تحریر : انجینئر افتخار چودھری سوال یہ ہے کہ کیا ہم خود کش بمبار ہیں جو خود تو جاتے ہیں مگر اپنے پیچھے روتے دھوتے لوگ چھوڑ جاتے ہیں۔ خدا را اسے پڑھئیے اور اسی اللہ کا واسطہ ہے مت مارو ماں باپ اور بہن بھائیوں کو۔یقینا موت کا دن معین ہے لیکن میرا خیال ہے جو قومیں اپنے اونٹوں کو مضبوط رسیوں سے باندھ کر معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں ان کیے معین دن اللہ آگے کر دیتا ہے کیونکہ اللہ قادر مطلق سب جانتا ہے۔پیر عابد اور اشرف ماسٹر صاحب کے بھتیجے جینے جوگے تھے ہم نے خود انہیں مار دیا ہے۔خدارا سردی کے دنوں میں چادروں کی بکلیں مار کر موٹر سایکل چلانے والو کہیں اس بکل میں موت نہ ہو۔
دو دنوں میں دو نوجوانوں کی موت یو سی جبری ہریپورکے گائوں بانڈی اور جبری میں دو نوںجوان موت کی بھینٹ چڑھ گئے ایک کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی اور دوسرے کے چھوٹے چھٹے بچے ہیں ۔پیر عابد میرے اچھے دوست ہیں ان کے جواں سال بھتیجے کی موت تین روز پہلے کرشر پلانٹ کے آہنی پٹے میں آنے سے واقعہ ہوئی ہے۔صبح سویرے ندی ہرو میں لگائے گئے پلانٹ کے جنریٹر میں چادر کا کونہ پھنس گیا اور نوجوان گیلانی اس دنیا سے اس دنیا میں چلا گیا۔ جب کے دوسرے نوجوان ایسکیویٹر مشین سے مٹی نکال رہا تھا پہاڑ کاٹتے کاٹتے ایک غار سی بن گئی جو اس کے اوپر آن گری جس سے اس کی موت واقعہ ہو گئی۔
میرے گائوں نلہ سے جڑے ان دیہات میں یہ دو اموات اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئیں۔سب کا کہنا تھا تھا کہ جو اللہ کو منظور اور جو رات قبر میں ہے وہ باہر کیسے ہو سکتی ہے۔میرا ایمان کامل ہے کہ یہ بلکل سچ ہے مگر ایک بات میں بھی پوچھنا چاہوں گا کہ پھر تو کوئی بھی حفاظتی طریقہ نہ اپنایا جائے یہ گھر بغیر تالوں کے چھوڑ دیے جائیں اور چوری ہونے پر کہہ دیا جائے کہ اللہ کی مرضی ہے۔ایک حدیث مبارکہ ہے کہ اونٹ کو باندھو اور پھر اس کے بعد اللہ کے حوالے کرو۔
قارئین کیا ہم پاکستانی اسی طرح قیمتی جانیں سپرد موت کر کے کہہ دیں گے کہ اللہ کی مرضی بس جو اس نے چاہا وہ ہو گیا تو پھر یورپ میں حادثاتی اموات اس قدر کیوں نہیں ہوتیں۔میں اس روز بانڈی جنازے کے بعد نلہ چلا گیا واپسی پر ہر موڑ پر موٹر سائیکل سوار نظر آئے ایک کو دیکھ کر دل چاہا کہ اتر کر اس سے پوچھوں کہ یہ جو ہیلمٹ ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے اسے سر پر کیوں نہیں لٹکاتے چلیں چھوڑیں یورپ کو سعودی عرب چلے جائیں وہاں کے روٹی کے تندوروں کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جائے گی سفید کاشانی کی ٹائلیں گیس کا لیک ڈیڈکٹر لگا ہوا ہے کونے میں انسیکٹ کلر۔مجال گئی کہ کوئی مکھی داخل ہو جائے جو کام کریں گے وزارت صحت کی جانب سے شہادہ صحة سمانے لٹکا ہوا ہونا چاہئے ناخن کٹے ہوئے ہوں۔
صفائی کے بارے میں اتنی احتیاط میں نے تو کسی اور جگہ نہیں دیکھی۔یہ تو ایک تنور کی بات ہے اے سی ڈیلکو کے ریجینل مینجر کی حیثیت سے میں نے بریدہ قسیم جدہ طائف جیزان نجران تبوک خمیس ابہاء طائف کی برانچیں مینیج کی ہیں۔اس میں مجھے مدینہ منورہ کی شارع عبدالعزیز کے دوارے کے ساتھ ایک بڑی ورکشاپ بنانے کا بھی موقع ملا۔یقین کیجئے آپ حیران ہوں گے کہ محکمہ شہری دفاع ،بلدیہ اور دیگر اداروں کے سرٹیفیکیٹ لینے کے لئے پاپڑ بیلنے پڑے۔ شہری دفاع نے دو کنال پر محیط ورکشاپ کے لئے جو مطالبات کئے لکھوں تو دنگ رہ جائیں گے۔
پانی کا ایک اضافی ٹینک،پمپ ایمر جینسی پائپ لائن چھت پر طویل پائپ لائن جس میں سوراخ تھے ایمرجینسی آگ کی صورت میں سینسر سے جڑے سوئیچ آپ اگر رات میں جگہ سے دور بھی ہیں تو سینسر جو سموک کو محسوس کر تا ہے اس کے اشارے پر موٹر پمپ چلے گی اور ؤٹومیٹک سپرے ہو جائے گا دھوئیں کو محسوس کرنے والے آلات ایمرجینسی بیل بجا دیں گے۔ اور تو اورفرش پر اس قسم کا پینٹ ہو گا جس پر کام کرنے والا سلپ نہیں ہو گا۔اس کے لئے لکڑی کا برادہ بھی پاس ہی ہو گا کہ گاڑی کا تیل گرے تو ورکر اسے صاف کر دے آگ بجھانے کے آلات قدم قدم پر لگانا ہوں گے۔میں پاکستان کو یورپ کی نقل کرنے کا نہیں کہتا کم از کم سعودی عرب جیسی احتیاط ہی کر لے۔مجھے پورا یقین ہے کہ مرنے والے کے سر پر ہیلمٹ نہیں ہو گا۔اسے سیفٹی تربیت بلکل بھی نہیں دی گئی ہو گی۔بس ایک بات کے سہارے اس کا جنازہ اٹھا دیا کہ بس اللہ کی مرضی۔دوستو!اللہ پوری دنیا کا اللہ ہے۔دیکھ لیجئے دنیا میں جو بڑے حادثات ہوئے ان کی تعداد ان تھرڈ ورلڈ ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔سردیاں آ گئی ہیں۔گیس کی لیکیج سے جو حادثات ہوتے ہیں ان کی تعداد دیکھئے گا۔رات کو سونے والے اگر چولہا کھلا چھڑ کر سو گئے تو صبح نہیں ملیں گے(اللہ نہ کرے)گیس چلی جاتی ہے اور پھر کسی وقت آتی ہے کمرے میں بھر جاتی ہے یہ وزنی گیس ہوتی ہے فرش سے چپکی رہتی ہے جیسے ہی کوئی بھی بجلی کا بٹن آن کریں گے ایک دھماکے سے تباہی اور کئی جانیں ضائع۔مجھے پچھلی سردیوں میں ایئر پورٹ سوسائٹی میں کیپٹن اور اس کی بیوی کی موت نہیں بھولتی وہ بھی گیس کی نظر ہو گئی۔
جائیے جا کر گیس بیچنے والوں کی دوکانوں کا حال دیکھئے۔سعودی عرب نے محلوں میں دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ایک بڑے سے احاطے میں گیس سلینڈر رکھے ہوتے ہیں اب تو سیل بند ہوتے ہیں ہمارے ہاں جائیے دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ ہمارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے پلازوں کے طے خانوں میں گیس کے سیلنڈر بکتے ہیں وہاں ایک بڑے سیلینڈر سے پمپپ کرکے گیس دوسرے چھوٹے سیلیڈر میں بھر کربیچی جاتی ہے دوسری طرف گیس سیلینڈر چلا کر آگ جلا کر بیچا جاتا ہے۔یہ کام تو مجھے پورا یقین ہے روانڈا میں بھی نہیں ہوتا ہو گا۔بنیادی طور پر ہم سیفٹی کا خیال نہ رکھنے والی قوم ہیں۔سیڑھیاں دیکھ لیجئے کھمبوں میں کام کرنے والوں کی اموات کا اندازہ لگائیے کتنے لوگ ٹکے ٹنڈ مر جاتے ہیں۔ورکشاپوں میں کام کرنے والے سیفٹی آلات استعمال نہیں کرتے ویلڈنگ والوں کے ویلڈنگ پلانٹ دیکھئے گرائنڈر چلاتے وقت کوئی عینک نہیں استعمال کی جاتی آنکھوں پر کالی عینک بھی کم استعمال کی جاتی ہے بجلی کی تار کے سروں پر کبھی سوئتش نہیں دیکھیں گے گھروں میں بھی ایسا ہی ہے۔
قینچی چپلیاں پہنے یہ لوگ موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں قوم کا مستقبل اس قدر بے وقعت ہے باہر اگر ایسا حادثہ ہو تو اس کے گھر والوں کی تا عمر کفالت جتنے پیسے ملتے ہیں۔ہم پاکستانیوں نے تو قسم کھا لی ہے کہ جو کام ہمیں بتایا جائے گا اس کا الٹ کریں گے۔موٹر سائیکلوں پر سے گرنے والوں کے بھیجے سڑکوں پر پڑے ملتے ہیں۔گاڑی کا بیلٹ باندھنا جرم سمجھتے ہیںمیں آٹو موبائل انجینئر ہوں مجھے اچھی طرح علم ہے کہ بیلٹ نہ باندھنا موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے کیا آپ جانتے ہیں کہ پچاس کلو میٹر سپیڈ پر گاڑی اگر دیوار سے ٹکرائے تو اتنی چوٹ لگتی ہے جتنی پانچویں منزل سے گرنے والے شخص کو لگتی ہے۔مگر ہم میں سے اکثر صرف پولیس سے بچنے کے لئے بیلٹ باندھتے ہیں۔میں شہزاد کو کبھی نہیں بھول سکتا وسطی پنجاب کا یہ جوان ہمارے ساتھ اوڈی واکس ویگن اور پورشے کی ورکشاپ میں کام کرتا تھا شارع علی المرتضی پر یہ ورکشاپ تھی جہاں اب ریلوے اسٹیشن بن گیا ہے یہ غالبا ١٩٩٦ کی بات ہے ایک گاڑی کا گیئر بکس اتار کر ٹھیک کرنا تھا موصوف نے جیک کے اوپر ایک آہنی پائپ لگایا اور ہائیڈرالک جیک سے گیئر بکس کو سہارا دیا پائوں میں شوز نہیں تھے سلیپر پہنے ہوئے تھے جو ایک بدھری والے تھے۔آئیل سے پائوں سلپ ہوا شہزاد نیچے گر گیا اور ساتھ ہی گاڑی بھی اس کی چھاتی پر آن لگی اس کی آنکھیں باہر آ گئیں سب لوگ دوڑ کر آئے گاڑی اٹھائی وہ جان سے تو بچ گیا مگر ساری زندگی کے لئے معذور ہو گیا۔
یہ بات نہیں کہ قوانین نہیں ہیں یہاں سب کچھ ہے مگر رشوت لے کر ان ورکشاپوں ان سیلینڈر بیچنے والوں کی دوکانوں اور دیگر کاروبار کرنے والوں کو کھلی چھٹی ہے۔پاکستان کی ماڈرن سوسائٹیوں اور رہائیشی اسکیموں میں ان چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے ثابت یہ ہوا کہ ہم چاہیں تو اسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔کاش ہم سدھر جائیں یہ وہ واحد ملک ہے جہاں تھڑوں کے اوپر مریض لٹا کر گلوکوز کی بوتلیں لگا دی جاتی ہیں۔مریض کو ہانکا لگا کر سائڈ پے کیا جاتا ہے اگر کوئی گاڑی پاس سے آن نکلے تو بے چارہ مریض خود ہی پاسے لگ جاتا ہے۔
یہ سب کیوں ہے اور اس کی روک تھام کیسے کی جائے۔اگر کسی کو یاد ہو تو اس ملک میں ایک وقت وہ بھی تھا جب گلی محلے کی نالیاں دھو کر چونا پھینکا جاتا تھا گلی صاف کرنے سے پہلے پانی کا چھڑکائو ہوتا تھا پھر جھاڑو لگایا جاتا تھا۔سڑکیں بھی اسی طرح صاف کی جاتی تھیں شام ڈھلے گلیوں کے کونوں پر لگے شمع دان ایک سیڑھی ولا تیل ڈال کر جلا کر جاتا تھا۔پھر وہ پاکستان ایسا بدلا کہ اب انہی مچی ہوئی ہے۔اداروں کے لئے قوانین موجود ہیں مگر افسوس کہ ہر ادارہ ایک مقررہ تاریخ پر آ کر اپنا حصہ لے جاتا ہے کوئی کسی کو نہیں پوچھتا۔مزدوروں کے حالات بد تر ہو چکے ہیں نوکری ایک جنبش قلم کیا ایک زبان کے اشارے سے ختم ہو جاتی ہے سو ملازمین میں دس کی سوشل سیکورٹی ہوتی ہے دس کے اولڈ ایج بینیفٹس رجسٹر کرائے جاتے ہیں۔ملوں میں فیکٹریوں میں تنخواہیں کیش دی جاتی ہیں رجسٹر سب کچے ہوتے ہیں۔یہ سب چوری ڈاکے کہیں اور نہیں اسلام آباد میں ہو رہے ہیں۔ بد قماش تاجر ایک سرٹیفائڈ ڈاکو اور چور بن کر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ان کی ذاتی زندگیاں بدل چکی ہیں کرولا سے مرسیڈیز اور ایک مل سے کئی ملیں لگ چکی ہیں مگر ان کا مزدور فاقے کرتا ہے ایمانداری کے سارے سٹینڈرڈ اسی مزدور پر لاگو ہیں خود سب سے بڑے ڈاکو ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے ١٩٨٦ میں جنرل موٹرز دمام کی ڈیلر شپ میں کام کرتا تھا جس دن پینٹر نے گاڑی پر پینٹ دالنا ہوتا تھا اس دن اسے مینجر کمرے میں بلا کر دودھ کا آدھا لیٹر پلاتا تھا تا کہ اس کے پھیپھڑے بچ جائیں۔یہاں جب تک وہ کھانس کھانس کر ادھ موئا ہوتا ہے تو تو اسے نکال دیا جاتا ہے۔ہمیں یہ سب کچھ بدلنا ہے۔اگر ہم نے سیفٹی کے مطلوبہ اسٹینڈرڈ اور مزدور کے حالات کار نہ بدلے تو جان لیجئے یہ قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔جب تک پڑھا لکھا ٹیکنیشن نہیں ملتا انہیں ٹریننگ دیجئے انہیں بتائیے کہ آپ حادثات سے کیسے بچ سکتے ہیں۔خدارا عرب ممالک سے سیکھیں۔یہاں ایک گاڑی خراب ہوتی ہے اس میں دس آن لگتی ہیں کسی کی گاڑی میں خطرے کی مثلث نہیں ہوتی آگ بجھانے والا آلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ایمر جینسی کٹ۔
مجھے آج انور مسعود کا وہ شعر یاد آ گیا باندھی ہوئی ہے کس کے ٹانگے پے چارپائی اور ساتھ میں ہے اپنے اک مضمحل رضائی اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
یقینا موت کا دن معین ہے لیکن میرا خیال ہے جو قومیں اپنے اونٹوں کو مضبوط رسیوں سے باندھ کر معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں ان کے معین دن اللہ آگے کر دیتا ہے کیونکہ اللہ قادر مطلق سب جانتا ہے اور وہ سانس کی ڈوریں بھی لمبی کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔پیر عابد اور اشرف ماسٹر صاحب کے بھتیجے جینے جوگے تھے ہم نے خود انہیں مار دیا ہے۔خدارا سردی کے دنوںمیں چادروں کی بکلیں مار کر موٹر سایکل چلانے والو کہیں اس بکل میں موت نہ ہو۔ اور ہاتھ میں ہیلمٹ پکڑ کر موٹر سائیکلوں کے شہسواروں خیال کرو۔