تحریر : ٍ ملک ارشد جعفری ٍپاکستان میں کرپشن کا ناسور نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر چکا ہے کوئی ادا رہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو خاص طور پر پاکستان میں قومی خزانے سے اضلاع کیلئے جو فنڈ دیا گیا اس میں ایم این ایز نے ملی بھگت کر کے ٹھیکیداروں اور محکموں سے کروڑوں کی کرپشن کی ہے اور اپنے منظور نظر کارکنوں اور عزیزوں کو نوازتے رہے جس سے اُنہوں نے کروڑوں روپے کی جائیدادیں بنا رکھی ہیں ۔جو اس حکومت سے پہلے کرائے کے مکانوں میں رہتے تھے اب اُن کے محل نما کوٹھیاں اور بڑی بڑی گاڑیوں پر عوام میں گھو م رہے ہیں جس کی زندہ مثال میرے ضلع اٹک میں سامنے نظر آتی ہے مقامی ایم این اے نے اپنے چہیتے ممبران کمیٹی کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جنہوںنے مختلف محکموں میں بھرتی کیلئے آنے والوں سے نوکری کیلئے بھاری نذرانے وصول کئے اور کئی مختلف سوسائٹیوں میں اس فنڈ کی تقسیم کر کے اپنے ناموں پر پلاٹس بھی لئے جو اس وقت اربوں پتی بنی ہوئی ہے ۔اٹک کی عوام اعلیٰ عدلیہ اور چیئرمین نیب پر پھٹ پڑے ہیں اور صحافی برادری کے پاس آکر یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ہم ان کے ثبوت دے رہے ہیں لیکن آپ لوگ ان کی کرپشن کا پردہ چاک کیوں نہیں کرتے انہوں نے ملکی خزانہ غریب عوام کیلئے آنے والے فنڈ کو لوٹ کر اپنے مختلف عزیز و اقارب کے نام پر جائیدادیں بنا رکھی ہیں جن کے پاس کل تک سائیکل نہ تھی اور کرائے کے گھروں میں رہتے تھے آج اعلیٰ شان کوٹھیوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔
اٹک قلعہ کے سابق اسیروں کا صلہ لینے کیلئے اٹک میں تعمیراتی کاموں میں من پسند ٹھیکیداروں کو ٹھیکے دے کر کروڑوں روپے کا مال اکٹھا کیا گیا اور یہ کرپشن جاری و ساری ہے ۔اٹک کے مقامی ایم این اے کی اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جائے تو اربوں روپے کی کرپشن سامنے آسکتی ہے۔ مختلف ہائوسنگ سوسائٹیوں کے فرنٹ مینوں کے ذریعے ار بوں کی کرپشن سامنے آسکتی ہے اگر چئیرمین نیب جسٹس جاوید اقبال اٹک میں ہونے والی کرپشن پر خصوصی ٹیم تشکیل دے کر مذکورہ ایم این اے کے اثاثہ جات کی پڑتال کروائی جائے تو پانامہ جیسے سکینڈل اٹک میں سامنے آجائیں گے ایک سڑک کی دو دو بار تعمیر کروا کر کروڑوں روپے کے بل بنائے جاتے رہے ایم این اے نے اپنے ایک داماد ڈاکٹر کے نام پر حالیہ سال میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں خریدیں اسی طرح کئی گمنام لوگوں کے نام پر اکائونٹ کھول کر بلیک منی کو چھپانے کا گھنونا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔
تعمیراتی کاموں پر ملنے والے کمیشن وصول کر کے جو کرپشن اٹک میں کی جار ہی ہے وہ شائد ہی کسی اور ضلع میں ہو ۔اٹک کے معروف چوک جو کاشف شہید کے نام سے مقامی زبان میں تین میلہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے (ق)لیگ کے دور حکومت میں نہایت خوبصورت طریقہ سے کروڑوں روپے لگا کر بنایا گیا تھا جو آج اس عالی شان چوک کو توڑ کر نئے ڈیزائن کا چوک بنانے کے نام پر ملکی خزانے کے کروڑوں روپے باپ دادا کی جائیداد سمجھ کر ضائع کئے جا رہے ہیں اور اپنی ذاتی تشہیر کیلئے قومی خزانے سے لاکھوں روپے کی تختیاں لگائی گئیں ہیں اگر ان تختیوں پر ضایع کیا جانے والا پیسہ عوام کی فلاح بہبود پر لگایا جاتا تو کئی افراد کا بھلا ہو جاتا قومی دولت کو جس بے رحمی سے ضائع کیا جا رہا ہے اس پر فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے اور اٹک کا واحد سول ہسپتال جس کا نام اب اسفند یار رکھا گیا ہے۔
اس میں گزشتہ سال اعلیٰ قسم کی ٹائلز لگائی گئی تھیں جن کو اس سال اُکھاڑ دیا گیا ہے اور 22کروڑ کے نئے فنڈ جاری کروا کر جو قیمتی دروازے اعلیٰ قسم کی لکڑی کے لگے ہوئے تھے اُن کو بھی اُکھاڑ کر باہر پھینک دیا گیا ہے جن کی جگہ پر ایلومینیم کے دروازے لگانے کا کہا جا رہا ہے ان تعمیراتی کاموں کا کرپشن کا جو بازار گر م ہے اس کا تدارک ہوسکے اور مقامی قیادت مسلم لیگ ن کا احتساب کیا جائے عوام کی پر زور پکار ہے کہ چئیرمین نیب اک نظر کرم ان تعمیراتی کاموں میں کر کے کرپشن مافیہ کے گرد گھیرا تنگ کر کے احتساب سب کیلئے کا نعرہ سچ ثابت کیا جائے اور ان کو کٹہرے میں لاکر لوٹی ہوئی عوامی دولت قومی خزانہ میں واپس جمع کرواکر ان کو قرار واقع سزا دی جائے۔۔