یہودی و امریکی دہشت گردی دنیا کو قبول نہیں ہے

Jerusalem

Jerusalem

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
بیت المقدس کو ساری دنیا میں اہمیت حاصل ہے۔مگر خاص طور پر مسلمانوں کے لئے بیت المقدس میں قبلہ اول وہ مقام ہے جہاں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ(دور دراز کی مسجد)کا سفر رحمۃََ للعالمین نے معراج کے حوالے سے طے فرمایا تھا۔میرے نبی حضرت محمد ﷺنے جہاں ربِ کائنات کے تمام انبیائے کرام کی نمازمیں امامت فرمائی تھی۔ اُس وقت سے یہ مقام اہلِ ایمان کے لئے انتہائی مقدس اور اہم ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ بیت المقدس17ماہ تک اہلِ ایمان کاقبلہ رُخ رہا ۔جس کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمانوں کی قبلہ اول سے دلی وابستگی ہے۔بیت ا لمقدس سے متعلق یہ بات یہ بات بھی ساری دنیا کے علم میں ہے کہ عیسائیت کے لیئے یہ مقام بہت اہمیت کا حامل ہے اس لئے ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اسی شہر میں ہوئی تھی اور انکو ،عیسائی عقدے کے مطابق یہیں پر صلیب پر بھی چڑھایا گیا تھا۔ مسلمانوں کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہیں سے زندہ آسمانوں پر اُٹھا لیا تھا۔

یہودیوں کے لئے یہ مقام اس وجہ سے اہم ہے کہ یہیں پرحضرت سیلمان ؑ نے یہودی معبد ہیکلِ سلیمانی کی تعمیرفرمائی تھی۔جو دنیا میں ان کی مرکزی اور واحدعبادت گاہ تھی۔ اس طرح دنیا کے تینوں اہم مذاہب کے لوگوں کے لئے یروشلم شہر میں بیت المقدس بے حد اہمیت کا حامل مقام ہے۔
اس علاقے سے یہودیت کا خاتمہ تو بختِ نصر صدیوں پہلے کر چکا تھا۔ جس کے بعد بے وطن یہودی ساری دنیا میں صدیوں سے مارے مارے پھرتے رہے تھے۔مگر برطانوی حکومت نے 1948میں بیلفور اعلان کے ذریعے انہیں مسلمانوں کے خطے فلسطین پر ناسور بنا کرنا جائز طریقے پر قبضہ کرا دیا۔ اس کھیل میں فرانسیسی ، اور امریکی عیسائیوں کی بھی اسے مکمل مدد و حمایت حاصل تھی۔

عیسائی قوتوں کواس بات کا ہمیشہ سے احساس رہا ہے کہ و ہ مسلمانوں کو سازشوں کے ذریعے ہی زیر کر سکتے ہیں ۔یہاں پر یہودیوں کو برطانیہ نے اس لئے آباد کروایاتاکہ یہ کانٹا مسلم امہ کو ہمیشہ تکلیف پہنچاتا رہے اور ساری دنیا سے یہودیوں کو لا لا کر بسایا گیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں سے بھی عیسائی اقتدار ختم ہوا وہیں پر یہ لوگ مسلمانوں کے لئے سازشوں کے بیج بوگئے۔آج بھی عیسائت کی سازشوں میں امریکہ ان تمام قوتوں کا سر گنا ہے۔

ہر دور میں امریکہ نے مسلمانوں سے دوستی کا ڈھونگ رچا ان کے مال ومعیشت پر ہاتھ صاف کیا اور ان کے خلاف بھر پور سازشیں بھی جاری رکھیں، اس حوالے سے سب سے پہلے اس کی سازش کا شکار پاکستان کو روسی جارحیت کو افغانستان سے ختم کرانے بہانے بنایا گیا۔اسکھیل میں ہر لحاظ سے پاکستان کو تباہ کیا گیا۔جس کا خمیازہ پاکستانی قوم آج 35سال گذر جانے کے باوجود اب تک بھگت رہی ہے۔ہر بری گھڑی میں اس دوست نما مکار دشمن نے پاکستان کو دھوکہ دیا ۔کیونکہ اس کے سازشی ہمارے ادروں اورہماری جڑوں میں سُرایت کیئے بیٹھے ہیں۔جس کے نتیجے میں ہم ایک ایٹمی قوت ہونے کے باوجود پنپ ہی نہیں پاتے ہیں۔ اگلانشانہ عراق کو پہلے ایران اور پھر کویت سے بھڑا کے بنایا گیا۔پھر عراق کی جنگی کمزورصورتِ حال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکہ اور برطانیہ نے مل کر ایک بہانہ، ’’تاب کاری گیسوں کی عراق میں موجودگی‘‘ کا بنا کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ اورصدام حسین جو ان کے ٹریپ میں آگیا تھا کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ اس کے بعد عرب بہار کے نام پر لبیا، مصر،لبنا، شام اور یمن کو انہی کے لوگوں کے ہاتھوں سی آئی اے نے تباہ کرادیا۔بوسینیا میں مسلمان نسل کشی اور اس کے بعد ترکی پرشب خون مارنے کی سازش کرائی گئی۔ مگر وہاں کے عوام نے سی آئی اے کی اس سازش کو بری طرح سے ناکام بنا دیا۔ اب سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کے بعد جو ڈرٹی گیم سی آئی اے نے جاری کرایا ہوا ہے۔وہ مسلمانوں کے حرمین الشریفین کے ملک کی بر بادی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔حال ہی میں برما میں مسلمانوں کی نسل کشی سی آئی اے کی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

امریکی کانگرس 1995میں یہ قانون پاس کر چکی تھی کہ وہ اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں قائم کر ے گی۔اُس وقت سے امریکی صدور یرو شلم میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کے لئے پر تول رہے ہیں مگر کسی بھی صدر کو ٹرمپ جیسے دہشت پسند کی طرح یہ ہمت نہ ہوئی۔کہ وہ یہ جراء ت کر سکتا کہ اپنا سفارت خانہ یہاں منتقل کرتا۔ڈونلڈ ٹرمپ در حقیقت مسلمانوں سے نفرت کرتا رہا ہے۔ وہ ویسے تو اخلاق باختہ انسان ہے مگر عیسایت کے حوالے سے انتہائی متعصب شخص ہے۔ ٹرمپ جیسے اذیت پسند اور عیسائت کے انتہا پسند شخص سے کسی بھی مسلمان ملک کو کسی بھی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔دوسری جانب اقوام مِتحدہ ہمیشہ سے اسلام مخالف قوتوں کاہمنوا رہا ہے۔

مسلم امہ کو عیسائی اور یہودی سازشوں کو سمجھ کر یکجہتی کیساتھ ان کی سازشوں کونا صرف توڑ کرنا چاہئے۔ بلکہ ان کی سازشوں کا منہ توڑ جواب بھی دینے کی تیاریاں مکمل کر لینی چاہئیں۔12 دسمبر 2017کو او آئی سی کا اجلاس ترکی میں بلایاگیا تو ترکی کے صدرطیب اردوان کا بیانیہ ہی صر ف دبنگ نظر آیا۔ ان کے علاوہ پاکستان کیجانب سے تین مثبت تجاویز ضرور آئیں مگرسعودی عرب اورابو ذہبی کی دلچسپی اس اجلا س کے بارے میں قابلِ تعریف نہ تھی۔جبکہ52 اسلامی ممالک میں سے قریباَ صرف 20َممالک کے سر برہانِ مملکت اس اجلاس میں شریک ہوئے۔

بقیہ کے وزرا ء نے شرکت کی۔مسلمان ممالک میں اتحاد و یکجہتی نہ ہونے اور کوئی طاقتور بیانیہ نہ ہونے کی وجہ سے ہر کمزور سے کمزور غیر اسلامی ملک مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کر گذرتا ہے۔مگر ہم صرف منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں(روہینگیا مسلمانوں پر سوچی کے مظالم کی مثال موجود ہے)۔ اس کے برعکش کسی عیسائی علاقے یا غیر مسلم کمیونیٹی پر کسی مسلمان ملک میں معمولی سی زیادتی پر بھی یوروپی یونین کی اور نام نہاد انسانی حقوق والوں کی جانب سے دھمکیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ جس قسم کی دہشت گردی مسلم ممالک میں گذشتہ ایک صدی سے کرائی جا رہی ہیں۔اُن پر غیر مسلم ممالک اور خاص طور پر عیسائی ممالک کیوں سر نہیں اٹھاتے ہیں؟اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج ہر مسلمان کہہ رہا ہے یہودی اور امریکیدہشت گردی قابلِ قبول نہیں ہے۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.co