تحریر : انجینئر افتخار چودھری پیارے دوست اور عزیز برادر امان اللہ خان سی ڈی اے لیبر یونین کا الیکش جیت گئے ہیں ۔انہیں مبارک باد دینے عابد مختار گجر کے ساتھ گیا تھا۔جاتے ہوئے ایکسپریس وے پر جھنڈوں اور بینروں کی بھرمار تھی لگتا تھا لمیاں رقماں لگائی ہیں مصطفی نواز کھوکھر اور جناب سابق وزیر اعظم جناب راجہ پرویز اشرف نے بوریوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ایک سیاسی کارکن ہونے کے ناطے میں سوچ رہا تھا کہ انتحابی مہم میں کیا میں ایک دن کی پبلسٹی جتنے روپے خرچ کر سکوں گا؟میں بھی اسی شہر سے الیکشن لڑنا چاہتا ہوں۔سچ پوچھیں نہیں بلکل نہیں۔میں نے کل ہی کہہ دیا تھا کہ اگر ایک بینر اور جھنڈے کے بدلے دس بندے بھی پیپلز پارٹی لا سکی تو جلسہ کامیاب ہو گا۔قارئین جلسے کے شرکاء کی بھی اقسام ہو تی ہیں ایک وہ جلسہ جس میں لوگ کھنچے چلے آتے ہیں اور ایک وہ جلسہ جس میں آنے جانے کا مکمل خرچ کھانے پینے کے مصارف ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے بعد بندوں کو لانا ایسے جلسے کی صورت حال وہی ہوتی ہے جو ایک بار جنرل مشرف نے رینٹ اے ریلی کر کے اسلام آباد میں لوگ اکٹھے کئے تھے ان دنوں گجرات کے چودھری انہیں سو بار وردی میں منتحب دیکھنا چاہتے تھے ۔لوگ تو لائے گئے مگر وہ گواچی گاں کی طرح ایک دوسرے کا منہ دیکھتے جلسہ گاہ میں ایک کونے سے دوسرے کونے کی جانب چہل قدمی کرتے دکھائی دئے۔بلکل آج کے جلسے میں یہی سماں تھا میں نے بے شمار گاڑیوں کو دیکھا جن میں ٹانویں ٹاویں جیالے بیٹھے نظر آئے۔کوئی جوش و خروش نہ تھا ایک جیالا بیچارہ بس میں بیٹھا الٹیاں کر رہا تھا میں نے پانی کی بوتل اسے پیش کی مجھے احساس تھا کوئی بڑا جس نے اس ملک کو لوٹا اور مال سمجھ کے لوٹا جیسے شیر مادر ہو وہ آج گاڑیاں پیش کر کے انہیں زبر دستی لے جا رہا ہے اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مسافر مرتا ہو۔پیپلز پارٹی کبھی کسی زمانے میں ہے جمالو کی دھن پر جلسے کیا کرتی تھی ہم نے بھٹو آ گیا میدان میںہے جمالو کے نعرے سنے اور اب ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ لوگ جو تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہاں لوگ ناچتے ہیں بڑے واشگاف الفاظ میں ٹھمکے لگا رہے تھے نقل اس قدر کے پی ٹی آئی کی ٹوپیوں کی طرح سروں پر ٹوپیاں گلوں میں مفلر ناچتے گاتے لوگ ڈھول کی تھاپ پر رقصاں مگر لگ ایسے رہا تھا کہ نچو گے تئے پیسے وٹو گے۔
پی پی پی نے اور تو اور ڈی جے بھی پاکستان تحریک انصاف کا مسترد کردہ ڈی جے بٹ کر لیا یہ وہ شخص ہے جو پی ٹی آئی کو دس گنا بل دے کر معمولی رقم پر راضی ہو گیا اور اپنے آپ کو عمران کا جیالا کہتا رہا آج اس نے ڈائس پر اپنے نام کی تختی کچھ اس انداز میں لگائی کہ وہ سارا وقت ٹمٹماتی رہی۔ بلاول بھٹو کی تقریر کی دوران یہ گیت چلتا رہا بھٹو کی بیٹی آئی ہے۔اب خود فیصلہ کر لیں کس بیٹی کی بات ہو رہی تھی۔
اسے مردہ لوگوں کا جلسہ کہا جا سکتا ہے ایک ایسا شخص جس کا کاروبار سندھ میں چل رہا ہے اس نے اپنے ہزاروں ورکروں کو جلسے میں بھیجا۔کھوکھروں نے اپنے ٹل کا زور لگایا مگر سچ پوچھیں آزاد کشمیر سندھ اور بلوچستان خیبر ایجینسی اور ملک کے دور دراز سے جبری لائے گئے لوگوں کے باوجود پریڈ گراونڈ خالی خالی سی دکھائی دی تھی جلسے کا وقت دو بجے رکھا گیا تھا آٹھ بجے کے قریب بلاول کی تقریر ہوئی۔
پنڈی اور اسلام آباد کے لوگ سرے سے جلسے میں نہیں گئے ایسا لگتا تھا کہ یہ لوگ اپنی شکست کو نوشتہ دیوار دیکھ کر کسی بھی قسم کی کوشش کرنی فضول سمجھتے رہے۔ آج سچ پوچھیں بھٹو نے زندہ ہونے سے سراسر انکار کر دیا۔پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کر کے باپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور ابا حضور لوگوں کو اپنے بونگے انداز میں ةنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔آصف علی زرداری کی ذات گرامی کچھ اس قدر بھاری ہے کے اس کے بوجھ تلے پوری پیپلز پارٹی دب کے رہ گئی ہے۔اس پارٹی کا جو حشر زرداری اور ان کے ہمنوائوں نے کیا ہے وہ کسی سیڈھکا چھپا نہیں ۔قارئین کرام تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ یہ بھی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو وہ لیڈر تھے جو پاکستان کے سب سے نامور مشہور لیڈر تھے ان کی حالت یہ تھی کہ ١٩٧٧ کے انتحابات میں بہت بڑی دھاندلی کا ارتکاب کر کے وہ عوام کی نظروں میں اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھے تھے۔
ایک تو اقتتدار کی لالچ میں انہوں نے ملک کو توڑا۔یہ سچ کوئی کسی کو نہیں بتاتا کہ عوامی لیگ نے ١٩٧٠ کے انتحابات میں بڑی واضح بھرتی حاصل کی تھی شیخ مجیب الرحمان جو عوامی لیگ کے صدر تھے انہوں نے مشرقی پاکستان میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی تھی ان کے مجموعی ووٹ ایک کروڑ انتیس لاکھ سینتیس ہزار ایک سو باسٹھ((12,937,162 ووٹ لے کر 160سیٹیں لیں جبکہ پیپلز پارٹی نے اکسٹھ لاکھ اڑتالیس ہزار نو سو تئیس ووٹ حاصل کر کے (6,148,923) ووٹ حاصل کئے اور ان کے حصے میں اکیاسی(81) سیٹیں آئیں۔یہ تھا انتحابات کا نتیجہ ۔کہاجاتا ہے تاریخ میں ستر کے انتحابات ایک منصفانہ انتحابات تھے۔لیکن افسوس ہے کہ پاکستان کے ایک سیاست دان نے ان انتحابات کے نتائیج کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔فخر ایشیا نے کہا کہ جو ڈھاکہ کے اجلاس میں جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔اور پھر وہی کچھ ہوا جو وہ چاہتا تھا۔ان کے کالر میں یہ پھول بھی لٹکایا جاتا ہے کہ بھٹو نے نوے ہزار قیدی واپس لائے ہزاروں میل علاقہ انڈیا سے چھڑوایا۔انڈیا جنیوا معاہدے کے تحت پابند تھا کہ وہ جنگی قیدیوں کو واپس کرے ویسے بھی اس کا مقصد بنگلہ دیش کو بنانا تھا جو اس نے حاصل کر لیا تھا۔
اس نے ایک کروڑ کے قریب لوگوں کو کیوں پالنا تھا ویسے یہ بھی بتادیا جائے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتتدار میں ایک بار بھی بنگلہ دیش میں پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کے بارے میں ہمدردی کے دو بول بھی نہیں بولے جو پھانسیاں چڑھ رہے ہیں۔اس حمام میں بہت سی پارٹیاں ننگی ہیں وہ سمجھتی ہیں یہ جماعت اسلامی کے لوگ تھے میری نظر میں وہ سچے پاکستانی تھے شائد مجھ سے اور آپ سے بڑھ کر پاکستانی جنہوں نے سردیوں کی کالی سیاہ راتوں میں پاک فوج کا ساتھ دیا جن کو سامنے سے انڈین فوجیں اور پیچھے سے انڈیا ہی کی پالتو تنظیمیں مار رہی تھیں۔انجان راستوں پر رات کی تاریکی میں پانیوں میں ہمارے فوجی ایک اللہ کی طرف اور دوسرا ان البدر اور الشمس کے لوگوں کی طرف دیکھتے تھے۔صد حیف کہ میر پور اور محمد پور میں اب بھی محصورین تین نسلیں گزر جانے کے بعد بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔
کرے دریا نہ پل مسمار میرے ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
کبھی موقع ملا تو قوم کو بتائوں گا کہ وہ کون تھے جو انجان راہوں پے مارے گئے ہاں اگر مل سکے تو سلیم منصور خالد کی کتاب البدر ضرور دیکھ لیجئے گا۔آپ کو علم ہو جائے گا یہ پاکستان کے عاشق کیسے مارے گئے بھٹو نے صرف اقتتدار کے لئے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا۔لوگ کہتے ہیں کہ موصوف اقوام متحدہ چلے تو گئے مگر پہلے تو فلو کا بہانہ کیا کہ میں اجلاس نہیں کرپائوں گا مگر جب مجبور کئے گئے تو وہاں پولینڈ کی قرارداد کو پھاڑ کر باہر نکل آئے کسی نے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی لمحے دو لخت ہو گیا جب یہ قرارداد پھٹی۔یہ قرارداد انڈیا اور پاکستان سے مطالبہ کر رہی تھی کہ آپ دونوں ملک جنگ چھڑنے سے پہلے والی پوزیشنوں پر لوٹ جائیں۔ان کی کیپ میں ایک اور پھول بھی سجایا جاتا ہے کہ پاکستان میں پہلی اسلامی کانفرنس کا انعقاد انہوں نے کرایا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ یحی خان جب رباط گئے تو وہاں وہ پہلی اسلامی کانفرنس تھی وہاں یہ طے ہوا تھا کہ دوسری اسلامی کانفرنس لاہور میں ہو گی۔یحی خان تو اس سیلاب میں بہہ گئے جو شکست کے بعد آیا تھا البتہ بھٹو صاحب نے یہ سارا معاملہ ہاتھ میں لے لیا اور اس کانفرنس کی آڑ میں بنگلہ دیش کو تسلیم کیا۔جس کے خلاف جاوید ہاشمی کی قیادت میں قوم نے ایک بڑی تحریک چلا رکھی تھی۔
دوستو!تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ بول بول کر لوگوں کے جبڑے نہیں تھکتے ۔سچ پوچھیں بھٹو سیاسی موت مر چکے تھے ان کو عوام نے ٹھکرا دیا تھا ضیاء الحق دور میں ان کی پھانسی نے انہیں زندہ کیا۔
لوگ ان کی پھانسی کو عدالتی قتل کہتے ہیں لیکن یہ الزام لگانے سے پہلے زندہ احمد رضا خان قصوری سے ضرور پوچھئے گا کہ یہ قتل تھا یا انصاف۔اسی طرح ان کے دور میں ڈاکٹر نذیر احمد کو قتل کیا گیا خوجہ سعد رفیق کے والد خواجہ سعد رفیق قتل ہوئے مولوی شمس الدین پر ٹرک چڑھا جے اے رحیم کو ٹھڈے پڑے دلائی کیمپ کے واقعات سامنے آئے چینی آٹا گھی سب غائب ایوب کو نجس کہنے والے بھٹو کا انجام تاریخ کا فیصلہ تھا وہ عدالتوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے رہے ان کا کہنا تھا کہ میری موت پر ہمالیہ روئے گا افسوس ہمالہ کیا اس دن شملہ پہاڑی بھی نہیں روئی ان کے سارے ساتھی غلام مصطفی جتوئی کھر کوثر نیازی اور بہت سے خاموش ۔میں اس دن جدہ سے لاہور پہنچا تھا سڑکیں سنسان چڑیا نے بھی چار اپریل ١٩٧٩ کو پر نہیں مارا ۔گجرانوالہ کے پرویز مسیح نے خود سوزی کی بعد میں پتہ چلا اسے گیا تھا کہ جب تم آگ لگا لو گے تو ہم آگ بجھا دیں گے کسی نے آگ نہیں بجھائی پاکستان کی اقلیت کا سب سے پہلے استحصال گجرانوالہ پیپلز پارٹی کے فاضل رشیدی، لالہ فاضل،اسمعیل ضیائ، ایزد مسعود اور دیگر لوگوں نے کیا۔بھٹو ایک زمینی خدا بن گیا تھا ایک فاشسٹ شخص نے لوگوں کی تذلیل کر نا مشغلہ بنا لیا تھا۔اس کے ظلم اور جبر کے واقعات اتنے طویل ہیں کہ اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ایک اور سہرہ ان کے سر باندھا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خالق تھے حضور جب ان کا اقتتدار ٥ جولائی ١٩٧٧ کو ختم ہوا توایٹمی صلاحیت اسلام آباد کی ایک کوٹھڑی نما دفتر میں بند تھی۔اس ملک کو ایٹمی صلاحیت کا مالک جنرل ضیاء الحق غلام اسحق خان اور آپ کی فوج نے بنایا۔اور یہ بات بھی لکھے دیتا ہوں کہ ڈاکٹر قدیر نے سچ کہا کہ ہم اس وقت ایٹمی صلاحیت کے مالک بن چکے تھے جب نواز شریف اپنی فیکٹریوں کو چلایا کرتے تھے۔عسکری قوتیں ہمیشہ سولین لوگوں کو آگے کرتی ہیں تا کہ دنیا معترض نہ ہو۔آج میرے کان زندہ ہے بھٹو سن سن کر پک چکے ہیں سچ پوچھیں بھٹو اب اس دنیا میں نہیں ہے خدارا اسے بار بار زندہ کر کے نہ مارو۔ویسے بھی اس خاندان کے لوگوں کو بار بار مارا گیا اور ان کے نام پر گدھ آتے رہے اور ملک کو کھاتے رہے۔موازنہ کر لیجئے کہ کون کون بھٹو کو مار کے فائدے میں رہا۔پیپلز پارٹی کا شو ایک ناکام شو کا تھا۔پیسے کے زور پر جلسہ کیا گیا اور بچے کھچے جیالوں کو چکمہ دیا گیا کہ آئیندہ حکومت ہماری ہے۔خواب دیکھنا سب کا حق ہے مگر ایک بات یاد رکھیں کسی اور کو مار کے اقتتدار کے خواب نہ دیکھیں۔مان جائیں کہ بھٹو مر چکا ہے۔بقاء صرف اللہ کو۔۔۔۔۔۔