تحریر: کھئیل داس کوہستانی پاکستان کی تاریخ میں 25 دسمبر کے دن کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ دیگر اہم حوالوں کے ساتھ ساتھ 25 دسمبر قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کا دن بھی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف کی سالگرہ بھی اسی دن منائی جاتی ہے۔ ہر سال ملک بھر میں محمد نوازشریف کی سالگرہ کی تقریبات جوش و جذبہ سے منعقد کی جاتی ہے۔ محمد نواز شریف اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں لیکن ان سے والہانہ لگائو رکھنے والے عوام اپنے محبوب قائد کی سالگرہ بھرپور انداز سے منا کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد نواز شریف ، قائد اعظم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے جمہوریت کے راستے پر پختہ یقین رکھتے ہیں وہ بابائے قوم کی طرح عوام کی حکمرانی، ووٹ کے تقدس ، جمہوری پارلیمانی نظام اور آئین و قانون کی حکمرانی کے داعی ہیں۔ محمد نوازشریف کا پورا سیاسی کیریئر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ قائد اعظم کی شخصیت کو رہنما بنا کر پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور ملک و قوم کی ترقی کیلئے بھرپور جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی دیگر جمہوریت پسند ریاستوں میں مقبولیت حاصل ہے۔
محمد نوازشریف پنجاب کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے وفاق کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ پھر جب 1988 ء میں عام انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن اس دور میں محمد نوازشریف کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ پاکستان میں وہ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیں اور ایسا ہی ہوا۔ محمد نوازشریف نے پی پی کے اس دور میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے یہ پیغام بالکل تھا کہ محمد نوازشریف ہی اب اگلے وزیر اعظم ہوں گے اور ہوا بھی یہی۔ 1990 ء کے انتخابات مسلم لیگ(ن) نوازشریف کی مدبرانہ سیاست کی وجہ عام انتخابات میں کامیابی ہوگئی اور محمد نوازشریف پہلے ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
اب محمد نوازشریف اگلی منزلوں کی جانب گامزن تھے۔ انہوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جب 1997ء میں عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) نے عام انتخابات میں ایک بار پھر میدان مارلیا لیکن 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک سازش کے تحت منتخب جمہوری اور عوامی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ یہ کڑی آزمائش کا وقت تھا لیکن ابتدا کے اس دور میں محمد نوازشریف نے صبر و تحمل اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ جیل کی صعبتیں اور جلاوطنی کا عذاب بھی انہیں برداشت کرنا پڑا ۔ شریف خاندان کے سب ہی مردوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا تاہم اس دوران مریم نواز اور ان کی والد بیگم کلثوم نواز نے اپنے خاندان کی رہائی کے لیے مہم چلائی ،جن لوگوں کا خیال ہے کہ محمد نوازشریف کو اقتدار تک پہنچنے کیلئے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا وہ اس دور کے مصائب و مشکلات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ ایک بار پھر جب وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی تو انہوں نے ملک کی سیاست میں بھرپور انٹری دی اور جمہوریت کی بقاء و استحکام کے لئے زرداری حکومت سے بہتر تعلقات استوار کئے لیکن زرداری حکومت نے پانچ برس کے عرصے میں ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچادیا۔ لہٰذا اب عوام کی نظریں ایک بار پھر نوازشریف کی شخصیت پر مرکوز تھیں۔ 2003 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں عوام نے ایک بار پھر اقتدار کا تاج محمد نوازشریف کے سر پر سجا دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کی حالت ابتر تھی، دہشتگردی عروج پر تھی۔
امن و امان کا قیام ایک خواب بن گیا تھا۔ معیشت زوال پذیر تھی۔ عوام ایک مسیحا کے منتظر تھے۔ جس طرح نوازشریف نے اپنے گذشتہ دو ادوار میں ملک کو ایٹمی طاقت بنانے سمیت ملک و قوم کی قابل قدر خدمات انجام دی تھیں۔ عوام پر امید تھے کہ نوازشریف اپنے تیسرے دور حکومت میں بھی ملک و قوم کی بھرپور خدمت کریں گے اور پاکستان کو مسائل کے بھنور سے نکالیں گے۔ محمد نوازشریف نے اقتدار سنبھالنے میں قوم سے وعدہ کیا کہ وہ دہشتگردی کا خاتمہ کردیں گے، توانائی کا بحران ختم کردیں گے، لوڈ شیڈنگ سے نجات دلا دیں گے، کراچی سمیت ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنائیں گے اور معیشت کی بحالی کے لئے ہر ممکنہ اقدامات کردیں گے۔ بلاشبہ محمد نوازشریف نے اپنے وعدے پورے کئے اور کراچی جو خوف کی علامت بنا ہوا تھا میں روزانہ لاشیں گرتی تھیں وہاں امن و امان قائم ہوا تو عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ وزیرستان میں آپریشن کرکے دہشتگردی کا خاتمہ کیا۔ ملک میں مجموعی طور پر امن قائم ہوا تو معیشت میں بھی بہتری کے آثار دکھائی دینے لگے۔ مہنگائی پر کنٹرول ہوا، ڈالر کی قیمت کم ہوئی، پیٹرول اور بجلی کے نرخ میں بھی کمی واقع ہوئی۔
توانائی بحران کے خاتمہ کیلئے بے مثال جدوجہد کی گئی۔ متعدد پاور پلانٹس لگائے، لوڈ شیڈنگ کا تقریباً خاتمہ کردیا گیا، پورے ملک میں شاہراہوں کا جال بچھایا گیا، کراچی – حیدرآباد سمیت موٹرویز کی تعمیر کی گئی لیکن اس دور کا سب سے بڑا کارنامہ سی پیک کو خواب سے حقیقت کا روپ دینا تھا۔ سی پیک گیم چینجر ہے اور پاکستان کی مستقبل کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ ہے۔ یہ دشمن کی آنکھ میں تنے کی طرح چبتا ہے۔ جمہوری سفر مثبت انداز سے جاری تھا، ملک میں امن و امان قائم ہوچکا تھا، معیشت کی بہتری کی تصدیق نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک سے معتبر ادارے بھی کررہے تھے لیکن جمہوریت دشمن قوتیں اورچور دروازے سے اقتدار میں آنے کی خواہش مند سیاسی جماعتیں مسلسل سازشیں کررہی تھیں اور صبح شام نواز حکومت کے خاتمے کی پیش گوئی کررہی تھیں۔ اس دوران پانامالیکس کا معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت تھا۔
بعض رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو عدالت سے رجوع کرنے اور نوازحکومت کے خاتمے کے لئے یہ مشورہ ایک جج نے ہی دیا تھا۔ بہر کیف پاناماکیس کیا تھا اور کیا نہیں مگر اقامہ کو بنیاد بنا کر نوازشریف کو اقتدار سے محروم کردیا گیا جس سے جمہوری عمل کو شدید دھچکا لگا۔ عوام حیران رہ گئے، انہیں اپنے ووٹ کی اس بے حرمتی پر سخت صدمہ پہنچا وہ کل بھی نوازشریف کے ساتھ تھے اور وزارت عظمیٰ کے چلے جانے کے بعد بھی عوام نوازشریف کے ساتھ ہیں۔ جب انہوں نے پنڈی سے لاہور تک ریلی نکالی تو عوام نے اپنے محبوب قائد کا والہانہ استقبال کرکے ثابت کردیا کہ عوام کسی مائنس ون فارمولے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ نوازشریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں چار سال مکمل کئے مگرمخالف سیاسی قوتیں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو گرا نہیں سکیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنی مدت پوری کررہی ہے۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف مزاحمت کی علامت بن کر ابھرے ہیں اور جمہوری جدوجہد کا استعارہ بن گئے ہیں۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی جمہوریت پر کوئی سودے بازی کرنے کو تیار نہیں۔ وہ ووٹ کے تقدس کو بحال کرنے کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔ حالات بتارہے ہیں 2018 ء کے عام انتخابات میں عوام کے نجات دہندہ لیڈر کی حیثیت سے ایک بار پھر نواز شریف ہی ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔