تحریر: محمد عبداللہ آج سے پچیس سال قبل 6 دسمبر 1992 کو اترپردیش کے علاقے ایودھیا میں بھارت کے طول عرض سے جنونی ہندو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے اور تقریباً پانچ سو سالہ بابری مسجد کو شہید کردیا ۔ یہ مسجد مشہور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے 1527ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی۔ بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹےگنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جس میں صحن بھی شامل تھا۔صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونا کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا روشنی اور ہوا کے لئے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔
الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھا۔تقسیم برصغیر کے بعد بھی اس مسجد کیااہمیت و وقعت مسلمانوں کے یہاں مسلمہ تھی۔بھارت کے جنونی ہندو جو اسلام اور شعائر اسلامی سے خار کھاتے ہیں ان کے لیے یہ تاریخی مسجد بھلا کیونکر قابل قبول تھی ۔ یہی وجہ تھی اس کے لیے خصوصی پلاننگ کی گئی ۔ اس پلاننگ کی ر و سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ جگہ ہندوؤں کے دیوتا رام کی پیدائش کی جگہ ہے اس لیے اس جگہ پر مسجد کو منہدم کرکے اس پر رام مندر تعمیر کیا جائے۔ اس پراپیگنڈے کو خوب اچھالا گیا اور اس میں مزید رنگ بھرنے کے لیے کچھ شرپسندوں نے چال چلی ۔ 1949 میں اس مسجد کے اندر سے رام کی ایک مورتی ملی جوکہ مبینہ طور پر شرپسند ہندؤں کی طرف سے رکھی گئی تھی۔
اس مورتی کا بابری مسجد سے ملنا تھا کہ پورے بھارت میں شور مچ گیا اور مسجد کو گرا کر رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔اس وقت کی حکومت نے مسجد کی جگہ کو متنازع قرار دے کر مسجد عبادت اور زائرین کے لیے بند کردی۔ مسلمانان ہند نے اس پر خاصا احتجاج بھی کیا مگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ 1984 میں دہشت گرد ہندو تنظیم ویشوا ہندو پریشد کی طرف سے رام دیوتا کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کی غرض سے ایک تحریک کا آغاز ہوا جس میں بھارت کے صف اول کے سیاست دان بھی شامل تھے۔ بی جے پی کے ایک بڑے رہنما ایل کے ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی اور پورے بھارت کے ہندوؤں کو مسجد کے انہدام پر اکسانا شروع کردیا۔ اسی کی کوششوں کی وجہ سے مقامی عدالت نے مسجد کی جگہ پر ہندؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دے دی جس سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، مسلمانوں نے ان معاملات سے نمٹنے کے لیے بابری مسجد ایکشن کمیٹی قائم کی مگر حالات ان کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔1989 میں ویشوا ہندو پریشد کے متشدد لوگوں نے مسجد سے ملحقہ جگہ پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی جس پر ایک دفعہ پھر شور سا مچ گیا اور مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔اور مسلمان یہ بات سوچنے پر مجبور ہوئے کہ تقسیم برصغیر کے وقت اور اس کے بعد ان کے ساتھ رواداری اور امن کے جو وعدے ہوئے تھے وہ ریت کی دیوار تھے۔1990 میں کچھ جنونی ہندوؤں مسجد کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچایا جس پر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ اس معاملے کو حل کیا جائے گا اور مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ مگر اس سے اگلے ہی سال اترپردیش میں انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی جنہوں نے عوام سے ووٹ ہی رام مندر کی تعمیر کا لیا تھا۔
اب ان کے ہاتھ روکنے والا بھی کوئی نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پورے بھارت سے ڈیڑھ سے دو لاکھ جنونی اور انتہا پسند ہندوؤں کو جمع کیا اور بابری مسجد پر چڑھائی کردی،ایل کے ایڈوانی ان کی قیادت کر رہا تھا۔ مٹھی بھر مسلمانوں نے روکنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ شہید کردیے گئے اور اس کے ساتھ ہی تاریخی بابری مسجد کو بھی شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد یہ جنونی ہندو مسلمانوں کی بستیوں پر حملہ آور ہوئے جس سے عام فسادات شروع ہوگئے جن میں تقریباً تین ہزار مسلمان تہ تیغ کردیے گئے۔ ان مین سے بہت سارے ایسے تھے جن کو زندہ بھی جلایا گیا۔ آج اس واقعہ کو پورے پچیس برس ہونے کو آئے ہیں مگر دنیا کی سب بڑی جمہوریت اور بزعم خود سیکولر ریاست میں مسلمانوں کو انصاف نہ مل سکا۔ ابھی بھارت کی سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ زیر التوا ہے، کل سے اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت بھی شروع ہوچکی ہے مگر مسلمان بے چارے اب بھی ڈرے سہمے سے ہیں کہ ان کو انصاف ملے گا کہ نہیں جبکہ دوسری جانب انتہا پسنداس بات پر بضد ہیں کہ اس جگہ رام مندر تعمیر کیا جائے اور یہ لوگ عدالتوں پر اثر انداز بھی ہو رہے ہیں، حالانکہ اس سے قبل بھی الہ آباد ہائی کورٹ میں اس جگہ کی کھدائی سے رام مندر کی واضح موجودگی کے کوئی آثار نہیں ملے مگر جنونی ہندوؤں کو مسجد کسی صورت بھی قبول نہیں ہے۔ مرکز میں بی جےپی کی حکومت ہونے کی وجہ سے ان کو مزید ہلا شیری مل رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے عدالت عظمیٰ میں ایودھیا معاملے کی فوری طور پر سماعت کے لیے درخواست داخل کر رکھی ہے جس کے جواب میں عدالت نے یہ تبصرہ کیا ہے۔سبرامنیم سوامی نے گذشتہ ماہ بی بی سی کے فیس بک لائیو میں کہا تھا کہ ایودھیا میں دو سال کے اندر اندر وہ رام مندر بنوائیں گے اور وہیں بنوائیں گے جہاں وہ پہلے سے موجود ہے۔ اسی طرح بی جے پی، آر ایس ایس اور اس سے وابستہ ہندو تنظمیں یہ امید کر رہی ہیں کہ سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا۔اتر پردیش اور مرکز دونوں جگہ بی جے پی اپنی اکثریت سے اقتدار میں ہے۔ بی جے پی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے۔ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ناموافق یا ہائی کورٹ جیسا رہا تو پارلیمنٹ میں ایک قانون بنا کر مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔
آر ایس ایس کا بھی کہنا ہے کہ’ مندر وہیں بنے گا اور جلد بنے گا۔یہ مسجد مسلمانوں کی عظمت کا نشان اور شعار تھی جس کو گرا کر ہندوؤں نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ ہندو توا کے بھارت میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور اس کا ثبوت وقتاً فوقتاً مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے ملتا رہتا ہے۔کبھی مظفر نگر میں تو کبھی گجرات میں مسلمانوں کی ہولی کھیل کر، کبھی گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کے خون میں نہلا کر بھارت کے ہندو جنونی اپنی دہشت گردی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ انہی مظالم سے ڈرے سہمے بھارتی مسلمانوں نے کہا کہ ہم بابری مسجد کے معاملے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ بھارتی سرکار کو چاہیے کہ اس معاملے غیر جانبدار ججز کو شامل کیا جائے، کیونکہ یہ کوئی انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ مذہبی مسئلہ ہے ۔ اسی لیے اقوام متحدہ جو مذہب کے نام پر مسلمان ملکوں میں تو مداخلت کرکے غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے نئے ملک بنوا سکتی ہے تو بابری مسجد کے مقدمے میں کیوں ملوث نہیں ہوسکتی اور غیر جاندارانہ طور پر تحقیق کروا کر نا صرف بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر کروائے، بلکہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث افراد کو بھی قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔