تحریر : شیخ خالد زاہد یوں تو یہ بات طے ہے کہ محبت کرنے والے کائنات کی ہر شے سے محبت کرتے ہیں، یہ محبت کرنے والے درحقیقت کائنات کے تخلیق کرنے والے کے سچے عاشق ہوتے ہیں ۔تبھی تو یہ اپنے معشوق کی ایک ایک تخلیق سے محبت کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس امر سے ان محبت کرنے والوں کی شناسائی کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ اس وقت ہی اخذ ہوسکتا ہے جب محبت کے ساتھ گیان کرنے کا شوق بھی ہو۔ محبت تو بس ہوجاتی ہے کسی بھی گیان کے بغیر لیکن اس محبت کا تعلق اگر روح سے نہیں بندھتا تو بات محبت جیسی کیفیت سے آگے نہیں نکل سکتی اور گھوم پھر کر اپنی جگہ پر آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور عشق اگلی منزل پر مسکراتا تنہا کھڑا رہ جاتا ہے۔
علم ایک ایسا زیور ہے اور ایسا زیور کہ جسے کوئی چرا نہیں سکتا اور اس زیور کی آرائش سب سے سوا ہوا کرتی ہے ۔ ساری دنیا علم کی محبت میں گرفتار ہے مگر یہ محبت روح سے بندھ نہیں پا رہی ، پڑھنے والے کتابوں پر کتابیں پڑھ رہے ہیں مگر اپنی اقدار کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ اپنے بزرگوں کا کوئی احترام نہیں ہے ۔جیسے کسی قسم کی حفاظتی شیٹ لگی ہوئی ہے اور تمام کی تمام تہذیب اس سے ٹکرا کر واپس آرہی ہے۔
پڑھنے کی رغبت والوں کیلئے کتابوں کا ایک ٹھیلا بھی انہیں اپنی جانب مبذول کر لیتا ہے اور ویسے بھی یہ لوگ کتابوں کی بو و باس سے بہت اچھی طرح واقف ہوتے ہیں ۔پاکستانیوں سے علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں اردو بازار ہیں۔ اب یہ ایک الگ بحث معلوم ہوتی ہے کہ اردو بازار کیوں ؟ کیا صرف وہاں اردو میں لکھی گئی کتابیں ہی دستیاب ہیں یا پھر اردو سے محبت کا سبب؟اس پر تحقیق سے آگہی فراہم کرینگے۔ ان اردو بازاروں میں نئی اور پرانی دنیا جہان کی کتابیں دستیاب ہوتی ہے ۔ ان بازاروں میں کافی حد تک لوگوں کا ہجوم دیکھائی دیتا ہے مگر یہ ہجوم نصابی کتابوں اور نصابی سرگرمیوں سے متعلق خریداری کرنے والوں کا زیادہ ہوتا ہے۔ کیا ان بازاروں کا بنیادی مقصد صرف یہی ہے ؟ یہ بھی تحقیق طلب معمہ ہے ۔ابھی گزشتہ دنوں کراچی کے ایک عدد شادی حال بلمقابل یوسف پلازہ ، انچولی کراچی میں کتابوں کا میلہ محدود انداز میں لگایا گیا۔ وہاں موجود منتظم نے بتایا کہ یہ کتابی میلہ کافی سالوں سے اس جگہ لگا رہے ہیں اور کتاب سے محبت کرنے والوں کی محبت ان تک پہچانے میں انکی مدد کررہے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کے اس دور میں کتاب فہمی کیلئے ایسے اقدامات قابلِ تعریف اور قابلِ ستائش ہیں۔
کراچی کی اہم ترین تقریبات میں ایک کراچی بین الاقوامی کتب میلہ بھی ہے جس کے بغیر پچھلے بارہ سالوں سے سال اپنی تکمیل نہیں کرتا ۔ کراچی میں سجنے والا یہ کتابوں کا میلہ سردیوں میں گرمجوشی پیدا کردیتا ہے اور یہ میلہ حقیقت میں علم سے محبت کرنے والوں کیلئے کسی پر تکلف اور پر تعیش ضیافت سے کم نہیں ہوتا ۔ یہ کتابوں کا میلہ بین الاقوامی سطح کا ہوتا ہے ۔ کراچی بین الاقومی کتابوں کا میلہ(Karachi International Book Fair) جس کا ہر سال دسمبر میں انعقاد ہوتا ہے اور کتابوں سے حقیقی محبت کرنے والے جہاں بہت ساری اور وجوہات کی وجہ سے دسمبر کا انتظار کرتے ہیں تو اس میں ایک وجہ یہ کتابوں کا میلہ بھی ہوتا ہے۔ اس میلے میں پہنچ کر بلکل ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی ساحل پر کھڑے ہوں اور آپ کے سامنے حد نگاہ سمندر ہی سمندر ہو پانی ہی پانی ہو ۔ سمندر تو کراچی کی قدرتی خصوصیت ہے مگر اس کتب میلے کو لگانے والے نے کراچی میں کتابوں کا سمندر لگادیا ہے۔ پاکستانی اشاعتی اداروں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طرز کے اشاعتی ادارے بھی اس میلے کی رونق میں چار چاند لگادیتے ہیں۔ یہ میلہ تقریباً پانچ دنوں کیلئے لگایا جاتا ہے مگر آپ جب چلے جائیں ،کتابوں سے محبت کرنے والوں کے ہجوم کے باعث آپ کے لئے آسانی سے گھومنا آسان نہیں ہوگا۔ اس میلے میں برطانیہ ، ترقی ، سنگاپور اور انڈیا کے اشاعتی ادارے بھی موجود تھے۔ جواس بات سے بہت اچھی طرح واقف ہوگئے ہونگے کہ ہم پاکستانی علم سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
اس سال یہ میلہ ۷ دسمبر کو اپنی تمام تر رونقوں اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوا اورعلم کے سیلاب میں ہمیں ڈبوتا ہوا ۱۱ دسمبر کو اختتام پذیر ہوا۔ پاکستان بھر سے ناشرین اور اشاعتی اداروں نے اس میں بھرپور شرکت کی اور علم کے رسیاؤں کو رعائتی قیمتوں پر نادر و نایاب کتابوں تک رسائی دی۔ اتنی ساری نادر و نایاب کتابیں اور وہ بھی ایک ہی چھت کے نیچے کسی خواب سے کم نہیں کیونکہ یا تو ایسا تصویروں میں ہوتا ہے یا پھر خوابوں میں۔ اس میلے میں ہماری کیفیت تو کچھ ایسی ہوجاتی ہے کہ شدت کی پیاس ہو اورسمندر جتنے پانی کے سامنے کھڑے ہوں اور اتنا پانی دیکھ کر پیاس ہی مرجائے۔ اس میلے کی خاص بات ہے کہ یہاں ہر عمر کے ہر فرد کیلئے کتابیں دستیاب ہوتی ہیں اور قیمتوں کے حوالے سے سب کی پہنچ میں بھی۔آپ کو مذہب سے متعلق بھی بے تحاشہ کتابیں میسر ہیں، ادب والوں کے لئے بھی خوب ذخیرہ ہے اور دیگر امور سے تعلق رکھنے والے بھی خالی ہاتھ نہیں جاسکتے۔
سب سے پہلے میں اس میلے کو منعقد کرنے والی انتظامیہ اور اس سے بڑھ کر آج سے تیرہ سال پہلے اس میلے کا خیال جس کسی کے بھی ذہن میں آیا وہ سب انتہائی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ اس میلے میں ایک کمی کا احساس بہت شدت سے ہوتا ہے اور اس مضمون کے توسط سے انتظامیہ کو کچھ تجاویز پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اس میلے میں روزانہ کی بنیاد پر طے شدہ وقت کیمطابق لکھاریوں کو مدعو کیا جائے (ان کی آسانی اور دستیابی کے مطابق) خصوصی طور پر جو صاحبِ کتاب ہیں۔ اس طرح سے حاضرین میں وہ لوگ جنہیں اپنے لکھاریوں سے طبعی ملاقا ت کا موقع بھی میسر آسکے گا اور میلے کی رونق میں چار چاند لگ جائینگے۔اسی طرح سے روزانہ کچھ شعراء (جو دستیاب ہوسکیں)جمع کرکے مشاعرہ کرایا جائے۔ اسی طرح ان لکھاریوں کے ساتھ عام لوگوں کے سوال جواب کے مختلف ادوار روزانہ کی بنیاد پر کروائیں جائیں ۔ اس طرح سے جہاں کتب میلے کی شہرت میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ نئی نسل کی ادبی خدمت بھی ہوجائے گی۔
یہ میلہ کراچی کے مرکز میں واقع ایکپو سینٹر میں لگایا جاتا ہے۔ اس میلے کی مرہون منت یہ پیغام بھی ساری دنیا کو پہنچتا ہے کہ ہم پاکستان کتنے علم دوست ہیں اور اسلحے سے زیادہ کتابوں اور قلم سے محبت رکھتے ہیں۔ اس میلے سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ کتابوں سے محبت کرنے والے آج اس الیکٹرونک دنیا میں بھی بہت ہیں۔