تحریر : رائو عمران سلیمان بہت سے پاکستانی مسلمانوں کو حقیقت میں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس کی عزت وحرمت عالم اسلام کے اندر کس قدراہمیت رکھتی ہے ،بیت المقدس کے بہت سے جانثاران (قبتہ )گنبدالصخرا کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہی مسجد اقصیٰ ہے، مسجد اقصیٰ کا احاطہ اس قدر بڑا ہے کہ اس میں پانچ ہزار سے زائد نمازیوں کے لیے نماز کی گنجاش موجود ہے یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے اسی کے احاطے میں گنبد الصخرا موجود ہے اس وقت کے سلطنت اسلامیہ کے خلیفہ عبدالمالک کے عہد میںیہاں مسجد اقصیٰ کی تعمیر عمل میں آئی تو صخرا معراج کے مقام پرگنبدالصخرا بنایاگیا،یعنی گنبدالصخرا کے اسی احاطے میں حرم القدسی کے جنوبی حصے میں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔یہ ہی حال پاکستانی مسلمانوں کا ہے کہ وہ جزبانی طور پر بیت المقدس کے معاملے میں اپنے اندر بہت بے چینی اور جزبہ رکھتے ہیںاور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نزرانہ بھی دینے کے لیے تیار ہیں مگر اس مقدس مقام کی بہت سی تاریخی خصوصیات سے نابلد ہیں۔اس سلسلے میں میں اپنے پڑھنے والوں کو ایک واقعہ مثال دینے کے لیے پیش کرتاچلو ں کہ تحریک آزادی کے دنوں میں مولانا حسرت موہانی لندن گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے ہندوستان سے کراچی تشریف لارہے تھے طے یہ پایا تھا کہ قائداعظم سمیت تمام رہنمائوں کو ایک جگہ جمع ہوکر جانا تھا سر عبداللہ ہارون کا گھر اسٹیشن کے قریب ہونے کے باعث سب کے اکٹھے ہونے کا مقام ٹھرا۔اس سلسلے میں مولانا حسرت موہانی بھی ہندوستان سے کراچی آنے کے لیے ٹرین میں سوار تھے۔
میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والے سر عبداللہ ہارون نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ انڈیا سے مولانا حسرت موہانی صاحب تشریف لارہے ہیں ان کو عزت کے ساتھ گھر پر لے آئو لہذا انہوں نے اپنے آدمیوںکوسٹیشن پر بھیج دیامولانا صاحب اس دور کے مناسبت سے کچھ زیادہ ہی سادہ طبیعت آدمی تھے انہوںنے اپنے سامان یعنی گٹھڈی جس میں ان کی لنگی ،شیر وانی اور ایک آدھ سوٹ موجود تھا وہ ان کے پاس موجود تھی گاڑی ریلوئے اسٹیشن پر پہنچی تو مولانا صاحب لوگوں سے پتہ معلوم کرتے ہوئے عبداللہ ہارون کے گھر جاپہنچے اور باہر کھڑے چوکیدار کو کہا کہ میرا نام حسرت موہانی ہے اور میں عبداللہ ہارون سے ملنے آیاہوں اس پر چوکیدار نے مولانا صاحب کپڑوںاور ہاتھ میں پکڑے سامان کو معمولی سمجھتے ہوئے کہاکہ اس وقت بڑے صاحب کے کچھ خاص مہمانوں نے آناہے اس لیے آپ ان ملاقاتوں کے بعد ان سے مل لیجئے گا ،لہذا مولانا صاحب نے چوکیدار کو اچھا کہا اور ایک جانب سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے ۔کافی دیر بعد جب گاڑی اسٹیشن سے چھوٹی توعبداللہ ہارون کے تما م آدمی واپس گھر آگئے اور انہیں بتایا کہ اس گاڑی سے مولانا حسرت موہانی صاحب آئے ہی نہیں ہیں ،عبداللہ ہارون یہ سن کر بہت حیران ہوئے کہ مولانا صاحب نے توخود گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے مجھے تار بھیجا تھا بھلا ایسا کیسے ہوسکتاہے ؟۔اس ساری گفتگو کو چوکیدار بھی خاموشی سے سن رہاتھا۔چوکیدار نے سرعبداللہ ہارون کے آگے پریشانی کے عالم میں زبان کھولی اور کہاکہ ایک بڑے میاں دروازے کے باہر سیڑھیو ں پر بیٹھیں ہیں اور اپنا نام حسرت موہانی بتاتے ہیں،سر عبداللہ ہارون نے اسی وقت ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا کہ” اوہ یہ کیا کیا تم نے “وہ فوراً ہی دروازے کی جانب لپکے اور سیڑھیوں پر بیٹھے مولانا صاحب کو عزت کے ساتھ گھر میں لے آئے۔
دوستوں اس تحریر میں ہم نے دیکھا کہ مولانا صاحب اپنے ہی استقبال کے لیے آنے والے لوگوں کے درمیان سے گزر گئے اور کسی نہ پہچانا حتیٰ کے گھر کے چوکیدار نے بھی ٹھیک طرح سے معلوم نہ ہونے کی بناپر مولاناصاحب کو گھر کے باہر ہی بٹھادیا جبکہ گھر میں چہل پہل اور ساری بھاگ دوڑ بھی انہیں کے استقبال کے لیے ہورہی تھی اس میں شریک توسبھی لوگ تھے مگر مولانا صاحب سے واقف کوئی ایک بھی نہ تھابس کچھ یہ ہی حال بیت المقدس کے معاملے میں ہمارے بہت سے مسلمان بھائیوں کا ہے جو جزبات کی روح میں اس قدر بہہ چکے ہیں کہ جس کی واپسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے مگر وہ پوری طرح سے اس عظمت کے مقام سے واقف نہیں ہیں کہ اصل میں بیت المقدس کا مقام مسلمانوں کے لیے کیوں اس قدر اہمیت کا حامل کہلاتاہے ۔اس سلسلے میں بہت سی اہم باتوں کا جاننا بہت ضروری ہے ۔اب زرا ہم یروشلم یعنی بیت المقدس کی کچھ انتہائی ضروری تاریخوں کا مطالعہ کرتے ہیں یوں توبیت المقدس کی تاریخ اس قدر قدیم اور جنگوں سے بھری پڑی ہے کہ اس پر دنیا کی مختلف زبانوں میں موجود بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہے مگر موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہم چند ایک اہم تاریخی واقعات کا تزکرہ کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یروشلم صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک بھی انتہائی مقدس ترین مقام کی حیثیت رکھتاہے ، مذہبی اہمیت کے اعتبار سے یہاں مسجد اقصیٰ یہاں موجود ہے جسے اسلامی اعتبار سے بیت المقدس کہا جاتاہے ،مسلمانوں کا قبلہ اول بھی یہ ہی ہے ،مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300کلومیٹر ہے ،جبکہ مسلمانوں کے ساتھ اس سرزمین کی عقیدت کی بڑی وجہ عیسائیوں اور یہودیوں سے زیادہ اس لیے بھی ہے کہ اس دنیا میں جتنے بھی پیغمبران اسلام اس دنیا میں تشریف لاچکے ہیں ان میں سے بیشتر کی پیدائش اور تبدلیغ کا مرکززیادہ تر بیت المقدس ہی رہاہے ، عیسائیوں کا مقدس چرچ آف ہولی حضرت عیسیٰ کا جائے پیدائش “بیت الحلم “بھی یہاں ہی واقع ہے ،جبکہ یہودیوں کے لیے وہ مغربی دیوار ،”دیوار گریہ “موجود ہے یعنی یہودیوں کا مقدس مقام “وال آف دی مائونٹ “کا کچھ حصہ ہے ،جو ان کے کے لیے کسی نہ کسی لحاظ سے عقیدت کاباعث کہلاتاہے ۔مگرمسلمانوں کے لیے یہ مقام سب سے زیادہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب جبرائیل امین کے ہمراہ معراج پر تشریف لیجانے کے لیے مختلف مقامات مقدسہ سے ہوتے ہوئے بیت المقدس کے دروازے پر پہنچے تووہاںان کے استقبال کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر جمع تھے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام انبیاء علیہ السلام سے مصافحہ کیااور وہاں سب انبیاء السلام کو نماز پڑھائی۔
جبکہ تاریخی اعتبار سے ،2000قبل مسیح میںحضرت ابراہیم علیہ اسلام عراق کے شہر(ار)جودریائے فرات کے کنارے آباد تھاہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں جبکہ دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کومکہ میں آباد کیاحضرت اسحاق علیہ السلا م کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھالہذا ان کی نسل بنی اسرائیل کہلائی ۔ جبکہ حضرت یعقوب ،حضرت یوسف ،حضرت دائود ،حضرت سلیمان ،حضرت یحییٰ اورحضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت اور بہت سے پیغمبران اسلا م نے اسی سرزمین پر تبلیغ کا کام شروع کیا۔یہ ہی وجہ ہے بیت المقدس کو پیغمبروں کی سرزمین بھی کہاجاتاہے ۔آج ہم نے دیکھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیلی دارلحکومت تسلیم کرانے کے اعلان کے بعدپوری دنیا کے مسلمانوں میں ایک ہلچل سے مچی ہوئی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا نے یہ قدم اٹھاکر خود کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرلیاہے، ٹرمپ نے امریکا کے اندر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے انتہائی دائیں بازوں کے لوگوں اور اسرائیل کے رہنمائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے لیکن انہیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے اس فیصلے سے امریکا کے طویل المعیادمفادات کو مشرقی وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے سامنے کس قدر نقصان اٹھانا پڑیگا۔