تحریر : راشد علی بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ہند کے مسلمانوں نے انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیے کوششیں شروع کردی تھیں کیونکہ زندگیاں جان ومال ،عزت وابر تو حقیقی معنوں میں آزاد قوموں کی محفوظ رہتی ہیں جوقومیںغلامی پر اکتفا کرلیتی ہیں اذیت ان کا مقدر بن جاتی ہے انہیں اذیت کے ساتھ دلت کلہاڑیوں سے مارتے ہیں اورپھر آگ لگادیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا آواز بلند کرنے والا نہیں ہوتا کیونکہ یہ آزاد ہندوستان کا غلام مسلمان ہے،کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی بستی پر انتہاپسند بدھسٹ حملہ آوار ہوتے ہیں سینکڑوں گھر وں کوآگ لگادیتے ہیں درجنوں کو کلہاڑیوں سے کاٹ دیتے ہیں لاکھوں خوف کے مارے ہمسایہ ممالک میں پناہ حاصل کرتے ہیں ستم درستم تو یہ کے جہاں پناہ حاصل کرتے ہیں ظلم وہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا وہاں عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے ایسا بھی ہوتاہے کہ بھارتی انتہاپسند مجاہدین کی تلاشی کا بہانہ بنا کر نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں آزادی کی آواز بلند کرنے والوں پر چھرے برسائے جاتے ہیں آزادی کی نعمت پانے کے لیے ہزاروں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں اور اپنا روشن مستقبل، شاندار تعلیمی کیریئر اور والدین کی خواہشات اور خوابوں کو ٹھکرا کر اور زندگی کی آسائشوں کو ترک کر کے جلا وطنی کی خاک چھاننا، آزادی کی تحریکوں اور جنگوں میں حصہ لینا، جیلیں کاٹنا اور اجنبی زندگی گزارنا بہرحال کوئی آسان کام نہیںجس آزاد فضا میں ہم زندگی گزاررہے ہیں یہ ہمارے اسلاف اور قوم کے بہادر سپوتوں کے خون کی برکت ہے کہ ہم جسمانی اعتبار سے آزاد ہیں مگر فکری غلامی سے ہم آج بھی آزاد نہیں ہوسکے ہیں صہیونیوں نے بیسویں صدی میں ایسا نظام رائج کیا جس نے ہمیں جسمانی غلامی کی بجائے ذہنی غلامی سے دوچار کردیا یہ ایسی غیرمحسوس غلامی ہے جو قوموں کے وجود کو اندر سے ختم کردیتی ہے یہ آزادی چراغ تلے اندھیرا کے مترادف ہے بین الاقومی سامراجی نظام ،اشرافیہ کی معاشی چال بازیاں ،جمہوری نظام ،بیورکریسی ،جاگیرداری اس کے بنیاد ی سہولت کار ہیں۔
پہلے بین الاقوامی سامراجی جمہوری نظام کو ہی دیکھ لیجئے یہ نظام غریب کو اقتدار کی ہوا بھی کھانے نہیں دیتا آپ اسے اشرافیائی جمہوریت کہہ سکتے ہیں جس میں کروڑ پتی افراد کروڑوں روپے سیاست کی بھینٹ چڑھا کر ایوانوں میں پہنچتے ہیں پھر اقتدار کی آڑ میں کھربوں روپے بٹورلیتے ہیں پھر نسل درنسل انکے بچے قوم کی باگ دوڑسنبھالتے رہتے ہیں ریاست کی ہر چیز ان کے کنٹرول میں آجاتی ہے یہ عوامی مینڈیٹ کے چراغ تلے منی لانڈرنگ اورخورد برد کرتے ہیں جس سے ملکی معیشت کمزور پڑجاتی ہے اورریاست کو چلانے کے لیے پیسہ درکار ہوتا ہے جو قومی خزانے سے منتقل ہوکر منتخب نمائندوں کے خزانوں میںمنتقل ہوجاتاہے پانامہ لیکس اورپیراڈائزلیکس کے منظر عام پر آنے سے یہ تھیوری سمجھنا قدرآسان ہوگیا ہے پھر یہ منتخب نمائندے شرح سود پر قرض وصول کرتے ہیں جسے ہی قرض خزانے میں آتا ہے ویسے ہی ان کی شاہ خرچیاں بڑھ جاتی ہیں حتی کہ آئی ایم ایف جسے ادارے اس ملک کی عوام کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی چیز اس ہفتے سستی ہونی چاہیے کون سی مہنگی جمہوری شعوری غلامی اورعوام لاشعوری طور پر غلامی کی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں امریکا اور ترقی یافتہ ممالک معاشی غلام ملکوں کے حکمرانوں کو مردہ ڈالر کے قرضے دے کر اشرافیائی جمہوریت کو تقویت دیتے ہیںاس مردہ گھوڑے کا دوڑنا ہی امریکہ کا دوڑنا ہے پاکستانی اشرافیہ امریکی حکومت کے حکم پر بجٹ سازی کرتی آرہی ہے مالی سال 1947-48 کو حکومت نے عوام پر ٹیکس لگا کر 206.097 ملین روپے ریونیو لیا تھا اور 2016-17کے لیے وفاقی حکومت نے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف 3,956.123 بلین مقرر کیا یہ پیسہ غریب عوام کی جیب سے وصول کیاجاتاہے بیچارے عوام سوئی اورماچس تک کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
جبکہ رحمان ملک صاحب نے 19076،مولانا فضل الرحمان نے 50181،،فاروق ستار 39758وزیر داخلہ احسن اقبال 82440اورمشاہد اللہ خاں نے 11313روپے ٹیکس ادا کیا اب اگر ان غریب سیاست دانوں کے اخراجات کا اندازہ لگایا جائے تومعلوم ہوگا ان میں کوئی مماثلت ہی نہیں ہے ٹیکس کی مد میں حکومت ایک غریب مزدورآدمی سے سالانہ 24000کے لگ بھگ وصول کرتی ہے ملک پھر بھی مقروض ہے کیونکہ جاگیردار اشرافیہ بیورکریٹ اپنا فرض احسن طریق سے انجام نہیں دیتے اورکیوں دیں مال مفت دلِ بے رحم یہی وجہ ہے عوام کو جمہوری غلام اور معاشی غلام بنائے رکھنے کے لیے اشرافیہ نے سیاسی سجادہ نشینی کو مضبوط کیا ہوا ہے تمام سیاسی جماعتیں ماسوا جماعتی اسلامی اپنی بقا اوراپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سجادہ نشینی کی روایت کوبرقرار رکھے ہوئے ہیںکبھی موقع ملاتو اقتدار سے چمٹے رہنے کاشجرہ نسب بھی بیان کردیں گے ابھی یہ زحمت اس لیے گوارا نہیں کررہے ہیں کہ بادی النظر میں بلاول زرداری،کلثوم نواز ،فضل الرحمان ،خرم دستگیر ،اچکزئی ،اعجازالحق کے رفقاء کاشجرہ سیاست سب کومعلوم ہے ،دوسری جانب وطن عزیز میں گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے عجب معاملہ چل رہا ہے پہلے ملک وزیرخارجہ سے محروم تھا تب ہمیں بیرونی دنیامیں خارجی پالیسی میں شکست کا سامنا تھا اور بھارت ہمیں تنہاکرنے کی کوشش میں مگن تھا وزیر خارجہ کے آنے کے بعد وزیرخزانہ بستر مرض پر محو استراحت ہے اور بابا رحمت کا خوف سوار ہے یہ بابا رحمت اس کے کیرئیر کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔
جناب سے گزارش ہے کہ بابا رحمت انصاف کر کرسی پر براجمان ہے اورانصاف کے تمام تقاضے پور ے کررہا ہے بہتر ہے آپ وطن میں آئیں اور بابارحمت کا سامنا کریں کیونکہ ملک کو وزیرخزانہ کی ضرورت ہے مقتدر حکومت کو آپ کے علاوہ کسی پر اعتبار نہیں ہے یا کسی کے پاس آپ جیسی مہارت نہیں ہے پاکستان پر قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے قرضوں کا مجموعی حجم پچیس ہزار آٹھ سو بیس ارب روپے تک جا پہنچاہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق تیس ستمبر تک پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضہ اور واجبات پچیس ہزار آٹھ سو بیس ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں اس دوران اندرونی قرضے پندرہ ہزار تین سو پچھتہرارب جبکہ بیرونی قرضہ آٹھ ہزار پانچ سو چھیاسی ارب روپے تک جاپہنچے ہیں سال2013 میں جب مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو پاکستان مجموعی طور پرچودہ ہزار تین سو اٹھارہ ارب روپے کا مقروض تھا۔
یوں گزشتہ چار سال کے دوران قرضوں میں ساڑھے گیارہ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوگیا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں قرضوں میں آٹھ ہزار ایک سو بانوے ارب روپے جبکہ پرویز مشرف کے دور میں تین ہزارایک سو اسی ارب روپے کا اضافہ ہوا مرکزی بینک کے مطابق سرکاری ادارے بھی قرضوں کی دلدل میں دھنس چکے ہیں پی آئی اے کے ذمہ ایک سو چوبیس ارب، پاکستان اسٹیل ملز تینتالیس ارب جبکہ دیگر سرکاری ادارے پانچ سو چوہتر ارب روپے کے مقروض ہیں دوسری جانب ڈالر آسمان سے باتیں کررہا ہے ڈالر کی اونچی اڑان سے قرضوں کا حجم یقینا بہت بڑھ جائے گا جو درست نہیں ہوگاحکومت کو جلدازجلد وزیرخزانہ کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ ملکی معیشت کی سمت کو درست کیا جا سکے۔