تحریر : شیخ خالد زاہد گزشتہ کئی ماہ سے ملک خداداد پاکستان میں جمہوریت کی بقاء کی خاطر کیا کچھ دائو پر لگایا جا چکا ہے یہ تو شائد لگانے والوں کو بھی معلوم نہیں ہے ۔ اس جمہوریت کی آڑ میں اپنی اپنی مرضی کے قوانین مرتب دئیے جاتے رہے ہیں یعنی اپنے اقتداروں کو دوام بخشا جاسکے ۔بلکل ایسا کارنامہ موجودہ حکومت سرانجام دئیے جا رہی ہے ، قانون میں ہر وہ تبدیلی کی جارہی ہے جو حکومت وقت کوکسی بھی طرح سے بچالے اور کی جانے والی بدعنوانیوں کو ، بدعنوانی کی فہرست سے نکلوادیں۔ ترامیم کرتے وقت ،اس بات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ان ترامیم سے کیسے کیسے لوگ مستفید ہوسکیینگے ،ان سیاستدانوں کو تو اپنی آنے والی نسلوں تک کا کوئی خیال نہیں ہے۔ بظاہر تو نہیں مگر محسوس ایسا ہورہا ہے جیسے فوج کے صبر کو آزمایا جا رہا ہے کیونکہ عوام تو ووٹ دینے کی گنہگار ہوتی ہے پھر تو یہ لوگ اپنی اپنی بقاء کی لڑائی ملک کے مقدس اسمبلی حالوں میں بیٹھ کر لڑتے ہیں۔
مورخین کی لکھی تاریخ جو ہمارے لئے بطور سبق رقم کی جاتی ہے ، وہ ہم بطور حوالہ تحریروں اور تقریروں تک محدود رکھتے ہیں اور اپنی تاریخ رقم کرتے چلے جاتے ہیں ،ہم یہ قطعی بھول چکے ہیں کہ ہم ہر لمحہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ہمارا ہر اٹھنے والا قدم تاریخ کے ورق پر اپنے نشان ثبت کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے ، ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا بس ایک دوسرے کو سبق سیکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں تو افسوس بھی نہیں ہوتا کہ اپنے عارضی ٹھکانوں کو پائیدارکرنے کیلئے غلط صحیح سے ماورا ہوئے جاتے ہیںاور منظروں کو بدنما کئے جاتے ہیں۔
یہ بات عملی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے سیاستدان پاکستان کی آزادی سے لیکر آج تک پاکستان کو مال غنیمت سمجھتے رہے ہیں ۔ جس کا جو دل چاہا ہے اسنے وہ کیا ہے اور پھر یہی لوگ قوانین میں اپنی مرضی کی ترمیمیں کر کے پھر سے ایسے ہوجاتے ہیں جیسے کچھ کیا ہی نہیں اور ہم پاکستانی ووٹر یا سپورٹر انہیں کبھی اپنی کمزور کمر اور کبھی ناتواں کاندھوں پر اٹھائے پھرتے جھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے ایک ایسے شخص جسے اعلی عدلیہ نے نا اہل قرار دے دیا ہے سیاسی جماعت کی سربراہی کے لئے اہل قرار دے دیا ہے ۔یہاں لمحہ فکریہ یہ ہے کے کیا اس اقدام پر دنیا میں ہماری ساکھ کو کتنا نقصان پہنچنے والا ہے کیونکہ دینا یا تو ہمارے عدالتی نظام کا مذاق اڑائے گی یا پھر قانون ساز ادارے میں بیٹھے ان لوگوں کا جو جمہوریت اپنی اپنی اجارہ داری کو کہتے ہیں۔ عوام کی نظر میں یہ سیاہ دنوں میں اضافے کا دن تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہر پاکستانی کو سمجھ آجانی چاہئے کہ میاں صاحب کو ناصرف انکے عہدے سمیت بلکہ وہ پاکستان میں سیاسی جماعت قائم کرسکتا ہے اور رکھ سکتا ہے ۔ یعنی اب کوئی نا اہل بھی نااہل نہیں ہوسکتا۔ اس قانون کے حق میں ووٹ دینے والے اقتدار کے نشے میں اندھے ہوچکے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ایک اور سال حکومت کرلینگے یا اقتدار کے مزے لوٹ لینگے مگر یہ کیا کہ نااہل لوگوں کو اپنے اور حکمرانی کا تاج پہنا کر جارہے ہیں۔ ان لوگوں نے ناصرف سیاسی اقدار بلکہ معاشرتی اقدار کو بھی مجروح کیا ہے۔
انصاف تو قانون کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کوئی بھی فرد اتنی بڑی کرسی پر بیٹھ کر اپنی مرضی کا انصاف نہیں کرسکتا کسی کو اپنی مرضی کے خلاف سزا نہیں سنا سکتا، اگر ایسا ہوسکتا تو شائد جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ججوں سے مجھے انصاف کی توقع نہیں تو پھر یہ جج ایسا فیصلہ سنا سکتے ہیں جس سے راتوں رات پھانسیاں بھی دی گئیں ہیں۔ بادشاہ ِ وقت کو یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے آپکی سیاست کا ہنی مون ختم ہوچکا ہے ، اب آپ کو زمین پر رہنا پڑے گا اور شائد وہ زمین کسی قید خانے کی بھی ہوسکتی ہے۔ ملک کے دو اہم ترین اداروں سے نااہلیت کی سند لینے کے باوجود ایک فرد اپنے انا کے خول سے نکلنے کیلئے تیا ر ہی نہیں ہے، گمان یہ کیا جاسکتا ہے کہ کہیں قانون کا آہنی شکنجہ اپنی گرفت زیادہ سخت نا کردے۔اس سارے معاملے میں میڈیا بھی کچھ ٹھوس تصویر نمایاں کرنے سے قاصر رہا ہے یا پھر واقعی غیر جانبدار رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لوگ ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ اگر ہماری عدالتیں اور ہمارا نظام عدل بے معنی اور اعتبار کے قابل نہیں تو پھر دوسر اکون رہ جاتا ہے جس پ بھروسہ کیا جائے؟ اس سوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کے دو اہم ترین ستون فوج اور عدلیہ ایک طرف ہیں اور بدعنوانوں کو لگ رہا ہے کہ یہ ادارے مل کر انکے خلاف ہو گئے ہیں۔ بات کون سچا ہے اور کون جھوٹا کی نہیں ہے بات ہے اصولوںکی ، ضابطہ اخلاق کی ہے اور جن اداروں پر یہ سیاستدان تنقید کر رہے ہیں تو یہ بتائیں کہ کیا انہوں نے بھی ان اداروں کو بطور کسی کے انتقام کیلئے استعمال کیا ہے کبھی؟ ہر ادارہ دوسرے ادارے یا اداروں کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ آپ اپنی حدود پار نا کریں مگر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ ادارہ خود اپنی کتنی حدود میں رہ کر کام کر رہا اور کیا وہ اپنے ادارے کے ذمے جو کام ہو وہ کر بھی رہا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اداروں کی حدود کا تعین کون کرے گا اگر ادارے خود ہی تعین کرینگے تو دوسروں کیلئے تو مشکلات ہی مشکلات ہونگی۔ قوم کو یہ وضاحتیں مطلوب ہیں ورنہ ہم تو یہی سمجھتے رہینگے شریف خاندان کے خلاف عدالتوں نے اپنی حدود پار لی ہیں، دھرنے والوں سے معاہدہ کرنے پر پاک فوج نے اپنی حدود پار کرلی ہیں، ایوان کے نمائندے ان اداروں پر تنقید کی صورت میں اپنے حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ کون اداروں کی حدود کا تعین کرسکتا ہے اور کون ان حدود کو پار کرنے سے روک سکتا ہے ؟ کسی کو تو ذمہ داری لینی ہی ہوتی ہے۔ اسکول کا کوئی تو ھیڈماسٹر ہوتا ہی ہے نا۔ پاکستان کے اتنے برے حالات دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت ہے جو خصوصی طور پر ہمارے ملک کو چلا رہی ہے ۔بے ضابطگیاں کی ایک طویل فہرست ہے یوں سمجھ لیجئے کہ صدر سے لے کر چپڑاسی تک سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق بدعنوانیوں میں ملوث ہیں اور اگر کوئی کسی بدعنوانی ملوث نہیں تو سمجھ لیجئے کہ اسے ابھی تک موقع نہیں ملا ۔ میں ان چند لوگوں سے شرمندہ ہوں جو بدعنوان نہیں ہیں مگر بد عنوانوں کیساتھ چل رہے ہیں۔
بس اب کسی معجزے کا ظہور ہونے والا ہے جو اس ملک کیلئے حتمی فیصلہ ہوگا۔ کبھی سمندری طوفان آدھے راستے سے لوٹ جاتے ہیں، تو کبھی زمین کی لرزش شدت سے محفوظ رہ جاتی ہے اور کبھی بارش برستے برستے تھم جاتی ہے لیکن اب کوئی معجزہ ان سب پر بھاری پڑھنے والا ہے۔ پھر ہم یہ پوچھنے کیلئے بھی شائد نا بچ پاہیں کے اب یہ منظر کون بدلے گا۔