تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ بلا آخر امریکہ کے مسلم د شمن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، دنیا میں قائم ناجائز ملک اسرائیل کو تقویت پہنچانے کے لیے اس کے دارلخلافہ مقبوضہ بیت المقدس، جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ یوروشلم میں منتقل کر نے کا حکم جاری کر دیا۔ اس سے قبل امریکہ کے دم چھلہ برطانیہ نے مشہور زمانہ یک طرفہ بلفورس معاہدہ کر اسرائیل کی ایک ناجائز مملکت کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔اسرائیل نے اپنی آباء کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صدیوں سے آباد مسلمان فلسطینیوں کو ان گھروں سے بیدخل کر کے وہاں ساری دنیا سے بلائے گئے یہودیوں کو آبادکیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اقوام متحدہ نے ان آبادیوں کو ناجائز قرار دیا اور اسرائیل کو ان اقدامات سے کئی بار منع بھی کیا مگر اسرائیل نے امریکا کی ایما پر ایک نہ مان کر دی۔ شیطان کبیر امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قرراردادوں کو نہ مانتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی بھی جاری کی ہوئی ہے۔ اور اب دنیا کے شیطان کبیر نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم میں منتقل کر کے مسلم دشمنی کا ثبوت فراہم کر دیا۔ اس سے قرآن کا یہ کہنا ثابت ہو گیا کہ یہود و نصارا مسلمانوں کے ہر گز دوست نہیں ہو سکتے۔
امریکہ نے ٨ نومبر ١٩٩٥ء میں یورشلم ایمبیسی ایکٹ قانون پاس کیا تھا۔اس ایکٹ کے تحت امریکہ کو اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنا ضروری تھا۔ اس ایکٹ میں ایک شک ڈالی گئی تھی کہ اگر امریکی صدر سیکورٹی کے حوالے سے ضروری سمجھے تو اس ایکٹ کو چھ ماہ کے لیے موخر کر سکتا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدور اس کو موخر کرتے رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ نے اس ایکٹ پر عمل کرتے ہوئے مسلم دشمنی کا ثبوت فراہم کر دیا۔مسلم دنیا کے حکمران جن میں پاکستان،سعودی عرب،ایران ،مصراور ترکی وغیرہ شامل ہیں نے امریکہ کی اس حرکت کے خلاف واجبی سی آواز بلندکی ۔ دنیا کے مختلف شہروں میں امریکا کے خلاف مسلمانوں نے مظاہرے کیے۔ جمعہ کی نماز کے بعد ملک بھر میں جماعت اسلامی نے مظاہروں کی کال دی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ مذمتی قراداد منظور کی ہے۔تمام اسلامی ملک امریکی سفیروں کو ملک بدر کریں۔ امریکا فوری طور پر سفارت خانہ منتقل کرنے کا فیصلہ واپس لے۔ ترکی کے صدر نے او آئی سی کا اجلاس بلانے کا کہا ہے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس کی تاہید کی ہے۔ چین، روس اور برطانیہ نے بھی نے مذاہمت کی ہے پوپ ، یورپی یونین اوراقوام متحدہ نے بھی اس فیصلہ کو مسترد کر دیا ہے۔ فلسطین میںبھی نہتے لوگوں نے ذبردست مظاہرے کیے۔ اسرائیل کی طرف سے آ نسو گیس کے شیل لگنے سے کئی فلسطینی زخمی بھی ہوئے۔ پو یہ باتیں تو ہم پہلے بھی سنتے آئے ہیں۔کیا شیطان کبیر نے کبھی بھی ان باتوں کو مانا ہے؟ جواب نہیں مانا ہے۔ مسلم ملکوں کے حکمران ابھی تک امریکا کی ذہنی غلامی ہیں۔ان کے اس احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ اس لیے کہ مسلم دنیا میں صلیبیوں کے سرخنہ امریکا کے حکم کے بغیر ان ملکوں کی پالیسیاں ہی نہیں بنتی ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل مسلم دنیا کے ملکوں نے فوجی اتحاد جس سربراہ امریکا کے صدر ٹرمپ کوبنایا۔ پہلے اسی امریکا نے مسلم ملکوں میں دہشت گرد پیدا کیے۔پھر پور میڈیا مہم چلا کر مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے دیا۔ مسلمانوں کے مقدس فریضہ جہاد فی سبیل اللہ کے عمل کو دہشت گردی قرار دے دیا۔ٹی ٹی پی بنائی جس نے اپنی ہی مسلمانوں کے گلے کاٹے اور ان سے فٹ بال کھیلا۔ مساجد، امام بارگاہوں، مزارات اور پورے پاکستان میں دہشت گردی پھیلائی۔امریکا نے داعش بنائی جس نے مسلمان کی بزرگ ہستیوں کے مزارات پر بلڈوزر چلا کر گرا دیے۔ تاکہ مسلکی لڑائی شروع ہو۔ ان دہشت گردوں نے کبھی شعیہ کو قتل کیا اور ذمہ داری سنی پر ڈال دی۔ کبھی سنی کو قتل کروایا اور اس کی ذمہ دار شعیہ کو قرار دیا۔
یہ کام اپنے ناپاک مقاصدکے حصول کے لیے مسلم دنیا کے ملکوں میں کرتے رہے ہیں۔کیا مسلمان حکمرانوں اور خواص نے یہ نہ سوچا کی ہزاروں سالوں سے ایسی قبیح حرکت کبھی بھی کسی مسلمان نے نہیں کی اور اب یہ کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو ا، اور ہو رہا ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے صلیبیوں کو اپنے اپنے ملکوں میں کھل کر کام کرنے کی اجازت دی رکھی ہے۔ صلیبی مسلمانوں میں انتشار پھیلانے، ان کو اپنی تہذیب سے بیگانہ کرنے اور اپنے بے ہودہ رنگ میں رنگنے اوراسلامی تہذیب کو ختم کرنے اور زوال پذیر مغربی شیطانی تہذیب کو پھیلا نے اور مسلمانوں ہی میں دہشت گرد پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں ان کی فلاح صرف اور صرف اپنی ماضی کی طرف لوٹ جانے میںہے۔ کئی بار سروے کرنے سے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مسلم دنیا کے ٩٠ فی صد عوام امریکا صلیبیوں کے خلاف ہیں۔ مسلم عوام اسلامی نظامِ حکومت چاہتے ہیں۔مگر اس میں امریکی پٹھو حکمران حاہل ہیں۔مسلم دنیا جس نے ابھی کچھ عرصہ پہلے دنیا میں کامیابی سے ایک ہزار سال حکمرانی کے جوہر دکھائے تھے۔ان کو اپنے شاندار ماضی سے بیگانہ کر دیا گیا۔ رسولۖۖ اللہ کی قائم کردہ مدنیہ کی اسلامی ریاست کے قیام بعد ٩٩ سال میں اُس وقت دنیا کے معلوم چار براعظموں کے غالب حصہ پر مسلمان حکمران رہے ہیں۔ یہ فتوحات صلیبیوں ، مجوسیوں اور مشرکوں کی ظلم و زیادتی سے بھری حکومتوں کے سامنے اسلام کے پر امن، عدل و انصاف، انسانی حقوق پر مبنی اصولوں کی بنیاد پر دیر تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی۔
مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی ہوئی مختلف قوموں کو اسلام کے با بر کت نظام ِ حکومت نے ایک لہڑی میں پروئے رکھا تھا۔ پھر قوموں کے عروج وزوال کی کسوٹی نے اپنا کام دکھانا شروع کیا۔بقول فلسفی شاعر علامہ اقبال:۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل طائوس و رباب آخر
جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کی طرف سے بتائے ہوئے حق حکمرانی کو چھوڑ کر مسلمان حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے۔جس کو شاعر نے اپنے ایک فارسی کے مصرے میں کیا خوب بیان کیاہے کہ:۔بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔مطلب بابر عیش کر لو زندگی دوبارہ نہیں ملتی۔ پھر اللہ کی پکڑ آئی اور جاہل تاتاریوں نے مسلمان کی حکومتوں کو ایک ایک کر کے تیس نہس کر دیا۔ ترقی کی ایک ایک نشانی کو مٹا دیا۔ اللہ کی طرف سے ایک موقعہ پھر عطا کیا گیا اور مسلمانوں کی شاندار تہذیب سے متاثر ہو کر تاتاری مسلمان ہوگئے۔پھر جن قوموں کی ظلم ستم سے بھری حکومتوں کو اسلام کے بابرکت نظام نے شکست دی تھی جو تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ مسلمانوں کی عیش کوشیوں کی وجہ سے صلیبی سامنے آئے۔
مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے ان کے اندر میں سے کمزور عقیدے، نمایشی زندگی اور دولت کے پجاریوں کو تلاش کیا۔لارنس آف عربیہ کو عربوں میں قومیت پر اُبھارنے کے لیے لگایا۔جس نے مسلمانوں کو آپس میںلڑایا۔ شریف مکہ کے فوجیوں نے ترکوں کے ساتھ قومیت کی بنیاد پر لڑائی چھیڑی۔ ہندوستان میں میر جعفر اور میر صادق پیدا کیے۔ جنہوں نے ٹیپو شہید سے غداری کی۔صاحبو!مسلمانوں کو اللہ کے حکم اور رسولۖ اللہ کی حدیث کو یاد رکھنا چاہیے۔ اللہ کا حکم ہے کہ یہودو نصاراتمھارے کبھی بھی دوست نہیں ہو سکتے جب تک تم ان جیسے نہ ہو جائو۔اور رسولۖ اللہ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جس طرح میری امت کے شروع کے حصہ نے اسلامی تعلیمات پر عمل کر دنیا میں عروج حاصل کیا تھا۔ میری امت کے آخری حصہ بھی اسی اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے عروج حاصل کرے گا۔اسلامی دنیا کے عوام تو یہ چاہتے ہیں۔ مگر اس میں رکاوٹ امریکی پٹھو مسلم حکمران ہیں۔ایٹمی قوت رکھنے والاپاکستان، تیل کے دولت سے مالامال عرب حکومتیں اور اسلام کے نام پر مر مٹنے والی عوام کو اسلامی تعلیمات سے سرشار انقلابی قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر مسلم دنیا میں ایسی قیادت ہوتی تو ٹرمپ کو مسلمانوں کے قبلہ اوّل بیت المقدس(یروشلم)اسرائیل کا درالخلافہ منتقل کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔