تحریر : قادر خان یوسف زئی عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت کے حامل علامہ یوسف القر ضاوی مسجد عمر بن خطاب میں صلوة جمعہ میں صدا دیتے ہیں کہ مسلمان کہاں ہیں ؟۔ عالم اسلام کہاں ہے ؟ او آئی سی کہاں ہے ؟؟؟ عرب لیگ کہاں ہے ؟؟ْ؟ کہاں ہے امت مسلمہ جو مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ہے؟؟؟ ۔ تم اس ظلم پر خاموش کیسے رہ سکتے ہو ؟ اس پر نا کیوں نہیں کہتے ؟؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسجد اقصیٰ چلی جائے اور ہماری گردنوں پر سر سلامت رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔” یروشلم پر امریکی اقدام کے بعد دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع جاری و ساری ہے ۔ اقوام متحدہ کے حالیہ ہنگامی اجلاس میں امریکہ نے اقوام متحدہ پر الزام لگایا ہے کہ اسرائیل کی بدترین دشمن” اقوام متحدہ “ہے ۔ امریکہ نے اقوام متحدہ پر تعصب کا الزام بھی لگایا ۔ امریکہ نے واضح طور پر ہنگامی اجلاس میں کہا کہ اسرائیل کو ڈرا دھمکا کر یا دبا کر نہ کبھی کسی معاہدے کا پابند بنا سکیں گے اور نہ ایسا ہونا چاہیے۔فلسطینی نمائندے نے اجلاس میں کہا کہ” صدر ٹرمپ نے جو کیا اس کے بعد امریکہ کبھی بھی امن کا امین نہیں ہوسکے گا”۔ امریکہ نے دنیا بھر کی مخالفت مول کر اسرائیل کے حق میں اپنے منشور پر عمل کیا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ اپنے اقدام پر ندامت کا اظہار کرتا لیکن الٹا وائٹ ہائوس فلسطین کو دھمکی دے رہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد” اگر امریکی نائب صدر کا دورہ منسوخ کیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے”۔
پوری دنیا میں زبانی جمع خرچ کے زبانی احتجاج و مظاہرے ماسوائے اپنے ملک کی عوام کو امریکہ اسرائیل مخالف جذبات ٹھنڈے کرنے کے لئے کئے جارہے ہیں ۔ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ اسلامی بلاک ، یورپی یا مغربی ممالک’ امریکہ کی جانب سے یروشلم کو دارالحکومت قرار دیئے جانے کے بعد کوئی سخت عملی اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ سو برس قبل کی جانے والی اسرائیلی پیش گوہی پوری ہونے جا رہی ہے۔ دو ریاستی حل سے انحراف کے بعد امریکہ نے ثالثی کا کردار کھو کر اسرائیل کی حمایت میں بے خوف ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ نے دنیا بھر کے ممالک کو کھلا چیلنج دیا کہ امریکہ جب چاہے ، جو چاہے کرسکتا ہے ،کوئی ایٹمی طاقت ہو یا تیل کی معیشت پر بنی معاشی طاقت امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے انتخابی منشور سے ہٹنے پر مجبور نہیں کرسکی۔ امریکہ صدر ٹرمپ کا یہ جارحانہ اقدام اُن تمام ممالک کے لئے ایک نوشتہ دیوار ہے جو امریکہ کے ساتھ اپنی” دوستی” کا بھرم بھی رکھتے ہیں اور احتجاج بھی کررہے ہیں۔ امریکہ کے اسرائیل سے تعلقات کوئی مخفی عمل نہیں رہا ہے کہ موجودہ امریکی اقدام پر عالمی برادری سکتے میں آگئی ہو اور اب کسی راست اقدام سے ان پر رعشہ طاری ہوچکا ہے۔ امریکی صدر اپنے اعلان سے قبل ہی دنیا میں باور کراچکے تھے کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بننے اور امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی فیصلہ کرچکے ہیں۔ عرب ممالک سمیت دنیا بھر میں اس فیصلے سے قبل ہی امریکی صدر کو بیانات کے ذریعے روکنے کی لاحاصل” کوشش “کی لیکن امریکی صدر اپنے عزائم کے لئے ایک مضبوط ارادے کے ساتھ عالمی برادری کو چیلنج کرنے کا تہہ کرچکے تھے اور حسب توقع سابق امریکی صدور کلنٹن ، بارک اوبامہ کے برعکس ٹرمپ نے وہ اقدام کرڈالا جو امریکہ کے سابق صدور دو دہائیوں سے خواہش ہونے کے باوجود نہیں کرسکے تھے۔امریکی صدر کے اعلان کے بعد بیانات ، مذمتی اجلاس ،تجزیات اور مظاہروں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ لیکن اس سے امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔کیونکہ امریکہ عالمی بساط پر اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے کا عادی ہے ۔ امریکہ ، یہودیوں کی دی گئی پالیسیوں کو دنیا بھر نافذ کرتا ہے اور چھوٹے ،بڑے تمام مسلم و غیر مسلم ممالک امریکہ کی پالیسیوں کے برخلاف جانے سے کتراتے ،گھبراتے اور ڈرتے ہیں۔
مسلم ممالک کا حالیہ ردعمل ماسوائے پانی کے بلبلے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ پچاس برس قبل 1948میںجو حالت مسلم ممالک کی تھی آج اُس سے بدتر حالت مسلم ممالک کی ہے ۔ مسلم امہ کچھ اور چاہتی ہے اور حکمران کچھ اور کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ برطانیہ نے اپنی بَلا عربوں کے سر ڈال کر یہودیوں کی آمد کا سلسلہ اپنے ملک میں تو روک دیا تھا لیکن یہ فتنہ ایک جگہ جمع ہوکر عالمی عظیم فتنہ بن کر نمودار ہوچکا ہے ۔ انگریزوں نے جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد اپنی روایتی بد عہدی کو دوہراتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیلی حکومت کے قیام کے لئے ایک قانون پاس کیا۔ اسی طرح معائدہ سائیکس پیکاٹ کے تحت برطانیہ اور فرانس نے اپنے زیر انتظام علاقوں کو اس طرح تقسیم کردیا کہ سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑوں کے بعد کئی مسلم نام کی ریاستیں وجود میں تو آگئی لیکن ان ریاستوں میں عالمی طاقتوںسے جنگ کرنے کی استطاعت نہیں تھی ۔ چند سو یہودی پچاس برسوں بعد اب لاکھوں کی تعداد میں اسرائیلی ریاست میں جمع ہیں اور دنیا بھر میں اپنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کے ذریعے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے میں مصروف ہیں ۔ مذمت پر ان گنت صفحات کالے کئے جاچکے ہیں ۔ آج کی نوجوان نسل ماضی کے مقابلے میں یہودیوں کی سازشوں اور امریکہ کے کردار کو بخوبی سمجھتی ہے۔
مسلم دنیا میں خانہ جنگیوں کا فائدہ امریکا اور یورپ اٹھا رہے ہیں ۔ آخر کونسا ایسا ملک ہے جو امریکہ و اسرائیل کو لگام دے سکے ،تو اس کا جواب نہیں ملتا ۔ بد قسمتی سے مسلم ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے لیکن قوت و شجاعت میں ماضی کے مسلم حکمرانوں کی طرح موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق تیاریاں نہیں کیں ۔ وہ مسلمان جس کے آنے کی خبر سے ہی یورپ کپکپاتا تھا اب ان ہی مسلمانوں کی نا طاقتی پر خنداں ہے۔ اسلام کے نام پر پہلے فرقے پیدا کئے گئے پھر ان فرقوں میں اختلافات پیدا کرکے وحدت ِ اسلامی کو منقسم کردیا گیا ۔ وطنیت کی تقسیم کے ساتھ مسلمان بھی کچھ اس طرح تقسیم ہوئے کہ امت واحدہ کا تصور زمینی سرحدوں کی تقسیم ہوتا چلا گیا ۔ آج دنیا یہ نظارے دیکھتی ہے کہ ایک جانب صلیبی جنگ قرار دیکر پوری دنیا میں مسلمانوںکو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے تو دوسری جانب معاشی طور پر مضبوط مسلم ریاستیں ، انِ مسلم دشمن ممالک کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنے کیلئے اپنے تمام مالی وسائل و خزانے جمع کئے ہوئے ہے۔مسلم ممالک کے ارباب ِ اقتدار میں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب کوئی انقلاب آجائے جس سے ان کے مالی خزانے محفوظ نہ رہ سکیں اس لئے اپنی تمام دولت کا بڑا حصہ مسلم دشمن ممالک کے پاس ہی امانتاََ رکھوا دیتے ہیں ۔ آج اگر ایک عام مسلمان بے یار و مددگار ہے تو اس کی اصل وجوہات میں سب سے بڑا کردار ہمارے مسلم ممالک کے ارباب اختیار و اقتدار کا ہے جنھوں نے امت واحدہ کے لئے عملی طور پر کوئی قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کی ۔ اگر کسی نے اٹھنے کی کوشش بھی کی تو اُس کے ملک میں بغاوت یا پھر امریکہ کو جارحیت کی دعوت دیکر میلامیٹ کردیا گیا۔ باہمی ریشہ دیوانیوں کا یہ سلسلہ لامحدود اور غیر متعین ساعت کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ امت مسلمہ کی انہی کمزوریوں کی بنا پر امریکہ ، اسرائیل دنیا بھر میں من مانی کرتے پھر رہے ہیں۔
سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا کوئی مسلم ملک اسرائیل پر حملے کی ڈیڈ لائن دیتا( خوش فہمی ہی ہے)تو کیا امریکہ اس پر خاموش رہتا۔ یقینی طور پر ایسا نہیں ہوتا ۔ اول تو یہ خام خیالی ہی ہے کہ کوئی بھی ملک اتنی” جرات” پیدا کرے کہ اسرائیل کے خلاف عملی جنگ کا تصور بھی کرے ۔ اس وقت داعش سے بڑا فتنہ اسرائیل ہے ۔ لیکن اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کے تمام ممالک بھی کوئی کاروائی نہیں کرسکتے بلکہ امریکہ انہیں اقوام متحدہ کے اندر اسرائیل کو مظلوم بنا کر جھاڑ رہا ہے۔ کیا ہم اُس وقت کا انتظار کریں جب جرمن قوم کی طرح پھر کہیں ایک نیا ہٹلر پیدا ہو اور ہولو کاسٹ برپا ہوجائے ۔ کیا ہم کسی کا انتظار کررہے ہیں ۔ کیا ہمارے انتظار کرنے میں ہی عافیت ہے ۔ کیا ہم اس فکر میںہیں کہ مسلم حکمران اقتدار کی کرسی کو بچائے” کیونکہ اسی میں مصلحت ہے۔” آج ایک نظر اطراف پر ڈالیں تو وہاں یہ جنگ چھڑی ہوئی ہے کہ فلاں ملک اسرائیل جاکر جہاد کیوں نہیں کرتا ، فلاں ملک اپنی ملیشائوں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کیوں نہیں کرتا ، فلاں ملک اپنی عسکری اتحادکو طاقت ور بنا کر اسرائیل کے خلاف بھرپور اعلان جنگ کیوں نہیں کرتا ۔ عجب المیہ ہے کہ ہم اپنے مصائب کاذمے دار امریکا اورمصائب سے نکالنے کیلئے بھی امریکا کی جانب دیکھتے ہیں۔ہم ان خوش فہمیوں سے کب نکلیں گے ۔ کہاں ہیں مشرق تا مغرب تک پھیلے ہوئے وہ مسلم جوشاہوں کے ثنا خواں نہیں۔ نیا مرگ انبوہ برپا ہوگا مگر ۔۔۔نشانہ خدانخواستہ اس بار یہودی نہیں بلکہ ۔۔۔۔