تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کی ایک اپنی پہچان ہے اور وہ کسی تعارف کے محتاج بھی نہیں۔گزشتہ روز سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کی کتاب ’’زندہ تاریخ‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں ملک بھر کی اہم شخصیات خصوصاً چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی ،وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان،جماعت اسلامی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ سید‘ معروف صحافی و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی ،معروف صحافی مرتضیٰ سولنگی، افراسیاب خٹک ودیگر نے شرکت کی ۔ ادبی تنظیم آئینہ کے سربراہ ملک فدالرحمن نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے۔سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا کتاب ’’زندہ تاریخ‘‘ پر کئی برسوں کام جاری تھا بآخرکتاب کی شکل میںیہ داستان منظر عام پر آ گئی۔
سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ میری کتاب کے صفحے پر آپ کیلئے بریکنگ نیوز ہے،میں نے جیل میں پرسنل ڈائری کے طور پر لکھنا شروع کیا،جو دوست مجھ سے ملنے آتے تھے سب کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے،پاکستان کے عوام اپنے فوج سے محبت کرتے ہیں مگر انہیں حق حکمرانی دینے کیلئے تیار نہیں،فوجی حکمرانوں کو گولی کے سوا کوئی زبان نہیں آتی ،فوجی حکمرانوں کو مذاکرات کرنے نہیں آتے،فوجی حکمران اطاعت کرنے والوں کو محب وطن اور اختلاف کرنے والوں کو غدار سمجھتے ہیں۔ میں نے کتاب کی سب باتیں جیل میں لکھی ہیں ،میں نے اور سعد رفیق نے اکٹھے تکالیف برداشت کیں۔ فوج پر تنقید کرنے والے ناقابل معافی ہوتے ہیں،دور جلاوطنی میں ممنون حسین کو سندھ کے قائمقام صدر لگانے کا میرا فیصلہ نواز شریف کو پسند نہیں آیا تھا،نواز شریف نے مجھے مشاہداللہ اور سعد رفیق کو عہدوں سے ہٹانے کا کہا لیکن میں نے مخالفت کی،میری مخالفت کو میاں نواز شریف نے گستاخی سمجھا۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل کا ہزار ہزار روپے تقسیم کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ چار کمانڈر انچیف ملک سے باہر بیٹھے ہیں،جنرلز ملک سے باہر کیوں بیٹھے ہیں،شجاع پاشا ہو یا کوئی اور، باہر نوکریاں کررہے ہیں۔کیا اس ملک نے ان کو سب کچھ نہیں دیا ،یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے،اب باتیں سامنے آگئی ہیں۔حکمرانی کا حق یا پارلیمان کو ملے گا یا پھر کسی کو نہیں ملے گا۔ سیاستدان آج گرداب کے خود بھی ذمہ دار ہیں۔ بھٹو کی پھانسی پر ہم کوئی احتجاج نہیں کر سکے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کا نام پانامہ لیکس میں ہے۔ اسے کون پوچھے گا۔ پوچھا صرف سیاستدانوں سے جائے گا۔ سعد رفیق کو کہا تھا کہ ریلوے کی وزارت خطرناک ہے۔ سعد رفیق نے کہا کہ بس دعا کریں۔ انہوں نے معجزاتی کام کیا۔ میری ہر دفعہ سپریم کورٹ میں درخواست جاتی تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے 5 سال تک درخواست نہیں سنی۔ یہ کتاب 11 سال پہلے لکھی جو میری روزانہ ڈائری پر مشتمل ہے۔ سعد رفیق نے کہا کہ ملک میں آج بھی مکمل جمہوریت نہیں‘ وفاداریاں بدلوانے سے جمہوریت کیسے مضبوط ہوگی؟ چند لوگ قوم کی قسمت کے فیصلے کریں یہ قبول نہیں۔ جھوٹ بولنے والے عوام کو کیوں گمراہ کرتے ہیں۔
تقریب میں خطاب کے دوران وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا کتاب ’’زندہ تاریخ‘‘ کی تعریف کی اور بتایا کہ نوازشریف کو پارٹی صدر بنایا‘ اس پر فخر ہے۔ یہ فیصلہ سیاسی کارکنوں کو کرنا ہے کہ ان کا لیڈر کون ہوگا۔ ایسے فیصلوں کیلئے عدلیہ بحالی کی تحریک نہیں چلائی تھی۔ بینظیر بھٹو کے قتل سے سیاست میں خلا آیا۔ اب مصنوعی سیاستدان بنائے جاتے ہیں۔ پرویزمشرف کو اتنی دیر ہی رکھا جتنا رکھ سکے۔ اس کا احتساب نہیں کر سکے۔ سیاست آزادی سے کرنے دی جائے۔ اب بھی وقت ہے مل کر اداروں کو سنبھال سکتے ہیں۔ بیرونی سازشیں زوروں پر ہیں۔ نظریہ ضرورت دفن نہیں ہوا‘ اس کو دفن کرنا ہوگا۔ کوئی مصنوعی سیاسی جماعت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ پی ایس پی کا کچھ نہیں بننے والا جو مرضی کر لیں۔ بہتر ہوتا ایم کیو ایم کے لوگوں کو خود فیصلہ کرنے دیا جاتا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت نہ ہوتی تو آج پاکستان مختلف ہوتا۔ ہم نہیں چاہتے کسی اور کو نااہل کیا جائے۔ ہماری بھی غلطیاں ہیں‘ سیاسی لڑائیاں کیوں عدالت لیکر جاتے ہیں۔ 16 وزراء اعظم پر بدترین الزامات لگا کر نکالا گیا۔ کیا ہر بار وزیراعظم ہی غلط تھا‘ کیا چیف جسٹس اور چیف آف سٹاف غلط نہیں ہو سکتے۔ ہم نے کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں کرنا۔ جماعتوں کے اندر جمہوری رویوں کو پروان نہیں چڑھایا گیا۔ پاکستان میں کوئی ایسا شخص نہیں جو فوج سے پیار نہیں کرتا۔ ایک دھول اڑائی جاتی ہے کہ سب سیاستدان چور ہیں۔ سیاسی جدوجہد کرنیوالے لوگوں کو سینے سے لگا کر رکھنا چاہئے۔ جاوید ہاشمی کی سیاسی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کیوں پرویزمشرف کا احتساب نہیں ہوا؟ کیا کبھی کسی دوسرے ادارے کے سربراہ کو نکالا گیا؟ کیوں افتخار چودھری کے بیٹے کا احتساب نہیں ہوا؟ نظریہ ضرورت دفن نہیں ہوا‘ اس کو دفن کرنا ہوگا۔ فوج کا کردار ملک کی سلامتی کیلئے ہونا چاہئے سیاست میں نہیں۔ سیاست آزادی سے کرنے دی جائے۔ ملک میں آج بھی جمہوریت مکمل طورپر نہیں ہے۔ چند لوگ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرینگے۔کب تک ایسا نظام چلے گا؟ پاکستان اداروں کی باہمی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ باہر بیٹھ کر فیصلے کرکے پارلیمنٹ پر تھوپتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کی باگ ڈور عدلیہ کے ہاتھ میں دیدی گئی ۔ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا‘ وہ ریاست کیخلاف کھلی بغاوت تھی ۔ یہ وقت ہے کہ سب کو بولنا چاہئے۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کو سزا ملنی چاہئے۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ دھرنے کرانے والوں نے پاکستان کا مثبت تشخص مسخ کیا۔ پاکستان میں سیاستدانوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ سیاستدانوں کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے‘ ملک میں بھاری سرمایہ کاری‘ پاک چین اقتصادی راہداری اور دہشت گردی کیخلاف کامیابیوں کی سزادی جا رہی ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے ہمیشہ سچ بولا ہے۔ پہلے بھی شب خون ماراگیا مگر کامیابی نہیں ملی۔آئندہ بھی شب خون مارنے کی کوشش ناکام ہوگی۔ ملکہ برطانیہ کا نام بھی پانامہ لیکس میں آیا ہے مگر عمران خان اور ان کی سابق اہلیہ جمائما ملکہ کی کرپشن پر چپ ہیں۔ طاقت والے کسی کو 10 تھپڑ بھی ماریں کمزور کا ایک تھپڑ ہی کافی ہوتا ہے۔ یوں تقریب کتاب رونمائی اختتام پذیر ہوئی اور دنیا کو مثبت نہیں منفی پیغام دیا گیا مختصر یہ کہ پاکستان میں جس کی’’ لاٹھی اس کی بینس‘‘ہے ، ماہر ین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ افسو س کا اعتراف کرنے والے بھی جرم پر فخر کررہے ہیں ۔بقول ڈاکٹر علامہ اقبال
ضمیر جاگ ہی جاتاہے ، اگر زندہ ہواقبال کبھی گناہ سے پہلے ، تو کبھی گناہ کے بعد