خبر کسے کہ وہ کتنا اداس رہتا ہے جو شخص اب بھی سراپا سپاس رہتا ہے سمجھ رہی ہے یہ دنیا جسے جدا مجھ سے وہ دور کب ہے میرے آس پاس رہتا ہے ہزار سالوں کی تہذیب اوڑھ کر انساں نظر نظر میں ابھی بے لباس رہتا ہے نہیں ہیں اب بھی تیرے التفات کے قائل وہ لوگ جن کو تغافل ہی راس رہتا ہے اسے کہو کہ عداوت کے تیر کھاتے ہوئے ہمیں تو اب بھی محبت کا پاس رہتا ہے یہ کون ہے جو مجھے بولنے نہیں دیتا دھیان کس کا پسِ التماس رہتا ہے جہاں پہ ہم نے مقدر کا کھیل ہارا تھا اُسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے