تحریر : عتیق الرحمٰن رشید باقر نجفی رپورٹ فل الفور مدعی کو دینے اور ۳۰ یوم میں اسے پبلک کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے فیصلے کے بعد حکومت شدید دباؤ میں آگئی اور اسے رپورٹ پبلک کرنی ہی پڑی. اس مرحلے پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس ایک اہم دور میں داخل ہوگیا ہے اور پاکستان کی سیاست اس وقت ماڈل ٹاؤن کیس اور پاکستان عوامی تحریک کے گرد گھوم رہی ہے- گوکہ روز اول سے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں سوائے مسلم لیگ نون اور اسکی اتحادی جماعتوں کے ماڈل ٹاؤن سانحہ پر پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ ہیں اور انکے لیڈرز مختلف احتجاجی جلسوں میں اسٹیج کی زینت بنتے رہے ہیں لیکن نجفی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد ہر سیاسی جماعت ڈاکٹر طاہر القادری کی حصول انصاف کے لیے کی جانے والی ممکنہ احتجاجی تحریک میں شمولیت کا اعلان کر رہی ہے.
اپوزیشن کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کے سربراہ اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ایک بڑے وفد کے ہمراہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کے لیے پاکستان عوامی تحریک سکریٹریٹ آئے اور ناصرف اس اشو پر اپنی حمایت کا یقین دلایا بلکہ احتجاجی تحریک میں ڈاکٹر قادری کے کنٹینر پر بھی چڑھنے کا عندیا دے دیا۔ پیپلز پارٹی کا شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفے کے مطالبہ پر بھی عوامی تحریک کا ساتھ دینا حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔صحافی کے سوال پر آصف علی زرداری نے انتخابی اتحاد پر بھی رضامندی کا اظہار کیا لیکن اس مرحلے پر ڈاکٹر صاحب اس موڈ میں نظر نہیں آتے۔
پیپلز پارٹی جو کہ بلاشبہ ایک وقت میں چاروں صوبوں میں مقبول اور ووٹ بنک رکھنے والی جماعت تھی لیکن گذشتہ حکومت میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی اور کرپشن کے الزامات نے پنجاب میں انکی ساکھ کو بے انتہا نقصان پہنچایا، پنجاب کی جانب عدم توجہہ اور مسلم لیگ ن سے مصالحتی پالیسی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور بہت سے پرانے جیالوں نے آنے والے الیکشن میں بہتر چانس کے لیے تحریک انصاف کا رخ کرلیا۔ اب جبکہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کو ہے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ انڑ ہونے اور سیاسی ماحول پیدا کرنے کے لیے کسی ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو کہ عوام کو اکٹھا کرنے کی طاقت رکھتی ہو اور اس کا اچھا ووٹ بینک بھی ہو۔ بلاشبہ پاکستان عوامی تحریک نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے پاس سب سے مضبوط تنظیمی نیٹ ورک اور تربیت یافتہ کارکن ہیں جو کہ عوام کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں نیز عوامی تحریک نے نظام کی تبدیلی کے منفرد ایجنڈے کے سبب عوام کی اچھی خاصی تعداد کو متاثر بھی کیا ہے جو کہ اس نظام میں تبدیلی کے خواہش مند ہے ۔
پاکستان عوامی تحریک ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے انصاف کے لیے احتجاجی تحریک کا ارادہ رکھتی ہے نواز شریف کی پانامہ کیس میں نااہلی کے بعد اگر شہباز شریف بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو مسلم لیگ ن کے لیے بہت نقصان دہ ہوگا اور وہ اپنا شیرازہ اکٹھا نہیں رکھ پائے گی۔ ویسے بھی پانامہ اور ماڈل ٹاؤن سانحہ کی وجہ سے نون لیگ کی عوامی مقبولیت میں بے انتہا کمی آئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بھی جو کہ اپوزیشن کی دوسری بڑی اور مقبول جماعت ہے عوامی تحریک کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے عمران خان نے خود اس بات کا اظہار کیا کہ وہ عوامی تحریک کے مطالبات سے متفق ہیں اور اگر ڈاکٹر طاہرالقادری احتجاجی تحریک کا اعلان کریں تو وہ انکا ساتھ دیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے پانچ رکنی اعلیٰ سطحی وفد نے ہفتہ کے روز شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی قیادت میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کی اور اپنی حمایت کی تجدید مشترکہ پریس کانفرنس میں کی اس موقعہ پر عوامی تحریک کی جانب سے 3 مطالبات کی صورت میں اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا گیا جس سے تحریک انصاف نے اتفاق کیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے عوامی تحریک کے تین مطالبات 1. شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ فوری استعفیٰ دیں- 2. سانحہ میں بالواسطہ، بلاواسطہ ملوث افسران کیس کے حتمی فیصلہ تک عہدے چھوڑ دیں- 3. سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کیلئے پاناما طرز کی بااختیار اور غیر جانبدار جے آئی ٹی بنائی جائے-
پاک سرزمین پارٹی کے چئیرمین ایک بڑے وفد کے ہمراہ اپنی حمایت کا یقین دلانے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادی سے ملاقات کر چکے ہیں مسلم لیگ ق، مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل ، شیخ رشید کی بھی اتوار کے روز ملاقات متوقع ہے ایک بہت بڑی تحریک شروع ہونے کو ہے اور مسلم لیگ نون کو بچانے کے لیے اب پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی نہیں آئیں گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری میں جہاں اور بہت سی خوبیاں ہیں وہاں وہ ایک زیرک سیاست دان بھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ کس وقت میں حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے وہ جب بھی ایکٹو ہوئے پارلیمانی سیاست میں اسٹیک نہ ہونے کے باوجود بھی پوری سیاست کو اپنے گرد گھمادیتے ہیں اس وقت سیاست شہدائے ِماڈل ٹاؤن کے انصاف کی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے گرد گھومے گی اور جو ں جوں حکومت کی گرفت کمزور ہوگی عوامی تحریک کے 14 شہداء کے انصاف کا عمل اتنا جلد پائے تکمیل کو پہنچے گا۔
باقر نجفی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد یہ بات تو مصدقہ ہے کہ اس کیس سے شریف برادران اور رانا ثناء اللہ بچ نہیں پائیں گے۔ شریف خاندان کی سیاست کا چراغ دونوں بھائیوں کے سیاست سے باہر پر اگلی نسل میں منتقل ہونے کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ اقتدار کے گرد گھومنے والے مسلم لیگی اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایسی گھڑی میں کسی اور درخت پر اپنا گھونسلہ بنالیں گے۔ 17 جون 2014 کا واقعہ شریف برادران کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوگا، جیسا کہ ہر عروج کو زوال ہے لگ یہ رہا ہے کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ اور ڈاکٹر طاہرالقادی کی تحریک نون لیگ کے زوال کا باعث بنے گی۔