تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پاکستان کے سیاسی اکھاڑے کی رِیت ہی نرالی ہے۔ یہاں لگ بھگ دو سو پہلوان اکھاڑے میں ہیں اور ہر کسی کو اپنی طاقت کا زعم ۔ شکست خوردہ عناصر اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔کرکٹ کے میدانوں سے آئے ہوئے عمران خاں نے سیاست کو کھیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ اب پاکستانی سیاست میں امپائر، باؤنسر، گُگلی اور وِکٹ جیسے الفاظ عام ہیں۔ یوں تو عمران خاں، میاں نواز شریف پر امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلنے کا الزام دھرتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود اُن کی نگاہیں امپائر کی کھڑی انگلی کا نظارہ کرنے کے لیے ترس گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے مولابخش چانڈیو کہتے ہیں ”کپتان کو اُنگلی کا انتظار ہے لیکن اُنگلی ابھی فارغ نہیں”۔ آجکل کپتان پر ”قبل اَز وقت انتخابات کا دَورہ پڑا ہوا ہے۔ قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے وہ متواتر قبل اَز وقت انتخابات کی رَٹ لگاتے رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئینی طور پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں اور الیکشن کمیشن کے ترجمان کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے لیے ساڑھے پانچ ماہ کا وقت درکار ہے۔
2013ء کے انتخابات سے پہلے عمران خاں کو حواریوں نے یقین دلا دیا تھا کہ اُن کی دوتہائی اکثریت پکّی لیکن نتیجہ اِس کے بالکل برعکس نکلا۔نوازلیگ نے 188 سیٹوں کے ساتھ میدان مار لیا اور تحریکِ انصاف کے حصّے میں آئیں صرف 32 سیٹیں۔ پنجاب اسمبلی میں اِس سے بھی بُری صورتِ حال تھی جہاں نوازلیگ کی 310 سیٹوں کے مقابلے میںکپتان صاحب کی جھولی میں گریں صرف 30 سیٹیں۔ عمران خاں نے نتائج کوقبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کی راہ اپنائی اور ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ دھرنا دیا۔ اِس دھرنے میں مولانا طاہرالقادری بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ اِس دھرنے کی ساری رونقیں مولانا کے مریدین کے دم قدم سے تھیں لیکن جوں ہی مولانا کو ”دَیت” کی قسط موصول ہوئی ،وہ چپکے سے اپنے دیس نہ صرف کھِسک لیے بلکہ دھرنے کی ساری رونقیں بھی اپنے ساتھ لے گئے۔پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کپتان کے ساتھ جتنے لوگ کنٹینر پر ہوتے ،سامعین اُس سے بھی کم ہوتے لیکن ضِد ی کپتان نے دھرناجاری رکھا اور یہ دھرنا اُس وقت ختم ہوا جب سانحہ اے پی ایس پیش آیا۔دھرنے کی ناکامی کے باوجود کپتان کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر احتجاج کی راہوں کے مسافر بنے رہے۔ پھر پاناما کا ہنگامہ کپتان کی آنکھوں میں اُمید کی کرن لے آیا اور بالآخر وہ پاناما کیس میں کامیاب بھی ہوئے۔
پیپلزپارٹی نے دھرنے کے خلاف تو نوازلیگ کا بھرپور ساتھ دیا لیکن پاناما کیسز میں وہ بھی شریف خاندان پر طنز کے تیروں کی بوچھاڑ کرتی رہی۔ یہ بجا کہ پیپلزپارٹی پاناما کیس میں مدعی نہیں بنی لیکن تنقید میں وہ صفِ اوّل ہی میں رہی۔ شاید 2018ء کے انتخابات کو قریب آتا دیکھ کرپیپلزپارٹی نے بھی نواز مخالفت میں ہی عافیت جانی۔ ہمیں حیرت تو اُس وقت ہوئی جب سیاسی شطرنج کے گھاگ کھلاڑی آصف زرداری نے مولانا طاہرالقادری کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں مولانا کا بھرپور ساتھ دینے کاعہد کیا۔ کپتان نے بھی اپنے ”سیاسی کزن” کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ساتھ دینے کی یقین دہانی کروا دی۔ اب مولانا نے حکومت کو 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ مستعفی ہوں (جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا)۔ مولانا نے 28 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس بھی بلا رکھی ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ مولانا ”دَیت” کی رقم بڑھانے کے چکر میں ہیں اور جوں ہی اُن کا مطالبہ پورا ہوا ،وہ چپکے سے کھسک لیں گے۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ دو مولانا (فضل الرحمٰن اور طاہرالقادری) ہمیشہ موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن تو جلد ہی نوازلیگ کو داغِ مفارقت دینے والے ہیں کیونکہ ایم ایم اے ایک دفعہ پھر بحال ہو چکی اور طے یہ پایا کہ ایم ایم اے بحالی کے بعد جماعت اسلامی خیبر پختونخواہ کی حکومت سے الگ ہو جائے گی اور مولانا مرکزی حکومت سے۔ ویسے بھی مولانا کو اب نوازلیگ میں ”کَکھ” نظر نہیں آتا اور کارِ بیکار اُنہوں نے کبھی کیا نہیں۔ مولانا طاہرالقادری کا بھی ”اَندرکھاتے” حکومت سے جلد سمجھوتہ ہو جائے گا مگرہم سوچ رہے ہیںکہ اگر یہ سمجھوتہ نہ ہوا تو کنٹینر پر مولانا طاہرالقادری کے ایک طرف عمران خاں اور دوسری طرف آصف زرداری کا کھڑا ہونا کیسا لگے گا۔
جماعت اسلامی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی مقدور بھر نوازلیگ کو جھٹکے دینے میں مصروف رہیں۔ اِن جماعتوں کا پارلیمنٹ میں کچھ نہ کچھ حصّہ ضرور تھا البتہ ہماری سیاست میں جو نیا ”مذہبی فیکٹر” شامل ہوا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ فیض آباد کا دھرنا اور خادم حسین رضوی کی گالی گلوچ سبھی کو یاد ہے۔ اُس نے بہانہ تو ناموسِ رسالتۖ کا بنایا لیکن مقصد 2018ء کے انتخابات میں حصّہ لینا تھا۔ اُس کے اِس دھرنے نے ہمیں پوری دنیا میں بدنام کر دیا۔ سیال شریف کے گدی نشین پیر حمید الدین سیالوی بھی کمر کَس کر میدان میں آچکے ہیں۔ اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ ایک دفعہ پھر ”مشرف بہ اسلام” ہوں لیکن رانا صاحب کہتے ہیں کہ وہ پیر صاحب سے بھی بڑے عاشقِ رسولۖ اور ختمِ نبوت پر کامل یقین رکھنے والے ہیں۔ سیالوی صاحب نے دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ قومی وصوبائی اسمبلی کے 17 استعفے اُن کی جیب میں ہیںلیکن جب اُنہوں نے جیب جھاڑی تو صرف پانچ ہی نکلے۔ اب آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔
اِس سیاسی افراتفری میں ”بابا رحمت” بھی پنچائتی بن کر میدان میں آیااور اُس نے سارا کھیل ہی اُلٹ پُلٹ کر دیا۔ دو تہائی اکثریت کے حامل وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو پاناما کی بجائے اقامہ پر جاتی اُمرا کی راہ دکھائی اور عمران کا کہا سچ ثابت ہوا کہ امپائر کی انگلی اُٹھنے والی ہے۔ ہم ”بھولے پَنچھی” تو یہی سمجھتے رہے کہ کپتان کی امپائر سے مراد اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ امپائر کوئی اور بھی ہے جس کا نام ”بابا رحمت” اور وہ جس کو جی چاہے کان سے پکڑ کر نکال سکتا ہے۔
اب بابے رحمت کا حکم ہے کہ اُس کے فیصلوں کو چوں چراں کیے بغیر تسلیم کر لیا جائے ۔ میاں شہبازشریف اور سابق وزیرِداخلہ چودھری نثار علی خاں بڑے میاں صاحب کو سمجھا سمجھا کے تھک بلکہ ”ہَپھ” گئے ہیں کہ بابے رحمت کے خلاف بیان بازی بند کر دیں کیونکہ اِس میں اپنا ہی نقصان ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ جوں جوں بڑے میاں صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ،وہ تَپ کر مزید ”اَوکھے اَوکھے” بیان دینا شروع کر دیتے ہیں۔ میاں شہبازشریف نے تو اب خاموشی کی ”بُکل” مار لی ہے لیکن چودھری نثارعلی خاں اب بھی گاہے بگاہے ایسے بیان دیتے رہتے ہیںالبتہ اُن کا کہا صدا بصحرا۔ اب میاں نوازشریف نے ”عدل بحالی ” تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔ میاںصاحب پی سی او ججز کی بحالی کے لیے سڑکوں پر نکلے اورپیپلز پارٹی کی حکومت میں اِس شرط پر شامل ہوئے کہ مشرف دَور میں نکالے گئے ججز کو بحال کر دیا جائے گا لیکن آصف زرداری مُکر گئے اور کہا” وعدے قُرآن وحدیث نہیں ہوتے” تو اُنہوں نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ آج اُنہیں یہ سب کچھ یاد کرکے احساس تو ہوتا ہوگا کہ اُن کی ساری جدوجہد عبث تھی ،بیکار تھی۔ شاید اِسی لیے اب اُنہوں نے عدلیہ کی بجائے ”عدل بحالی’ ‘ کا عندیہ دیا ہے۔ ہماری سمجھ میں تو ”کَکھ” نہیں آیا کہ میاںصاحب کی عدل بحالی سے کیا مراد ہے کیونکہ عدل تو عدلیہ ہی نے کرنا ہے اور اِس عدلیہ کے خلاف وہ آتش فشاں بنے بیٹھے ہیں۔ تو کیا وہ ساری عدلیہ کو ہی گھر بھیجنا چاہتے ہیں؟۔
عدلیہ کے بابے رحمت کی عزت وتکریم ہم سب کا فرض کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ”کھُنّے سِک” جائیں گے لیکن گاؤں کا پنچائتی بابا رحمت جب فیصلہ کرتا ہے تو یہ سوچ کر کرتا ہے کہ کِس کا پلڑا بھاری ہے۔ ہم آئے دِن اخبارات میں ایسے ”بابا رحمتوں” کے فیصلے پڑھتے اور نیوزچینلز پر دیکھتے رہتے ہیں جن پر عدلیہ اَزخود نوٹس بھی لیتی ہے اور اُنہیں سزائیں بھی دیتی ہے۔ اِس لیے اعلیٰ عدلیہ کا ”بابا رحمت” سے استعارہ باندھنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔