واشنگٹن (جیوڈیسک) اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے غیر معمولی سربراہ اجلاس میں بدھ کو تیار کیے گئے اعلامیے کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بطور سرپرست، امریکہ مشرق وسطیٰ امن عمل میں کردار ادا کرنے سے سبکدوش ہوگیا ہے۔
مسودے میں 50 سے زائد مسلمان ملکوں کے سربراہان، وزراٴ اور اہل کاروں نے کہا ہے کہ ’’مشرقی یروشلم کو فلسطین کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا جائے؛ اور سارے ممالک کو دعوت دی جائے کہ وہ ریاستِ فلسطین اور مشرقی یروشلم کو بطور مقبوضہ دارالحکومت تسلیم کریں‘‘۔
’رائٹرز‘ خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسودہٴ اعلان کی نقل، جسے ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے ٹوئیٹ کیا، کہا گیا ہے کہ اجلاس میں امریکی اقدام کو مسترد کیا گیا اور اُس کی ’’شدید ترین الفاظ میں‘‘ مذمت کی گئی۔
اسلامی ممالک کی تنظیم ’او آئی سی‘ کا غیر معمولی سربراہ اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں جاری ہے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے امریکی فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کیا جا رہا ہے۔
اجلاس ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ’او آئی سی‘ کے موجودہ صدر کی حیثیت سے طلب کیا ہے جس میں تنظیم کے 57 رکن ملکوں میں سے کئی کے سربراہانِ مملکت یا حکومت شریک ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی رپورٹ کے مطابق، مسلمان اکثریتی ملکوں کے سربراہان نے بدھ کو اپنے اجلاس میں یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلے کو ’’غیرقانونی‘‘ قرار دیا۔
اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی جاری ہے اور ساتھ ہی یروشلم کے معاملے پر تنقید بڑھ رہی ہے۔
یہ اجلاس 57 ممالک پر مشتمل اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کے زیر سایہ منعقد ہوا۔ اِن دِنوں ترکی تنظیم کی قیادت کرتا ہے اور یہ ہنگامی سربراہ اجلاس ترک صدر رجب طیب اردوان نے طلب کیا ہے۔
بدھ کو اجلاس کے آغاز پر، اردوان نے سربراہان کو بتایا کہ ’’میں اُن رکن ملکوں کو دعوت دیتا ہوں جو بین الاقوامی قانون اور منصف مزاجی کے قدردان ہیں کہ وہ مقبوضہ یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کریں‘‘۔
اس سے قبل موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق، سربراہ اجلاس کے آغاز سے قبل بدھ کی صبح تنظیم کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی گئی۔
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی انتظامیہ کے فیصلے کے بعد مسلمان ممالک بشمول ترکی اور پاکستان کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے اور کئی مسلم ملکوں میں امریکہ کے اس اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر خلیجی ممالک کی تنظیم ’عرب لیگ‘ نے بھی اپنے ایک اجلاس میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یروشلم سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے۔
وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وزیرِ خارجہ خواجہ آصف بھی اُن کے ہمراہ ہیں۔
پاکستان کی حکومت پہلے ہی امریکہ سے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے عالمی امن خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔
رواں ہفتے پاکستان کے ایوانِ بالا، یعنی سینیٹ نے بھی امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کی تھی۔
امریکہ پہلا ملک ہے جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانے تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ کے صدر ٹرمپ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے فلسطین اور اسرائیل کے دو ریاستی حل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور امریکہ دونوں کو قابلِ قبول حل پر آمادہ کرنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے عزم پر قائم ہے۔