تحریر : سائرس خلیل سب سے پہلے تو میں یہ واضح کرتا چلوں کہ آخر پیپلز پارٹی پر لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسکا جواب بڑا عام فہم سا ہے۔ اسکی اہم وجہ پیپلز پارٹی کا بنیادی آئیں اور پیپلز پارٹی کا سوشلسٹ انٹرنیشنل کے ساتھ الحاق ہے۔ پیپلز پارٹی کا بنیادی آئیں عین اشتراکی آئیں تھا مگر آج اسکی قیادت سندھ کے وڈیرے کر چکے ہیں۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ انقلابی لفاظی کا سہارہ لے کر عوام کو گمراہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی پر لکھنے کا مطلب صرف اتنا ہیکہ وہ لوگ جو اسکو انقلابی سمجھ بیٹھے ہیں انکو عقل آئے کہ بابا یہ بھی تو ن لیگ یا پی ٹی آئی جیسی پارٹی ہی ہے۔ اس میں کوئی چیز نئی نہیں سوائے لفاظی کے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادیں این ایس ایف اور ڈی ایس ایف کے خون پر پروان چڑهی. این ایس ایف اور ڈی ایس ایف کے کیڈر نے سیاسی طور پر خود کا ادغام کرکہ پی ایس ایف اور پیپلز پارٹی کی بنیادیں 1967 میں رکهیں. اس میں حسن ناصر، شیخ رشید لاہور والے اور دیگر ترقی پسند رہنما تهے. شروع شروع میں پی پی پی مارکسی نعرے لگا رہی تهی.
مزدور کسان اور طلبہ کا حال بدلنے کے نعرے لگائے جارہے تهے. پاکستان میں قومی انقلاب اور سوشلسٹ انقلاب کی بحث و مباحثہ نے زور پکڑا. آخر کار انتخابات ہوئے. ذولفقار علی بهٹو ٹوٹے ہوئے ملک کے وزیراعظم بنے.. شروع شروع میں ماؤ کی ٹوپی پہن کر گهومنے لگے ، بہت سی مشینری کو ذاتی ملکیت سے قومی ملکیت میں لے لیا گیا. مگر جاگیروں کو جب ہاریوں میں تقسیم کرنے کی بات ہوئی تو پیپلز پارٹی کی فیصلہ کرنے والی قیادت جاکر جاگیرداری کی گود میں بیٹه گئی اور حقیقی قیادت کو مار دیا گیا یا چپ کروا دیا گیا پهر پیپلزپارٹی میں جاگیردارانہ اخلاقیات پروان چڑهیں۔ جاگیردارانہ نفسیات اور اخلاقیات نتیجے میں پارٹی سرمایہ داری کو شکست دینے کے لیے میدان میں اتری. بهٹو صاحب نے آخری تجزیہ کے مطابق جاگیرداری کے گماشتے کا کردار ادا کیا. بلکہ بهٹو صاحب اپنی کتاب “اگر مجهے قتل کیا گیا” میں بہت چیزوں کااقرار بهی کرکہ گئے. چونکہ بھٹو صاحب خود بھی جاگیردار تھے تو یہ مادی وجہ بھی بنتی ہیکہ انکی ترجیحات اور کوشش اپنے طبقے کی بقاء کی جنگ کے لیئے ہوتیں اور بھٹو صاحب نے بھی ایسا ہی کیا اور پاکستان میں جاگیرداریت کے دفع میں جنگ لڑی۔
خیر یوں پیپلز پارٹی بهٹو صاحب کی میراث میں چلی گئی. دنیا سرمایہ داری کی طرف بڑھ رہی تهی جسکے نتیجے میں جاگیرداری ٹوٹی اور بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔اُسی بهٹو کی بیٹی جوکہ جاگیرداری کے گماشتہ کا کردار ادا کر رہے تھے . محترمہ بینظیر بھٹو اپنی تصنیف میں لکهتی ہیں کہ ایشیاء میں سب سے پہلے ہم نے نجی ملکیت اور سرمایہ داری کو پروان چڑھایا.جو کہ کی پارٹی کے مکمل تضاد پر کهڑا بیان تها.محترمہ بینظیر وزارت عظمی کے منصب پر بھی رہ چکی تھیں۔ خیر پهر سے سرمایہداریت کے خلاف جاگیردارای کے گماشتہ حرکت میں آئے اور بینظیر بھٹو کو بھی قتل کرکہ ایک جاگیردار کو پارٹی پر مسلط کر دیا گیا۔ چونکہ پارٹی پر جاگیردارانہ نفسیات حاوی تھیں تو اس لیئے کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ جاگیرداری کے خلاف پارٹی میں مذمت کرسکتے اور یوں آج پیپلزپارٹی پر زرداری صاحب بیٹھے ہیں۔ میں پانچ دسمبر کا جلسہ دیکھ رہا تھا جس میں زرداری صاحب ماؤ کی ٹوپی پہنے ناچ رہے ہیں۔ بلاول زرداری کی تقریر سنی تو اندازہ ہو رہا تھا جیسے کسی دوسرے مارکس نے جنم لے لیا ہے۔ مگر افسوس کہ پانچ دسمبر کے جلسہ کے چند دن بعد جب سندھ کا کسان بلاول ہاؤس ان سے ملاقات کہ لیئے پہنچے تو جاگیردار بلاول زرداری نے پولیس سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج سے ان بھگا دیا۔ خیر یہ بلاول نے کونسا نیا کام کیا ہے؟ بھٹو صاحب نے بھی تو کراچی مزدوروں پر گولیاں چلوا دئیں تھیں۔
بلاول کا پارٹی چئیرمین بننا بھی بھٹو صاحب کی روایات کا تسلسل ہے بلکہ بھٹو صاحب نے تو اپنے دور میں ہی کھر، چوہدری، وڈیرے اور سرداروں کو پارٹی کے اہم منصبوں پر فائز کر دیا تھا۔ جو کہ آج سوائے اپنی نسلوں کے اقتدار کو طول بخشنے کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کر رہے.
جب تاریخ نے پیپلزپارٹی کو مزدور کسان کے خون کا قاتل ثابت کر دیا ہے،انقلاب دشمن قوت کا کردار پیپلزپارٹی پر کلئیر ہے. جاگیردار کا گماشتہ ہونا اسکا شیوہ رہا ہے تو یہ نام نہاد ترقی پسندی کے نعرے لگانے والے کس چیز کی دلالت کرتے ہیں؟ ؟؟؟ اور کن بنیادوں پر پیپلزپارٹی کو پاکستانی محنت کش عوام کی نمائندہ قوت گردانتے نہیں تهکتے؟