تحریر : چوہدری غلام غوث (گذشتہ سے پیوستہ) قارئین کرام لاہور سمیت بڑے شہروں میں بکنے والا 80 فیصد کھُلا دودھ زہریلا اور انسانی صحت کے لیے مُضر ہے جبکہ ڈبہ پیک دودھ تو خالص کیمیکلز والا دودھ ہے اس وقت جنوبی پنجاب کے اضلاع میں جو کہ دودھ کی پیداوار میں خود کفیل ہیں وہاں خالص دودھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جبکہ بازاروں میں فروخت ہونے والے دودھ کی کثیر مقدار مصنوعی طریقہ سے تیار کی جاتی ہے اب تو پیسہ کمانے والے درندہ صفت انسانوں نے بھینسوں اور گائے کو ڈالڈا گھی کھلانا شروع کر دیا ہے تاکہ اُن کے دودھ سے مکھن حاصل کرکے دیسی گھی بنایا جا سکے اور بنا کر مہنگے داموں فروخت کیا جا سکے بظاہر وہ دیسی گھی ہوتا ہے مگر جعلسازوں کے ہاتھوں اُس کی اصلیت مکمل غائب ہوتی ہے پرائیویٹ مستند لیبارٹریز سے دودھ کے نمونے چیک کروائے گئے تو اس میں 30 فیصد یوریا کھاد، 70 فیصد خراب کوکنگ آئل، 40 فیصد سنگھاڑے کا پاؤڈر، آلودہ پانی 50 فیصد، مُردہ اجسام کو حنوط کرنے والا پاؤڈر فارملین 35 فیصد، دودھ میں خوشبو اور گاڑھا پن بنانے کے لیے نپلسین، بالصفا پاؤڈر 29 فیصد اور اس جعلی اور مصنوعی دودھ کی مدت استعمال بڑھانے کے لیے کاسٹک سوڈا یا سوڈیم بائی کاربونیٹ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دودھ کو مصنوعی طور پر طاقتور بنانے کے لیے پٹھا کوئنی زون ٹانک استعمال کیا جاتا ہے اس کے علاوہ دودھ میں میٹھا پن بنانے کے لیے شوگر کی میٹھی گولیاں اور سفیدی کو نکھارنے کے لیے بورک ایسڈ استعمال ہوتا ہے حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کو اس سارے دھندے کا علم ہے مگر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
قارئین! قومیں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ہمہ وقت متفکر رہتی ہیں اور حکمران دیرپا اقدامات اور پالیسیاں بناتے ہیں اس کی مثال چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ کی دیناچاہتا ہوں۔ چین میں اُن کے دور میں دودھ کا قحط پڑ گیا جبکہ دودھ نایاب ہونے پر ساری حکومت ہل کر رہ گئی چیئرمین ماؤ نے پالیسی ساز اداروں کے رہنماؤں ، فوڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین اورسائنسدانوں کا اجلاس طلب کر کے اُن سے آراء لیں۔ جس میں باہمی گفت و شنید کے بعد طے پایا کہ دودھ 12 سال کے بچوں کے لیے اشد ضروری ہے اس دوران اُن کو ہڈیوں کی نشوونما کے لیے دودھ جیسے قدرتی ٹانک کی فراہمی ناگزیر ہے تو رضا کارانہ طور پر چین کی حکومت نے پالیسی بنا دی کہ آج کے بعد دودھ صرف 12 سال کے بچوں کے لیے ازحد ضروری ہو گا باقی قوم کو مل جائے تو پی لے ورنہ چھوڑ دے۔
اُس کے بعدچین کے بڑی عمر کے شہریوں نے دودھ ترک کر دیا اور بغیر دودھ کے چائے پینے کو رواج دیا جو کہ اب تک دودھ کی وافر مقدار میں فراہمی کے باوجود قائم و دائم ہے۔ یورپ نے دودھ کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بچوںکو ماں کے دودھ کا پلانا لازم قرار دیا اور دودھ سے متعلقہ قوانین کو خلیفہ دوم کے بنائے قوانین کے نام پر عمر لاز کا ٹائٹل دے کر نافذالعمل کر دیا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے سنجیدگی دکھاتے ہوئے دودھ سمیت دیگر اشیائے خوردو نوش میں ملاوٹ کے خاتمہ کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی قائم کی جس نے اپنا کام شروع کیا مشکلات پیش آئیں اس پر مزید اقدامات اُٹھائے گئے مگر تا حال پنجاب فوڈ اتھارٹی کے پاس عالمی معیار کی لیبارٹری موجود نہیں جس میں دودھ کے اجزاء کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جا سکے، اس کے علاوہ ماہرین کو اس طرح کے کورسز اور ٹریننگ نہیں کروائی جا سکی جس سے اُن کی قوتِ مشاہدہ میں اضافہ ہو سکے وہ اب تک صرف روائتی طریقہ کار اپنانے پر مجبور ہیں جبکہ جعلسازوں کو پکڑنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور متعلقہ علوم پر دسترس ہونا ضروری ہے جس کے بغیر یہ درندے قانون کے آہنی شکنجوں سے بچ کر دندناتے پھریں گے جبکہ مؤثر اور جاندار قانون سازی بھی اتنی ہی ضروری ہے تاکہ یہ ناپسندیدہ عناصر معاشرے میں بُرائی پھیلانے کی بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آئیں اور باقی ماندہ جعل ساز ان سے عبرت پکڑیں۔
جعلی دودھ تیار کرنے والوں پر جُرم ثابت ہو جائے تو کم از کم ان کو20سال قید اور10 لاکھ روپے جُرمانہ کی سخت سزا دئیے جانے کا قانون بنایا جائے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی ہزاروں لیٹر ناقص اور مُضرِ صحت دودھ ضائع کرتی ہے تو اگلے روز یہ خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو اس بناوٹی اور مُضرِ صحت دودھ کی فروخت اور بناوٹ پر سول سوسائٹی میں مزاحمت اور شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ دینی اور مذہبی جماعتیں بھی اپنا رد ِعمل ظاہرکرتی ہیں تاجر برادری میں بھی اس گھناؤنے کاروبار پر بے حد تشویش پائی جاتی ہے جبکہ ہماری سیاسی جماعتیں ا لا ماشاء اللہ خود کو اس معاملے سے الگ تھلگ اور پاک صاف سمجھتی ہیں جو از خود باعث ِتشویش بات ہے۔ چھوٹے شہروں کے معاملات تو حکومتی آنکھ سے با لکل اوجھل ہیں وہاں پر تو بناوٹی دودھ بنانے کے کاروبار کو انڈسٹری کی شکل دی جا رہی ہے اس کے علاوہ نقلی مکھن، جعلی گھی ،پاوڈر ملا دہی فروخت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عوام الناس کی واضح اکثریت بازاروں سے مُنہ مانگے داموں نقلی اور کیمیکلز ملا دودھ خرید کر اپنے اہل و عیال اور بچوں کو زہر پلانے پر مجبور ہیں حکومت شہریوں کی صحت پر اربوں روپے خرچ کرنے کی دعویدار ہے مگر بیماریاں سرعام فروخت کرنے والے تاجروں کو روکنے کا ذمّہ دار کون ہے یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟
مہدسے لے کر لحد تک ،نوزائیدہ سے بڑھاپے تک دودھ کو بنیادی غذا کی حیثیت حاصل ہے اور یہ فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے یہ کتنی بڑی ستم ظریفی کی بات ہے کہ حکومت ، پارلیمنٹ، عدلیہ سب دیکھ اورسُن رہے ہیں جبکہ آئے روز اخبارات اور دیگر نامور میگزین میں پڑھ بھی رہے ہیں اور اس کے باوجود اپنے اپنے گھروں میں خود زہریلا کیمیکلز ملا دُودھ خرید کر لا بھی رہے ہیں۔ کچھ سرمایہ داروں ، صنعت کاروں اور اشرافیہ نے اپنے فارم بنا رکھے ہیں اور خالص دودھ پر گزارہ کرتے ہیں جبکہ 90فیصد عام شہری زہریلا دودھ پینے پر مجبور ہیں کیا ہم صرف حکومتی مشینری کو ہی کوستے رہیں گے یا خود بحیثیت ایک ذمہ دار قوم خود اس برُائی کوختم کرنے کے لیے بھی کچھ کریں گے؟ قارئین! یہ بھی ایک اہم سوال میں قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ ایک با شعور قوم کی طرح اس بُرائی کو جڑسے اُکھاڑنے کے لیے ہر شہری دامے قدمے سُخنے اپنا حصہ ڈالے گا ، شعور اور آگہی کو فروغ دے گا، بُرائی کو روکنے میں مؤثر کردار ادا کرے گا ورنہ ہم اپنے بچوں کو موت کے مُنہ میں جانے کے لیے کھلا چھوڑ رہے ہیں اور یاد رکھیں! خدا کی لاٹھی بے آواز اور اُس کی پکڑ شدید ہے اور جب قدرت اپنے فطرت کے خلاف کیے جانے والے اقدامات پر انتقام لینے لگتی ہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا اور پھر وہی ہوتا ہے جو قدرت چاہتی ہے اور پھر وہ سب سے یکساں سلوک کر گزرتی ہے۔