ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان

Palestine Muslims Protest

Palestine Muslims Protest

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
میں نے کہا دوست حوصلہ کرو اللہ ہے ناں۔مگر وہ تھا کہ بس راوی چناب بنا کے رکھ دیا تھا اس نے اپنے ان دو نینوں کو۔دنیا بھر کے مسلمانوں کی رسوائی پر روتی آنکھوں کو دیکھ کر مجھے بھی رونا آیا جمعے کا دن تھا وہ مسجد میں خوشبو لگا کر آیا میری طرف دیکھ کر زیر لب مسکرایا ۔میں نے کہا جمعے کی نماز کے بعد ملتے ہیں۔اسی کونے میں جہاں اکثر نماز کے بعد گپ شپ ہوا کرتی تھی۔میں نے کہا برادر روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر جس طرح آپ بلبلا کے روئے میرے دل میں آپ کی جگہ اور بھی بڑھ گئی ہے آپ واقعی ایک درد مند مسلمان ہیں اللہ پاک پوری دنیا کے مسلمانوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔میں نے کہا آج اسلام آباد میں ایک سیاسی پارٹی نے روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے لئے مظاہرے کا انتظام کیا ہے میں جا رہا ہوں گاڑی میں جگہ بھی ہے چلتے ہیں۔کہنے لگے بھائی جان بات تو آپ ٹھیک کر رہے ہیں لیکن آج گھر میں مہمان آ رہے ہیں پھر کبھی سہی۔کہا کوئی بات نہیں دوسرے سے بات کی ان کے پاس بھی جواب تیار تھا بیگم بیمار ہے دوائی لینی ہے۔غرض ایک صاحب جو فیس بک پر ہمیشہ حق و صداقت کی نشانی بنے رہتے ہیں ان سے بات ہوئی فرمانے لگے گھر میں تین گاڑیاں ہیںدو بیٹے لے گئے ہیں ایک ورکشاپ میں ہے کہا حضور میری پرانی سی لانسر موجود ہے جواب آیا وہ تو کوئی بات نہیں چلیں پھر کبھی سہی۔اس سوسائٹی اور اس محلے میں جس کسی کو کال کرو اس کا جواب یہی ہو گا ۔مامے خان ہم بنے پھرتے ہیں دنیا بھر کے لیکن ایک آواز بلند کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔جی سب کا چاہتا ہے کہ روہنگیا کشمیر فلسطین کے مسلمانوں کے حالات بدلیں ان پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں وہ مظالم بلند ہوں مگر یہ چاہتے ہیں کہ یہ کام کوئی اور کرے اس کے لئے میرے جیسے دیوانے ہیں ناں۔ایک روز اسی محلے میں بازار میں ایک کیمپ لگایا وہ بھی کوئی اسی طرح کا معاملہ تھا ایک صاحب جو باریش تھے اتفاق سے ان کی دوکان کے سامنے کیمپ لگا فرمانے لگے کیمپ ہٹائیے میرے گاہک متآثر ہو رہے ہیں۔عورتوں کا گزر ہے۔میں نے کہا حضور یہ ایک قومی مسئلہ ہے اس کے لئے ہم نکلے ہیں آئیں ہمارا ساتھ دیں لیکن موصوف بڑے بڑے حوالے لیکر آ گئے۔ظاہر ہے اس قسم کے لوگ لکھنوی انداز سے نہیں سمجھتے ٹھیٹھ پنجابی میں سنائی تو پتلی گلی سے نکل گئے۔

قارئین بنی اسرائیل بھی یہی کچھ کرتی تھی جب ان سے کہا گیا کہ قربانی دو تو بچھڑے کے رنگ و روپ کے بارے میں سوال جواب شروع کر دئیے اور ایک موقع پر کہا جائو تم اور تمہارا رب لڑائی کریں ہمیں تکلیف نہ دو اور اسی قوم کے لئے من و سلوی اترتا رہا اور آخر میں یہ لوگ ذلیل و رسوا ہو گئے ۔میں یہ چاہتا ہوں خود کچھ نہ کروں اور میرے لئے کوئی دوسرا نکلے۔شائد اسی وجہ سے ہم یورپین لوگوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔عراق جنگ کی مزاحمت میں جو مظاہرے یورپ میں ہوئے کسی جگہ نہیں ہوئے خود امریکی اس پر احتجاج کرتے رہے۔ابھی حالیہ تحریک ختم نبوت حضرت محمدۖ پر دیکھ لیجئے ایک ایسا طبقہ جو بڑی تھوڑی تعداد میں تھا وہ اپنی ہزار خرابیوں کے باوجود ڈٹ گیا اور اس نے وہ بات منوا لی جس کی خواہش پاکستان کے ہر بچے کو تھی کچھ لوگ اس پر معترض تھے کہ ان کی زبان ٹھیک نہیں ہے زبان ٹھیک والے اشرف جلالی تھے انہیں کیا ملا؟ میں یہ نہیں کہتا کہ گفتگو میں غلاظت ہو لیکن وہ جن کی زبانیں کوثر و تسنیم سے دھلی تھیں وہ کدھر تھے؟ہمارے ہاں بد قسمتی یہ ہے کہ ایک جملہ بڑا یاد کیا جاتا ہے کہ ماں بھی بچے کو اسی وقت دودھ دیتی ہے جب وہ رونا شروع کرتا ہے۔

میں تحریک پاکستان کے بعد کا فرد ہوں میں نے ہوش سنبھالی تو پہلی تحریک ایوب خان کے خلاف چلتے دیکھی ۔یہ تحریک ذوالفقار علی بھٹو نے چلائی ۔ان کا خیال تھا کہ مجھے ایوب خان نے غلط نکالا ہے۔مجھے کیوں نکالا؟کی اولین تحریک کے بانی بھٹو صاحب تھے انہوں نے معاہدہ تاشقند کی آڑ میں ایوب خان کو مورد الزام ٹھہرایا کہ ہم نے جیتی ہوئی جنگ میز پر ہاری ہے حالانکہ بات ایسی نہ تھی۔آپریشن جبرالٹر ذوالفقار علی بھٹو کی تخلیق تھی اور وہ بری طرح ناکام ہوا۔بھٹو نے احتجاج کے نئے انداز اپنائے وہاں بھی یہی کچھ ہوا کہ تم جائو ہم آرام کر رہے ہیں۔قوم نے ایک اور تحریک بنگلہ دیش نا منظور کی صورت میں چلائی جس کی قیادت جاوید ہاشمی نے کی یہ طالب علم لیڈر تھے انہوں نے شہر شہر جلسے کئے اور قوم کو جگانے کی کوشش کی ایک محدود طبقے نے ان کا ساتھ دیا جن میں جماعت اسلامی کے لوگ تھے۔یہ وہ بھی چیختے رہے اور یہ تحریک اس وقت ناکام ہو گئی جب بھٹو نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور کی آڑ میں بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے کیا۔یقین جانئے تھوڑے لوگ تھے جو اس کے سامنے ڈٹ گئے اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ایک اور تحریک جو نظام مصطفی کی تحریک کہلائی اس میں بھی چند شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جس کے نتیجے میںمارشل لاء لگا۔بعد میں جو تحریکیں چلیں ان میں تھوڑے لوگ شامل ہو کر نتائیج کو بدل کے رکھ نے میں کامیاب ہوئے۔

لوگ احتجاج کرتے ہیں مگر کم ہی ہیں جو میدان میں نکلتے ہیں ہماری خواہش ہے کہ ہم اس آگ کے دریا میں نہ کودیں کوئی دوسرا کود کر ہمارے لئے انعامات کی پوٹلی کھینچ لائے۔میرا کہنے کا مقصد ہے کہ تھوڑے سر پھرے ہی پانسہ لٹ کے رکھ دیتے ہیں۔

سوچ لیجئے جب تک ہم زندہ ہیں ہمیں اس قسم کے چلینجز کا سامنا کرنا ہو گا۔اس وقت رضائی میں منہ دے کر چھپ کر طوفان کے گزرنے کا انتظار کریں گے یا اس طوفان کا مقابلہ۔
روہنگیا مسلمان اسی طرح مر رہے ہیں ان کی شام الم ختم نہیں ہوئی ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے اوپر جو مظالم ڈھائے گئے دنیا نے اسے اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جب تک امت مسلمہ کی طرف سے ترکی نے آواز بلند نہیں کی ۔لگتا ہے کہ ایک کام جو کبھی پاکستان نے اپنے ذمے لے رکھا تھا اب ترکی یہ کام کر رہا ہے۔اپنی مرضی کے سودے اپنی خواہشوں کے غلام بن کر کر رہے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ یہ ہوا کیسے۔اپنے حصے کی کوشش اور ہمت کئے بغیر روشنی نہیں ہو گی۔احمد فراز نے کیا خوب کہا شکوہ ء ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اتنا جھلا بھی نہیں جتنا دنیا نے اسے سمجھ رکھا تھا ۔نیٹ پے سیکرٹ گورنمنٹ کے حوالے سے کچھ چیزیں پڑی ہوئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ کون ہیں وہ لوگ جو دنیا کو خفیہ انداز سے چلا رہے ہیں ۔جائیے دیکھئے اور جانئے کہ یہ سب حکمران ٹوڈی ہوتے ہیں ان سے خاص کام لے کر ہٹا کر پرے پھینک دیا جاتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ کام کر دیا جو سابق امریکی صدور نہیں کر سکے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کے لئے نیو ورلڈ آرڈر میں مدتوں پہلے اعلان کر دیا گیا تھا کہ سب اپنی خیر منائیں۔نیم مردہ عراق مرا ہوا لیبیا منتشر لبنان ٹوٹا زخموں سے چور شام اسرائیل کا کیا کر سکتا ہے۔اور یہ بھی یاد رکھئے مصر سے مرسی کی حکومت کا خاتمہ۔یہ تیاری کی گئی اس شام الم کے لئے۔اور جب سب معاملات سدھار لئے گئے تو زخموں سے نڈھال امت مسلمہ پر یہ وار کر دیا گیا کہ تل ابیب سے ایمبیسی اب ہو گی منتقل بیت المقدس میں۔مسلمانوں کا قبلہ ء اول۔جنرل مشرف کے دور میں پاکستان کے ساتھ اور ظلم تو ہوئے سو ہوئے سب سے پہلے پاکستان کا بزدلانہ نعرہ لگا یا گیا میرے نزدیک یہ ظلم عظیم تھا۔کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی ہی نبیڑ تو۔جدہ میں ایک قونصل جنرل ہوا کرتے تھے نام تھا چودھری نواز جس وقت نائن الیون ہوا پاکستان کچھ دنوں کے لئے ٹھیکے دار بنا کہنے لگے چلیں ایک سجدہ کرکے ہزار سجدوں سے نجات ملی ہے ان کا اشارہ تھا کہ اب پاکستان جو امریکہ کے سامنے جھکا ہے تو ہمیں ان عربوں اور دیگر چھوٹے چھوٹے ملکوں سے نجات حاصل ہوئی ہے جن کے ترلے کرنے پڑتے تھے۔آج پتہ نہیں کہاں ہیں اللہ سلامت رکھے اپنے اس محترم بھائی سے پوچھتا کہ ہماری جبینیں تو اب بھی امریکہ سمیت سب کے سامنے جھکی ہوئی ہیں بتائیے اب کیا کریں۔

جارج بش سے شروع ہو کر ڈونلڈ ٹرمپ تک سب نے امت مسلمہ کی چھترول کی۔سامنے رکھا ایران کو اور ٹھکائی کر دی دوسروں کی۔آج مرحوم جنرل حمید گل یاد آئے جن کو فکری نشستوں میں گھر بلایا کرتا تھا انہوں نے ایک یاد گار جملہ کہا تھا ایران بہانہ ہے افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔دیکھیئے وہی کچھ ہوا سب کی دھلائی ہو گئی بہانے اور ٹھکانے ادھر ہی ہیں نشانے کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے ۔اب پاکستان کو گھیرے میں لیا جا رہا ہے۔اللہ تعالی ان کے مکر اور چالوں کو بہتر سمجھتا ہے۔ویسے اس روز کہیں بیٹھے ہوئے تھے جوان مجھ سے سوال کرنے لگے کہ آپ کا کیا خیال ہے پاکستان ان حالات سے کیسے نکلے گا۔کیا پاکستان دوسرے اسلامی ممالک کی طرح پریشان ہو جائے گا۔میرا جواب صاف تھا کہ اللہ اور اس کے رسول محمد ۖ کے نام پر بنے اس ملک کو کمزور اور توڑنے لیئے لاکھوں حیلے اور حربے کئے جا چکے ہیں لیکن کالی کملی والے کے صدقے یہ ملک اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور رہے گا اسے شیعہ سنی زبان رنگ اور نسل کے نام پر توڑنے کی ہزار کوششیں ہوئیں مگر میراے اللہ نے اسے بچائے رکھا۔شیعہ کمیونٹی پر حملہ ہوا سنی خون دینے پہنچ گئے اور اسی طرح سنیوں پر حملے ہوئے تو شیعوں نے آگے بڑھ کر مدد کی۔میں ضرور شاکی ہوں کہ لوگ اس طرح سامنے نہیں آئے جس طرح کسی زمانے میں نکلتے تھے۔پاکستانی اب سارے کام نیٹ پر کرنا چاہتے ہیں۔انہیں اسی طرح نکلنا ہو گا جس طرح وہ کشمیر کے زلزلے کے وقت نکلے تھے۔پاکستان کو نہ صرف امت مسلمہ کے سرخیل کا کردار ضرور ادا کرنا ہو گا بلکہ اسے دکھی انسانیت کا خادن بننے کا اعلان بھی کرنا ہو گا۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یمن شام لبنان مصر عراق لیبیا میں خونریزی پر وہ ریت منہ چھپا لے۔پاکستانی قوم کو دنیا بھر میں ہونے والے مظالم پر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔مومن کی شان تو جانی پہچانی ہے وہ ظلم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے۔چاہے وہ کسی پر ہو۔ہمارے نبی اکرم حضرت محمد ۖ سرکار مدینہ تو دو جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے تھے۔آپ سے تو اس اونٹ نے بھی رو کر فریاد کی تھی جس پر اس کا مالک اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ لاد کر اسے تکلیف دیتا تھا ۔جانوروں کے لئے بھی محسن و مربی کی امت کے لوگ صرف اپنے لئے نہیں اور نہ ہی صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ جہاں کہیں بھی انسانیت دکھی ہے ان کی مدد کو پہنچے سب انسانوں کے لئے آواز اٹھائیں ۔اللہ پاکستان کو یہ کردار ادا کرنے کی ہمت عطا کرے آمین۔

Engr Iftikhar Chaudhry

Engr Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری