر شائد کام بھی نہ آئے ۔ وفاقی حکومت طاہرالقادری اور عمران خان کے ماضی میں کئے جانے والے دھرنوں کی طرح ختم نبوت ۖ کے معاملے پر ملک گیر دھرنوں کو سست روئی سے حل کرنے کی خواہاں نظر آئی ، دوسری جانب ریاستی اقدامات میں وزرا ء کے احکامات پر مقامی انتظامیہ عمل درآمد کرانے سے معذرت کرتے نظر آئی۔ جو ملک کو تشویش ناک صورتحال کی جانب لے جا رہے ہیں ، جس سے سول و ملٹری ادارے بچنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستانی معیشت قرضوں کی واپسی میں عالمی استعماری طاقتوں کے پھیلائے ہوئے جال میں وقت سے پہلے ہی پھنس سکتی ہے اورخدشہ ہے کہ دیوالیہ ہونے والے ملک کی چین بھی مدد نہیں کرسکے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنے اسٹریجک منصوبے میں لچک پیدا کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ مذاکرات میں سی پیک کے نام کی تبدیلی اور راہداری کے روٹ میںتبدیلی پرغور کرنے کی نئی دہلی کو یقین دہانی کرائی ہے تاہم چین چاہتا ہے کہ بھارت کو اس اقتصادی روٹ میں شامل ہونا ہوگا۔چین کی جانب سے سرکاری طور پران معاملات کی تاحال تصدیق نہیںہوئی ہے ، تاہم چین اب بھی پُر امید ہے کہ سی پیک کی راہ میں حائل رکائوٹوں ، بلوچستان ، صوبہ پختونخوا اور خاص طور پر افغانستان میں امن کے قیام کے لئے” قطر فنانسنگ” طرز پر انتہا پسند و دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ غیر اعلانیہ معاہدہ کرلیا جائے جس کے تحت ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
ملک گیر سطح پر تواتر سے مختلف ایشوز پر احتجاجی مظاہرے ، دھرنے اور ختم نبوت ۖ کے حساس ترین معاملات کے بعد موجودہ حکومت کی مشکلات کا واحد حل پارلیمنٹ کا تحلیل کئے جانے پر ہی ہے۔قبل ازوقت انتخابات سے سول ملٹری انتظامیہ کو کئی محاذوں پر جنگ سے پاک۔ڈاکٹرائن کے مطابق بیرونی و اندرونی مسائل سے نپٹنے کی استعداد میں اضافہ و یکسوئی مل سکے گی۔ امریکی دبائو میں وقتی کمی آجائے گی اور ملکی سیاسی انتشار کی بے یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے گا ۔کیونکہ موجودہ عباسی حکومت کوئی بھی بڑا فیصلے کا اختیار ازخود نہیں کرنا چاہتی ۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پارلیمنٹ کی تحلیل پر رضا مند ہیں ۔ لیکن پارٹی کی ہائی کمان گومگوں کیفیت کا شکار ہے اورنیب مقدمات میںریلیف کے حصول کیلئے دبائو بڑھانے کے لئے مزید کچھ ہفتے انتظار کررہی ہے۔تاہم پاکستان مسلم لیگ ن کے سنیئر رہنمائوں کے مطابق اگر اس وقت پارلیمنٹ تحلیل کردی جاتی ہے تو عام انتخابات میں کامیابی ملنے کے قوی امکانات ہیں، تاخیر کی صورت میں پارٹی کو نقصان پہنچے گا اور تھوڑ پھوڑ کا عمل ن لیگ کو لے ڈوبے گا ۔ لیکن اصل مسئلہ یہ بھی ہے مائنس ٹو فارمولے کی وجہ سے نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کسی سنیئر رہنما پر وقتی اعتماد کرنے پر تیار نہیں۔