تحریر : محمد مظہر رشید چودھری دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 کو دجود میں آنے والی سب سے بڑی اسلامی ریاست پہلے دن سے ہی چندممالک اور خاص طور پرہندو ں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی جس پر بھارت نے پاکستان کے ساتھ 1948 اور 1965 کی جنگیں لڑیں لیکن پاکستان کو دولخت کرنے کے اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب نہ ہو سکا ۔پاکستان میں جنرل الیکشن کے نتائج کے بعد 1971-70 میں پاکستانی اپنے وطن کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے تھے لیکن انتہا پسندوں نے مکتی باہنی تحریک شروع کی دی جو بعد میں ایک تشّدد پسند گوریلہ فورس میں تبدیل ہوگئی بھارت نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی سیاسی عسکری قیادت کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھانے میں مدد دی یہ ایک چھاپہ مار تنظیم تھی جس نے پاکستان کے مشرقی بازو کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا اس تحریک کو بھارت کی مکمل آشیر باد حاصل تھی تحریک کے لوگوں نے اپنے ہم وطنوں اور بہاریوں کے قتل عام میں حصہ لیا اور دہشت گردی کی نئی تاریخ رقم کی کہا جاتا ہے کہ ابتداء میں نہ صرف بنگالی بلکہ بھارتی افواج کے لوگ بھی اس میں شامل تھے جنہوں نے انہیں گوریلا جنگ کی ٹریننگ دی۔
مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کیلئے بھارت نے بی ایس ایف اور را کے ذریعے مکتی باہنی کو تربیت دی اور مالی وسائل فراہم کئے، 1971ء سے لیکر اب تک پاکستان کیخلاف مسلسل پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے ،بھارت 1971ء سے اب تک اخبارات جرائد و رسائل، ٹی وی چینلز، ویب سائٹس پر سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے مسلسل پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹا پراپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہے جس میں پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستانی افواج نے بنگالی عوام کے خلاف مظالم کیے اور انہیں جان سے مارا ایک رپورٹ میں سابق پاکستانی کرنل کے مطابق 1970ء میں ہونیوالے عام انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی میں تاخیر خالصتاً پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا لیکن بھارت نے اُس طرف اِس معاملہ میں کھلی مداخلت کی، اِسی کو بنیاد بناکر پاکستان پر حملہ کیا، پاکستان کیخلاف مکتی باہنی کی امداد اور انہیں بھارتی افواج، بی ایس ایف اور ”را” کے ذریعے تربیت فراہم کی اور انکی امداد کیلئے بھارتی پارلیمنٹ سے قرار داد منظور کرائی۔ 3دسمبر 1970ء کو ہی بھارت نے ان باغیوں کو تربیت فراہم کرنا شروع کر دی تھی جنہوں نے بعد ازاں مشرقی پاکستان میں سرکاری املاک پر حملے، قبضے اور پاکستانیوں کو بے رحمی سے قتل کیا۔ عوامی لیگ نے اُس سال یوم پاکستان 23 مارچ کو بطور یوم سیاہ منایا تھا۔
نومبر کا آخر ہفتہ تھا پاکستان اور ہندوستان کی افواج اپنے اپنے باڈر پر پہنچ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے 3دسمبر 1971کو پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جنگ شروع ہوگئی پاکستانی فوج اور قوم جنگ کے آغاز سے ہی اپنے وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے کو تیار تھے کیونکہ 1965میں پاکستانی فوج اور قوم کا جذبہ دیکھ کر ہندوستانی قوم اور فوج کے پیر بھی لڑکھڑا رہے تھے لیکن بھارت نے اب کی بار ایک نئی چال ترتیب دے رکھی تھی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور جنگ شروع ہوئے کو 13دن گزرے تھے کہ16دسمبر1971کو تقریباً سہ پہر 5بجے رمنار لیس کورس کے مقام پر جنگ بندی کا اعلان ہوا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کو الگ ریاست تسلیم کیا گیا اور جنگ بندی کے بعدہزاروںپاکستانی فوجی جوانوں کو ہندوستانی قید میں جانا پڑا اور مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے اُبھر آیا۔
16 دسمبر جہاں سقوط ڈھاکہ کی یاد دلاتا ہے وہاں ہی 2014میں پشاور میں 16 دسمبر 2014کو تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ایف سی (فرنٹیئر کور) کے لباس میں ملبوس پشاور کے آرمی پبلک سکول میں پچھلی طرف سے داخل ہوئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ کی اور اُس کے بعد کمروں کا رخ کیا اور وہاں پر موجود سکول کے بچوں اور اساتذہ پر گولیاں برسانا شروع کر دیں، سربراہ ادارہ کو آگ لگائی،اس سانحہ میں 9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کل 144 ہلاکتیں اور 113سے زائد زخمی ہوئے۔ہلاک ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں یہاں پھر وطن کی خاطر اپنی جانوں کی بازی لگانے والے بہادر فوجیوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے باحفاظت باہرنکال لیا اور6 دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایاسولہ دسمبر کا دن ہمیں ان دو بڑے سانحوں کی وجہ سے ہمیشہ سوگوار کر جاتا ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ وطن عزیز کو قائم ودائم رکھے اور یہاں کے بسنے والوں کو حفظ وامان میں رکھے آمین۔پاک فوج زندہ باد،پاکستان پائندہ باد