تحریر : شیخ توصیف حسین ایک پیر صاحب کے ہاں ایک مرید نے پانچ سال خدمت کرتے اس امید پر گزار دیئے کہ پیر صاحب اُسے کچھ کرامات وغیرہ سکھائیں گے لیکن پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود پیر صاحب نے اُسے کوئی خاص لفٹ نہ کروائی تو مرید نے پیر صاحب سے کہا کہ آپ نے پانچ سال کی خدمت کے نتیجہ میں آج تک کوئی کرامات نہیں سکھائی لہذا اب مجھے اجازت دے دو تاکہ میں کوئی محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ پال سکوں یہ سن کر پیر صاحب نے اپنے خدمت گزار مرید سے کہا کہ اگر تم نے کوئی کرامات سیکھنی ہیں تو مذید دو سال تک میری خدمت کرو یہ سن کر مرید مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مذید دو سال پیر صاحب کی خدمت کرتے گزار دیئے بعدازاں مرید نے پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر پیر صاحب کو اپنا وعدہ یاد کروایا تو پیر صاحب نے بڑے تکبرانہ انداز میں کہا کہ یہ جو سامنے گدھا بندھا ہوا ہے اسے کرامات سمجھ کر اپنے ساتھ لے جائو یہ سن کر مرید اپنے پیر صاحب سے جھگڑنے لگا کہ میری سات سال کی خدمت کا یہی صلہ ہے لیکن مرید کے اس احتجاج کے باوجود پیر صاحب ٹس سے مس نہ ہوا تو بالآخر مرید اُس گدھے کو جو نیم مردہ تھا کو وہاں سے چھوڑ کر اپنے ساتھ چلتا بنا چونکہ گدھا جو بیماری کیوجہ سے نیم مردہ تھا راستے ہی میں سفر کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا جس پر بیچارے مرید کو وہی پر گڑھا کھود کر گدھے کو دفن کرنا پڑا گدھے کو دفناتے ہوئے مرید کو وہی رات ہو گئی تو بیچارہ مرید تھک ہار کر گدھے کی قبر کے سرہانے ہی سو گیا۔
مرید کے کپڑے چونکہ ملنگوں جیسے تھے صبح جب مرید کی آ نکھ کھلی تو وہ کیا دیکھتا ہے کہ اُس کی جھولی میں سینکڑوں روپے گرے ہوئے تھے مرید نے اس سارے ماجرے کو سمجھتے ہوئے اپنی سات سالہ تربیت کے زیر اثر اپنے اوپر وجد سا طاری کر لیا یوں لوگ وہاں آتے گئے مرید کوعا کروانے کے عوض رقوم دیتے گئے ہجوم بڑھ جانے کے باعث وہاں پر لنگر کا سلسلہ بھی جاری ہو گیا اور یوں جونیئر پیر کی روزی کا سلسلہ بھی چل پڑا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بڑے پیر صاحب کا عطا کردہ گدھا چونکہ اپنی ناتواں حالت کی وجہ سے کم فاصلہ طے کرنے کے بعد دم توڑ چکا تھا جس کا مدفن چونکہ بڑے پیر صاحب کے ڈیرے کے قریب ہی تھا لہذا جونیئر پیر کے ہاں ہجوم کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا جبکہ بڑے پیر صاحب کے ڈیرے پر مندے کا رحجان شروع ہو گیا تو بڑے پیر صاحب کو فکر لاحق ہوئی کہ ہمارے ہاں مندے کے رحجان کی وجہ کیا ہے جس پر بڑے پیر صاحب نے اپنے نمائندوں کو اس مندے کے رحجان کے متعلق کھوج لگانے پر مامور کر دیا بڑے پیر صاحب کے نمائندوں نے کھوج لگا کر پیر صاحب کو اطلاع دی کہ آپ کے مندے کے رحجان کا ذمہ دار آپ کا وہ شاگرد ہے جو سات سال تک آپ کی شاگردی کرتا رہا ہے یہ سن کر بڑے پیر صاحب از خود مشاہدے کیلئے اپنے شاگرد کے ڈیرے پر پہنچے تو اس کے شاگرد نے بڑے عزت و احترام کے ساتھ اُس کو اپنے ہاں رات کو رکھا ساری رات بڑے پیر صاحب اپنے شاگرد سے پوچھ گچھ کرتے رہے کہ اس ہجوم کے اضافے کی وجہ کیا ہے جس پر شاگرد ہر بار یہی جواب دیتا رہا کہ یہ سب کچھ آپ کی جانب سے دیئے گئے تحفہ کا نتیجہ ہے جس پر بالآ خر بڑے پیر صاحب نے اپنے شاگرد کو قسم دیتے ہوئے کہا کہ مجھے صہیح راز سے آ گاہ کرو جس پر شاگرد نے بڑے پیر صاحب کو کہا کہ یہاں پر آپ کا عطا کردہ گدھا دفن ہے۔
یہ سن کر بڑے پیر صاحب قہقہ لگا کر کہنے لگے کہ یہ بڑا معتبر خاندان ہے یہ تو اپنے باپ سے بھی زیادہ معتبر نکلا چونکہ میرے پاس اس کا باپ دفن ہے بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کے نسل در نسل چلنے والے سیاست دانوں کی ہے جو نسل در نسل چل کر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے ملک کو بھکاری جبکہ یہاں کی عوام کے ہر فرد کو مقروض بنانے میں مصروف عمل ہیں ہاں البتہ چند ایک افراد جن میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان پرویز مشرف ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سر فہرست ہیں جہنوں نے ملک وقوم کی بقا کیلئے ہر محاز پر اپنی بہادری اور جرات کے مظاہرے کیے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ معراج خالد جیسے سپوت جو اپنے دور اقتدار میں بھی کرائے کے مکان پر رہائش پذیر رہے اور کسی قسم کا کوئی پروٹوکول قبول نہ کیا جبکہ اُن کی اہلیہ بھی اُن کے دور اقتدار میں اپنی گھریلو اشیائے خوردنوش بسوں اور رکشوں میں سفر کر کے خریدتی رہی لیکن افسوس کہ اس ملک کے نسل در نسل چلنے والے سیاست دانوں معراج خالد جیسے عظیم رہنما کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے اپنے خاندانی روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے ڈر یکو لا کا روپ دھار کر ملک وقوم کا خون چوسنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے۔
یہی کافی نہیں انہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار کے نشہ میں بد مست ہو کر عدلیہ پر بے جا الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے جبکہ اپنے ملک کی بہادر فوج جو اندرونی و بیرونی محازوں پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے آ رہے ہیں پر بھی اپنی کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے بے جا الزامات لگانے میں مصروف عمل ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں آپ دیکھے تو یہ ناسور حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر اس قدر نڈر ہو چکے ہیں کہ انہوں نے خداوندکریم کے پیارے محبوب جس کے متعلق خداوند کریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی اگر تمھیں پیدا نہ کرتا تو پوری کائنات میں کوئی چیز بھی پیدا نہ ہوتی کی برا بری کرنے والے اپنے ہمنواں ناسوروں کی حمایت میں ختم نبوت کے صحفات میں ہیرا پھیری کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے جن کی اس ناپاک سازش کو عاشق رسول نے کچل کر رکھ دیا یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران چند ایک افراد میرے کمرے میں داخل ہو کر کہنے لگے کہ اگر موجودہ حکومت اور اُس کے ہمنوا سیاست دان ہمیں گندہ اور زہریلا پانی جس کی وجہ سے کئی گھروں کے چراغ مختلف بیماریوں کی وجہ سے گل ہو چکے ہیں کہ پینے پر مجبور کر رہے ہیں تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع میں روز بروز بڑھتی ہوئی کرپشن کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور مہنگائی کا رحجان بڑھ رہا ہے تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع میں سردیوں میں گیس اور گرمیوں میں بجلی غائب ہو جاتی ہے۔
تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع کی تمام کی تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گئی ہیں تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع کے ریلوے اسٹیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بھوت بنگلہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع کے مین چوکوں پر بسوں اور ویگنوں کے ناجائز اڈے قائم ہو چکے ہیں تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع کے ڈی ایچ کیو ہسپتال و باقی ماندہ ہیلتھ سنٹروں پر کمیشن مافیا کا راج قائم ہو چکا ہے تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع کے ہر محلہ اور ہر گلی میں غلاظتوں کے انبار لگ چکے ہیں تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع کے سرکاری سکولوں میں ہمارے معصوم بچے بغیر کسی چھت اور دیواروں کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع کے چند ایک بلدیاتی بے ضمیر ممبران کو خرید کر نسل در نسل چلنے والے سیاست دان بلدیہ و ضلعی چیئرمین بن گئے ہیں تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع میں زہریلے اور گندے پانی سے متعدد سبزیات کاشت کی جارہی ہیں تو کوئی بات نہیں اگر ہمارے اضلاع میں سیوریج کا نظام تباہ و بر باد ہو کر رہ گیا ہے تو کوئی بات نہیں قصہ مختصر کہ یہ ہمارے اضلاع جس کو دن بدن تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے پسماندگی کی راہ پر گامزن کرنے میں مصروف عمل ہیں کوئی بات نہیں لیکن ہم ان نسل در نسل چلنے والے گستاخ رسول سیاست دا نوں کو آ ئندہ الیکشن میں ایسی عبرت ناک شکست سے ہمکنار کرے گے کہ ان کی آ نے والی نسلیں بھی یاد رکھے گی ہم ہر ظلم و ناانصافی تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن رسول پاک سے گستاخی کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کر سکتے خواہ وہ جتنے ڈرامے کرنا چاہتے ہیں کر لیں ہم گستاخ رسول کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔