تحریر : چودھری عبدالقیوم مکرمی؛ سپریم کورٹ سے ناہلی کے بعد سے میاں نواز شریف عدلیہ پر کھلے عام تنقید کرتے آرہے ہیں۔گذشتہ روز لندن سے پاکستان روانگی کے موقع پر صحافیوں کیساتھ اظہارخیال کرتے ہوئے انھوں نے عدلیہ کیخلاف کُھلم کھلاعدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔جو کسی بھی طور بھی ،جمہوریت،آئین،قانون اور ملک کے لیے اچھا نہیں۔جس طرح قانون، آئین،جمہوریت کسی بھی ملک کے لیے نہایت اہم ہوتے ہیں بالکل اسی طرح عدلیہ بہت اہم ہوتی ہے،بلکہ عدلیہ ان سب سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے جو جمہوریت کے تحفظ کیساتھ آئین اور قانون کی عملداری کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے عدلیہ کے وقار اور اہمیت اسی طور ممکن ہوتی ہے جب اس کے فیصلوں کوبصد احترام قبول کیاجائے چاہے یہ فیصلہ آپ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ عدالتیں معزز جج صاحبان کے ذریعے فیصلے کرتی ہیں۔جو ہم سے ہی ہیں اور ہماری طرح کے ہی گوشت پوست کے بنے انسان ہیں۔جنھیں ان کی اعلیٰ صلاحیتوں اور ان کی قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر منتحب کیا جاتا ہے بعض اوقات کوئی فیصلہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔لیکن مہذب معاشرے میں عدلیہ کے فیصلوں کو قبول کیا جاتا ہے۔ہر فیصلہ اگر ایک فریق کے حق میں ہوتا ہے تویہی فیصلہ دوسرے فریق کے خلاف ہوتا ہے لیکن فیصلہ دونوں فریقوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
نواز شریف کیخلاف فیصلہ بھی ایک فیصلہ ہے جو ان کے خلاف ہے۔اسی طرح کا فیصلہ ماضی میں سابق وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی کیخلاف بھی آیا تھا اور انھیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ جسے یوسف رضاگیلانی اور ان کی جماعت پیپلزپارٹی نے خندہ پیشانی سے قبول کیا تھا لیکن اس کے برعکس نوازشریف اپنے خلاف ہونے والے فیصلے کو قبول نہیں کررہے اور اس وقت سے عدلیہ کے خلاف گولہ باری کرنے میں مصروف ہیں۔اب جب عدالت نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کیخلاف پارٹی کے لیے غیرملکی فنڈنگ کیس سے بری کیا تو نوازشریف کے وزارت عظمیٰ سے نااہلی فیصلے کے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے۔
ان کی خواہش تھی کہ اگر عدالت نے مجھے پانامہ کیس میں ناہل کیا ہے توعدالت عمران خان کو بھی نااہل کرنے کا فیصلہ دیتی ۔لیکن عدالتیں تو کسی کی خواہش کے مطابق فیصلے نہیں کرتیں وہ تو اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں ۔جیسا کہ نوازشریف کے سیاسی مخالفین کی خواہش تھی کہ ان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس نیب میں چلے لیکن سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل پرفیصلہ دیا کہ تاخیر کے باعث نوازشریف فیملی کیخلاف حدیبیہ پیپرز کیس دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا یہ فیصلہ مکمل طور پر نوازشریف اور ان کی فیملی کے حق میں ہوا ہے۔لیکن نوازشریف خوش نہیں شائد وہ چاہتے ہیں کہ عدالتیں تمام فیصلے ان کی مرضی کیمطابق کریں جو آج کے جدید دور اور بدلتے ہوئے پاکستان میں ممکن نہیں ۔کیونکہ ملک میں عدلیہ پوری طرح آزاد ہے۔۔نوازشریف جو تین دفعہ اس ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ان کی طرف سے عدلیہ کیخلاف تحریک کو نہ تو کوئی پسند کر ے گا اور نہ ہی اس طرح کی کوئی تحریک پاکستان میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ نوازشریف کو سپریم کورٹ سے نااہلی کی اتنی زیادہ پریشانی نہیں کیونکہ وہ اپنے اقتدار کی مدت کے چار سال تو پورے کرچکے تھے۔انھیں اب اپنے خلاف احتساب عدالتوں میں کرپشن کے الزامات میںچلنے والوں ریفرنسز کا خوف ہے جن میں غالب امکان ہے کہ ان ریفرنسز کے فیصلوں کے میں انھیں سزا ہوگی جس کے نتیجے میں نوازشریف کو جیل جانا پڑے گا۔جو وزارت عظمیٰ سے نااہلی سے کہیں بڑی سزا ہوگی۔ ۔ان خدشات کے پیش نظر نوزشریف نے خود فیصلہ کیا ہے یا ان کے نادان مشیروں نے انھیں عدلیہ کیخلاف کھلی جنگ کا مشورہ دیا ہے تاکہ سزا ملنے اور جیل جانے کی صورت وہ یہ کہہ سکیں کہ چونکہ وہ عدلیہ کیخلاف تحریک چلارہے تھے اس لیے انھیں انتقام کے طور پر سزا دی ہے لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے کہ وہ عدلیہ کیخلاف کوئی تحریک چلا کر عدالتوں پر اثرانداز ہوسکیں گے۔ اور نہ ہی ان کی عدلیہ مخالف تحریک کو عوام میں پذیرائی ملے گی۔
عدلیہ کیخلاف اس طرح کی کوئی تحریک اگر اپوزیشن بھی چلائے تو اس کی کامیابی بڑی مشکل نظر ہوتی۔یہاں تو حکومت بھی نوازشریف کی جماعت مسلم لیگ ن کی ہے جس کے وہ سربراہ ہیں دنیا میں شائدہی کہیں اس طرح کی مثال موجود ہو کہ کسی حکومت نے اہنی قائم کردہ عدالتوں کیخلاف کوئی تحریک چلائی ہو۔یہ اعزاز بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کو حاصل ہوگا کہ اس نے اپنے ہی تقرر کردہ معزز جج صاحبان اور عدلیہ کیخلاف تحریک چلائی اگر ایسا ہوا تو یہ کسی بھی لحاظ سے قابل فخر بات نہیں ہوگی بلکہ یہ پاکستان کی خالق جماعت کے ایک حصے مسلم لیگ ن کے دامن پر ایک داغ ہوگا۔امید رکھنی چاہیے کہ نوازشریف عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کی بات فراموش کردیں گے۔دعا ہے کہ ایسا ہی ہو کہ پیارے پاکستان کی آزاد عدلیہ کیخلاف کوئی تحریک نہ چلے۔کیونکہ پاکستان کے عوام اور ملک کے لاکھوں وکلاء نے عدلیہ کی آزادی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔