تحریر : انجینئر افتخار چودھری قارئین محترم اسے black tuseday کہئے آج صدر ٹرمپ نے اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس میں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔بوڑھا امریکی صدر دنیا کو وہ آرڈر دکھا کر چلا گیا۔اس شخص کے پیچھے کون تھا اور کیوں یہ ایک ایسا فیصلہ کیا گیا جو اسی کی دہائی سے معلق تھا۔میں نے ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے چند سطریں لکھی ہیں۔کسی موقع پر جذباتی بھی ہوا ہوں اور کسی جگہ اپنی کم مائیگیوں کا رونا بھی رویا ہے۔کسی موقع پر ایک عام باشندے کی حیثیت سے میں نے اس دنیا کو دیکھا ہے۔بنیادی طور پر میں اس بات پر یقین رکھنے والا ہوں کہ جینا سب کا حق ہے میں اس کا امتی ہوں جو دو جہانوں کے لئے رحمت بن کے آئے۔اس پر ایمان لانے والوں کے ساتھ کیا ہوا دیکھئے میری تحریر میں۔اپنی رائے ضرور دیجئے گا مرا ای میل ایڈریسiach786@gmail.com میری عادت ہے میں ہر سوال کا جواب ضرور دیتا ہوں آپ کی راہنمائی کا منتظر ہوں۔@engriftikharchٹویٹر پر فالو کریں۔
https://youtu.be/Vraw67Kt-zU میں ان کی اس تقریر کو دیکھ کر حوصلے میں ہوں کہ ابھی مسلم زندہ ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ طیب اردگان اسلامی کانفرنس کا انعقاد کر کے امت مسلمہ کے خوابیدہ ضمیر کو جگائیں۔
یہ ایک انتپائی غلط فیصلہ پے جسے اسلامی دنیا کیا انصاف پسند دنیا مسترد کر دے گی۔سچ پوچھٰں یہ سقوط سقوط ڈھاکہ کی طرح ایک اور صدمہ ہے۔یہ تھا نیو ورلڈ آرڈر جس کے بارے میں جارج بش نے اقدامات شروع کئے تھے۔آج کی اسلامی دنیا انتہائی کمزور ہے۔آج ہم ایک بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن چکے ہیں ہم زندہ رہنے کے لئے موت کے خریدار بنے ہوئے ہیں۔مجھے دلی دکھ ہوا ہے۔مشرق وسطی کے حلات ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت خراب کئے جا رہے ہیں دو ناکام عمارتیں گرا کر پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔مجھے اس وقت نیند نہیں آ رہی رات کے دو بجنے کو ہیں ایک پریشان دل گرفتہ جسے صرف امت کا دکھ نہیں اس پوری دنیا کا دکھ ہے۔امریکی صدر نے آج جو بیج بویا ہے اس سے بم اگیں گے دنیا غیر محفوظ ہو جائے گی۔یہ فلسطینی عوام سے نہیں ساری دنیا کے امن پسندوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے ۔وہ لوگ جو آئیندہ آنے والی نسلوں کو امن کا کا ترکہ دینے چاہتے تھے آج ان کے لئے کوئی دیوار گریہ کا بند وبست کیا جائے۔زیتون کی شاخ کی بجائے آج امریکی صدر ان کے ہاتھ میں جرنیڈ دے گئے ہیں یہ لوگ خود بھی مریں گے اور ساری دنیا کو بھی خوف و وحژت میں مبتلا کر دیں گے۔
کیا ایسی دنیا کا خواب دیکھا تھا ہمارے پرکھوں نے۔اس سے فلسطینی بری طرح مثر ہوں گے آخر ان کا دیس ہے۔ہم نے کب کہا ہے کہ یہودی امن سے نہ رہیں مگر یہ کیسا امن ہے جس کے لئے باقی لوگ بد امنی کا شکار ہو جائیں۔میں ان دنوں سعوودی عرب میں تھا ایک بد بخت شام کو جب میں شارع علی الرتضہ پر ساماکو گاڑیوں کی ورکشاپ میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا اس شام ہم اضافی کام کر ہے تھے کہ اندر ورکشاپ سے ایک یحیی نامی فلسطینی بھائی نے شور مچا دیا کہ امریکہ پر حملہ ہو گیا ہے۔میں حلفا لکھ رہا ہوں اس دوران میرا ماتحت نوربی نامی ایک فلپائینی آیا اور کہا مسٹر افتخار خوش مت ہوں یہم مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔قدرت کے کام دیکھئے میرے سامنے اس وقت اسماہ بن لادن کا بیٹا عبداللہ بیٹھا ہوا تھا جو اپنی واکس ویگن پاسات گاڑی کو تھیک کرانے آیا ہوا تھا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں ایک ایسے کریکٹر کے سامنے بیٹھا ہوں جو آگے چل کر شہرت پائے گا۔نوربی کی بات کس نے سننی تھی لیکن یہ ضرور ہوا کہ دنیا اس کے بعد برباد ہو گئی۔عالم اسلام کو چن چن کر مارا گیا۔ہم لوگ اس قدر بد قسمت اور بھولے ہیں کہ فرقوں کے نام پر بٹ گئے۔عراق کے صدام حسین نے اپنی حماقتوں کا سلسلہ دراز کیا اور ادھر قذافی للکریں مارتا رہا۔ہوا کیا ہم شیعہ اور سنی میں بٹ گئے عراق کو مار پڑی تو تالیاں بجانے والے بھی ہم تھے قذافی مرا تو ہم ہی جشن منا رہے تھے۔مجھے کہنے دیجئے یہ ایک BLACK TUSEDAYہے آج دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔مجھے سچ پوچھیں آج جی چاہتا ہے کہ کوئی کندھا ملے جس پر سر رکھ کے روئوں اتنا روئوں کے اپنے آنسوئوں میں ڈوب جائوں۔بات صرف تل ایبیب سے ےروشلم میں امریکی سفارت خانہ منتقلی کی نہیں مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک اور جنگ ہارے ہیں اور وہ صلیبی جنگ ہے جس کا سپہ سالار ایک مسیحی ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔
یہ صلیبی جنگ کا نیا روپ ہے۔آئیں سر پیٹیں اور کسی دیوار سے ٹکر ماریں کہ ہم نے آج ایک اور سقوط دیکھا سقوط بغداد کے بعد ایک سقوط ڈھاکہ تھا اور آج سقوط یروشلم ہوا ہے۔معاف کیجئے گا آپ کے چالیس کیا ستاون ممالک کی افواج بھی بن جائے آپ ان صلیبی ہتھکنڈوں سے مات کھا چکے ہیں۔پاکستان ایک ملک تھا جس سے امید تھی لیکن وہ بھی اپنے زخموں کو چاٹ رہا ہے۔ترکی اکیلا کیا کر لے گا۔سعودی عرب کو اپنے ہی مسلمان ملک نے گھیرے میں لے رکھا ہے ۔ہم جس صدی میں زندہ ہیں اس میں ہماری شکست اور ہماری پٹائی اور اس قدر ذلالت میں ڈوبی پٹائی کے سوا مجھے تو کچھ نہیں دکھائی دیتا۔امید کی کوئی کرن اور کوئی روشنی دور دور تک نظر نہیں آتی۔بتائیے دنیا کا ایٹمی اسلامی ملک پاکستان سوائے مذمت کے کیا کرے گا کچھ نہیں۔امرکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب اقتتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے تو لوگوں نے انہیں ایک جھلا سمجھا لیکن جو طاقتیں انہیں لائی تھیں۔آج انہوں نے ثابت کیا کہ وہ کسی مقصد کے لئے آئے ہیں اور آج وہ موصد پورا ہو گیا۔یہاں ایک مکتب فکر پر غصہ گیا وہ مقصد کیا تھا سرائیل کو مضبوط کرنا۔ لوگ کہتے ہیں دنیا میں دو ریاستیں دین کے نام پر بنیں ایک اسرائیل اور دوسرا پاکستان۔نہیں حضور اسرائیل ناجائز پھوڑا تھا جس کی بنیاد بریطانیہ نے رکھی پاکستان تو ایک ملین لوگوں کی قربانی سے حاصل ہوا تھا آج دیکھ لیجئے اس ناجائز اور حرامی اولاد کو سینے سے لگایا گیا ہے۔برسوں سے اسرائیل چاہتا تھا کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ یرو شلم میں بنائے آج اس کا خواب پورا ہوا ۔ایسے وقت جب مسلم امۃ ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔
کیا یہ بات ہمارے لیڈران کو سمجھ آ رہی ہے؟میرا خیال ہے بلکل نہیں مصر میں مرسی کی حکومت کا خاتمہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی اور سعودی عرب کے اوپر یمن کے حوثی لوگ ایک خوف بن ا کر بٹھا دیئے گئے آج ڈونلڈ کا تلوار ڈانس سمجھ میں آ گیا ہو گا اس نے الریض میں ڈانس کر کے ہمیں خوش تو کر دیا لیکن اسی تلوار سے پیچھے سے ہماری شرم گاہوں کو ننگا کیا۔اب سیاپہ کیجئے اور یہ بات بھی یاد کر لیں بات یہاں تک رکے گی نہیں۔جو کوئی مدینہ منورہ میں رہتا ہے اور اس شہر سے واقف ہے اس نے ایئر پورٹ روڈ کی زمین دیکھی ہو گی۔جو طوب المیمنی چوک سے پہلے واقع ہے جہاں آج کل ٹویوٹا کا شو روم ہے۔اس جگہ کے بارے میں ڈونلڈ ریگن نے سعودی فرماں روا شائد ملک فہد تھے انہیں کہا تھا شنید ہے یہ جگہ یہودیوں کی ہے۔اس وقت یہ زمینیں مفت تقسیم کی گئیں اور وہاں آبادی کی گئی۔صبرہ اور شتیلہ کا ایک بدلہ تھا جو یہودیوں کے معاہدہ شکنی کے نتیجے میں قتل عام ہوا تھا جس جسگہ نفق ابو بر صدیق روڈ پر ہے کہا جاتا ہے یہاں قتل کئے گئے تھے۔ہم بھول جائیں مگر یاد رکھئے یہودی کبھی نہیں بھولیں گے ایک ایک واقع کا بدلہ لیں گے۔مجھے نجران میں ایک سعودی نے وہ جگہ بتائی تھی جہاں سے یہودی نکالے گئے تھے۔آل سعود نوٹوں کی بوریاں بے شک کھول دے لیکن یاد رکھے یہ دشمن آہستہ آہستہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی طرف آئے گا۔ان حالات میں ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ایران اور سعودی عرب کی دوستی کرائے یہ کام پاکستان نہیں کر سکتا پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ایک فریق ہے ترکی سے امید ہے کہ وہ یہ کام کر لے گا۔اگر یہ دو ملک دوست بن جائیں تو خطے میں امن ہو جائے گا اور یہ امن منہ زور اسرائیل کا منہ بند کر سکتا ہے۔ BLACK TUSEDAY