تحریر : محمد شاہد محمود سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے بحر احمر کے ساحل پر سرمایہ کاری، سیاحت اور تجارت کے سب سے بڑے منصوبے ‘نیوم’ کے اعلان کو دنیا بھر میں ان کے انقلاب آفریں اقدامات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ الریاض کے شاہ عبدالعزیز کانفرنس سینٹرمیں ‘نیوم’ جیسے میگا پروجیکٹ کے اعلان کے موقع پر اقتصادی اور کاروباری شعبے سے وابستہ ہزاروں شخصیات نے شرکت کی۔ جب شہزادہ محمد بن سلمان نے ‘نیوم’ سٹی پروجیکٹ کے لیے 5 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تو حاضرین نے ان کے اس غیرمعمولی منصوبے پر حیرت کا اظہار کیا اور سب نے کھل کر ان کے معاشی ویڑن کو داد تحسین پیش کی۔ اقتصادی منصوبے ‘نیوم’ کے اعلان کے ساتھ ہی عالمی تجارتی اور سرمایہ کار کمپنیوں نے اس میں گہری دلچسپی لینا شروع کی ہے۔ اس منصوبے کو دنیا میں سعودی عرب کے ایک نئے تجارتی، اقتصادی اور ترقیاتی چہرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ‘نیوم’ سنہ 2017ء کے ان سعودی میگا پروجیکٹ میں سر فہرست ہے جس کے تحت بحر احمر کے کنارے ایک نیا تفریحی، اسپورٹس، ثقافتی اور تجارتی شہر بسانے کا اعلان کیا گیا۔ اس منصوبے میں 50 جزیروں کو شامل کیا جائے گا مگر سعودی ولی عہد کے انقلابی اقدامات کا یہ واحد منصوبہ نہیں جو عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان کا کہنا ہے کہ ‘ویڑن 2030’ سعودی عوام کی امیدوں اور تواقعات میں سے بہت بڑی توقع ہے۔ چاہے حکومت یو یا پبلک سیکٹر سب نے اس ویڑن کو کامیاب بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔ جب سے ویڑن 2030ء کا اعلان کیا گیا تب سے سعودیہ عالمی توجہ کا مرکز ہے۔ جدت کی طرف پہلا قدم ‘نیوم’ پروجیکٹ کے اعلان کے محض تین دن بعد ایک سعودی نوجوان مشعل الھرسانی نے نیوم کے ‘لوگو’ سے متاثر ہو کر اپنی ایجاد پیش کی۔ یہ اس منصوبے میں جدت کی طرف پہلا قدم تھا۔ الھرسانی نے کہا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ‘نیوم’ منصوبہ شروع کر کے انقلاب آفریں کام کیا ہے۔ یہ منصوبہ خواب دیکھنے والوں کا شہر ہے۔ آج تک ہم جس شہر کا خواب دیکھتے تھے اس کی طرف عملا چل پڑے ہیں۔ میں اور میرے ساتھی انجینیروں نے 72 گھنٹوں میں اپنی منفرد ایجاد پیش کی۔ یہ ایجاد ‘نیوم’ شہر کی طرف جانے والی گاڑیوں کے ٹائروں سے توانائی پیدا کرنا کا پروجیکٹ ہے۔
سعودی، برطانوی بزنس کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کریس اینس ہوبکنز کہتی ہیں کہ سنہ 1980ء کے عشرے کے دوران جب مارگریٹ تھیچر نے اقتدار سنبھالا تو مملکت عبوری تبدیلیوں کے دور سے گذر رہا تھا۔ ہمیں بھی ایسے ہی چیلنجز درپیش رہے۔ پبلک سیکٹر کا ملک کے اقتصادی شعبے میں کردار فروغ پذیر ہوا۔ بے روزگاری بہت زیادہ تھی اور نئے منصوبوں کی ڈٹ کر مخالفت بھی کی گئی، مگر آخر کار لوگوں نے تسلیم کیا کہ اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل نو ضروری ہے۔ اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل نو دنوں میں نہیں بلکہ برسوں کا کام تھا، نے پوری قوت سے اس کی حمایت کی۔ خواتین کو مختلف شعبوں میں کام کا موقع دیا اور پبلک سیکٹر کے اقتصادی کردار میں اضافہ کردیا۔ عملی شعبے میں خواتین کی شمولیت سعودی عرب کے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ڈائریکٹر ٹیم کالین نے بتایا موجودہ عرصے میں سعودی عرب کے دورے کے دوران ماضی کی نسبت ہمیں خواتین کے ساتھ کام کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ میں اسے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتا ہوں۔ یہاں خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ جدت چاہتی ہیں اور ان میں سے بہت سی عملی شعبوں میں حصہ لینے کی خواہاں ہیں۔ اگر خواتین کو عملی شعبوں میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تو اس سے ملک کی اقتصادی شرح بہتر ہوگی اور خانگی آمدن بھی بڑھے گی۔
خواتین کا مختلف کاموں میں حصہ لینا خود کفالت کی طرف بھی اہم قدم ثابت ہوگا۔ فنڈ مینجمنٹ کمپنی کاپریکورن کے ڈائریکٹر برائے سرمایہ کاری عماد مشتاق کا کہنا ہے کہ سعودی عرب فیصلہ کن تبدیلیوں کے عمل سے گذر رہا ہے۔ ہمیں سعودی عرب میں سماجی زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ ماضی میں جن چیزوں کو ہم صرف سوچ سکتے تھے آج انہیں عملا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں رونما ہونے والے تغیرات اور تبدیلیاں مملکت کی ترقی کی علامت ہیں اور ان تبدیلیوں نے سعودیہ کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کو زائل کرنے میں مدد کی ہے۔سعودی ولی عہد ، وزیر دفاع اور نائب وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو اسلام کا پْرامن تشخص مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مل جل کر کام کریں گے۔اکیسویں صدی میں اور بالخصوص مسلم دنیا میں سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کے خطرناک مسئلے سے نمٹنا ہے۔اتحاد نے باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادے کے لیے چار نکاتی حکمت عملی و ضع کی ہے اور وہ نظریہ ، ابلاغیات ، دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام اور فوج ہے۔ ان ذرائع سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تمام شکلوں سے نمٹا جائے گا۔اس کے علاوہ بین الاقوامی سلامتی اور امن کے لیے کوششوں میں موثر انداز میں شمولیت اختیار کی جائے گی۔اسلامی فوجی اتحاد کے قائم مقام سیکریٹری جنرل ، لیفٹیننٹ جنرل عبدالا لہ الصالح نے قبل ازیں کہا تھا کہ ”اس اجلاس کے بعد دہشت گردی مخالف اتحاد کے الریاض میں واقع مرکز میں سرگرمیوں کا بھی باضابطہ طور پر آغاز ہوجائے گا”۔ان کا کہنا تھا کہ اس مرکز کے ذریعے اتحاد کے رکن ممالک کو ایک پلیٹ فارم دستیاب ہوگا جہاں وہ دہشت گردی مخالف کاوشوں اور تجربات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرسکیں گے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مقامی اور علاقائی ثقافتی تقاضوں کے مطابق حل بھی دستیاب ہوسکیں گے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے دو سال قبل چالیس اسلامی ممالک پر مشتمل دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اسلامی عسکری اتحاد تشکیل دیا تھا۔ ہشت گردی ایک نظریاتی مسئلہ الریاض میں ہونے والے اسلامی فوجی اتحاد کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل محمد العیسیٰ نے کہا کہ دہشت گردی محض ایک سیکیورٹی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاصر انتہا پسندی علمی محاذ پر موثر اقدامات نہ ہونے کے نتیجے میں پھیل رہی ہے اور دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کی ترویج کے لیے اسلام کی تعلیمات کا غلط استعمال کررہیہیں۔العیسیٰ کا کہنا تھا کہ ‘داعش’ تنظیم میں 100 سے زاید ملکوں کے دہشت گرد شامل ہوئے۔ داعش میں یورپی ملکوں سے بھرتی ہونے والے افراد کی تعداد پچاس فی صد ہے۔ کرپشن کے خلاف جنگ عرب و سعودیہ مالیاتی ایجنسی ‘ساما’ کے گورنر ڈاکٹر احمد الخلیفی نے بدعنوانی کا خاتمہ بہت سے ملکوں کی پہلی ترجیح ہے۔ ملک کی اقتصادی ترقی اور اسے آگے لے جانے کے لیے کرپشن کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ کرپشن کا خاتمہ ہی مملکت کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی فراہمی کا ضامن ہوسکتا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ چھوٹے پروجیکٹ پر کام کرنے والوں کو بڑے مواقع فراہم کرتا ہے۔ افرادی ترقی میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔ مشہور ہے کہ معاشرے میں کرپشن عام اس میں جدت اور ترقی ممکن نہیں۔
وزیر خزانہ محمد الجدعان کا کہنا ہے کہ دو سال قبل جب خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے زمام اقتدار ہاتھ میں لی تو انہوں نے واضح اعلان کیا تھا کہ حکومت کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ کرپشن کا کوڑا چھوٹے بڑے سب پر برسے گا۔ اس کے بعد سے کرپشن کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ ملک میں انصاف، مساوات اور برابری کے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے ضروری ہے۔ کرپشن کا خاتمہ علاقائی اورعالمی سرمایہ کاروں کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی ترغیب اور دعوت دے گا۔ سابک کمپنی کے چیف ایگزیکٹو یوسف البنیان کا کہنا ہے کہ حالیہ کانفرنسوں یا سابک کے فورم سے عالمی کمپنیوں کے سربراہان سے ہونے والی ملاقاتوں سے یہ واضح ہوا ہے کہ عالمی سرمایہ کار سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی فرموں کے مالکان ان سے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے مواقع اورترقی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ مملکت میں ہونے والی تبدیلیوں میں کس طرح اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔سعوی مانیٹری فنڈ کے گورنر ڈاکٹر احمد الخلیفی کا کہنا ہے کہ ملک میں محفوظ ذخائر آنے والے 40 ماہ کے لیے کافی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ محفوظ ذخائر کے حوالے سے انہیں کسی قسم کی پریشانی اور تشویش نہیں۔ ان کا کہنا تھ اکہ سعودی وزارت خزانہ نے مالیاتی توازن، اخراجات، قرضہ جات اور دیگر امور میں توازن قائم کیا ہے۔