لاہور (جیوڈیسک) جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب قومی اور بین الاقوامی میڈیا ضربِ عضب کی کامیابیوں کا بتا رہا تھا، اس وقت منہاج القران میں پنجاب پولیس کی جانب سے ظلم ہو رہا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ انسان جھوٹ بول سکتا ہے، حالات نہیں، حالات بتاتے ہیں کہ پولیس والوں نے اس قتل عام میں بھرپور حصہ ڈالا۔ پولیس نے وہی کیا جس کے لیے اسے بھیجا گیا تھا۔ رانا ثناء اللہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے سیاسی مقاصد پورا کرنے کے کوئی موقع نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس رپورٹ کو پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ داری کس پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق تمام ذمہ دار افراد ایک دوسرے کو بچانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ یہ بات شیشے کی طرح صاف شفاف ہے کہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے کارروائی روکنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ عدالت کے حکم پر عمل درآمد کیا جاتا تو وزیرِ قانون کو نگرانی میں طے پانے والے آپریشن میں خون خرابا روکا جا سکتا تھا۔ جبکہ تمام بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے کسی بھی وقت کارروائی روکنے کا حکم نہیں دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق کمیشن کو پولیس کے ذریعے تفتیش کروانے کا اختیار حاصل تھا۔ کمیشن نے از خود تفتیش کی ہے نہ کسی پر ذمہ داری ڈالی ہے۔ ٹریبونل اپنے رجسٹرار سمیت منہاج القران گیا اور 45 منٹ تک ڈیٹا کا معائنہ کیا۔ رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے فون کا ڈیٹا آئی ایس آئی نے مہیا کیا۔ سپیشل برانچ، آئی بی اور آئی ایس آئی نے اپنے الگ الگ رپورٹ کمیشن کو دی۔
رپورٹ کے مطابق 16 جون 2014ء کی میٹنگ میں رانا ثناء اللہ نے سختی سے کہا کہ طاہر القادری کو اپنی لانگ مارچ کے مقاصد پورے نہیں کرنے دئیے جائیں گے۔ 17جون 2014 کو میں بھی وزیر اعلیٰ نے ڈس انگیجمنٹ کا ذکر نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ نے ڈس انگیجمنٹ کا لفظ استعمال کیا اور حیرت انگیز طور پر سیکرٹری داخلہ اور رانا ثناء اللہ نے استعمال نہیں کیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے سے کچھ ہی دیر پہلے آئی جی پنجاب اور ڈی سی او لاہور کی تبدیلی شکوک شبہات کو جنم دیتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پولیس والوں کو حکم تھا کہ اپنے مقاصد حاصل کریں، چاہے غیر مسلح شہریوں کو قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ سچ کا سراغ لگانے کے لیے پنجاب حکومت نے ٹریبونل کو مناسب اختیارات نہیں دیے۔ حالات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ سرکار نہیں چاہتی یہ ٹریبونل واضح نتائج تک پہنچے۔
رپورٹ کے مطابق واقعے کے دن صبح 9 سے ساڑھے گیارہ بجے تک صورتحال کنٹرول میں تھی۔ آئی جی نے بتایا کہ انہوں نے 11:30 چارج سنبھالا اور 12 بجے ان کے پاس اس واقعے کی پہلی خبر آئی۔ سی سی پی او شفیق گجر نے بتایا کہ ادارہ منہاج القران کے چیف سیکیورٹی افسر نے مشین گن کے ذریعے پولیس والوں پر فائرنگ کی۔ 300 کے قریب عوامی تحریک کے کارکنوں نے جمع ہو کر پولیس اور ٹی ایم او سٹاف پر پتھراؤ اور فائرنگ کی لیکن پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں کی نسبت زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ لیکن اوپر سے لے کر نیچے تک کسی پولیس افسر نے نہیں بتایا کہ فائرنگ کا حکم کس نے دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹریبونل سے یہ معلومات چھپائی گئی۔
جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا کہ تھانہ ماڈل ٹاؤن کے ایس ایچ او کو اے سی ماڈل ٹاؤن نے ایک رات پہلے بتا دیا تھا کہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر بیرئیر ہٹانے پر مذاحمت کی جائے گی۔ اس اجلاس میں شامل تمام لوگوں کو بیرئیرز کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے 2011ء کے احکامات کا علم تھا۔ کمشنر لاہور کی رپورٹ پر بیرئیرز خلاف قانون قرار دی گئی اور انہیں فوری طور پر ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔
شہباز شریف نے بیان حلفی میں کہا کہ انہیں منہاج القران کے واقعے کا علم ٹی وی کے ذریعے ہوا۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے سیکرٹری سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ کہ رانا ثناء اللہ کے حکم پر ادارے کے باہر سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر پولیس کو کارروائی روکنے کا حکم دیا۔ جبکہ سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشن اور ایس پی ماڈل ٹاؤن کو عہدوں سے ہٹا دیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان عوامی تحریک نے غیر ضروری طور پر ٹریبونل کا بائیکاٹ کیا اور اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج ہونے تک کسی بھی قسم کی تحقیقات کا حصہ بننے سے انکار کیا۔