تحریر : رائو عمران سلیمان دوسری جماعتوں کے ساتھ انتخابی معاہدوں کی وجہ سے 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز ایک تو اپنے امیدوار اکثریت سے نہ لاسکی اور جو امیدوار تھے وہ سب الیکشن ہار گئے تھے صرف ایک قومی اسمبلی کی سیٹ کراچی کے ضلع ملیر سے جیت سکے اورصوبائی اسمبلی کی چند ایک سیٹیں ملی ایسی حالت میں بھی نواز لیگ ملک میں برسراقتدار آگئی ۔اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف جو پارٹی کے صدر بھی تھے انہیں چاہیے تو یہ تھا کہ سندھ میں اس قدر خراب کارکردگی کا جائزہ لیتے ا ور ان وجوہات کو تلاش کرتے جو سندھ میں انتخابات میں خراب کارکردگی کا باعث بنے ، خاص طور پر سندھ میں پارٹی کو یکجا کیا جاسکتا تھااور دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق سندھ بھر میں مسلم لیگ کو منعظم کیا جا سکتا تھا۔
جبکہ غوث علی شاہ مسلم لیگ چھوڑ چکے تھے ،لیاقت علی جتوئی ،سردارارباب غلام رحیم سمیت پارٹی کے بیشتر لوگ پارٹی سے مایوس ہوکر بیٹھ گئے تھے ،ایسی حالت میں انہیں چاہیے تھا کہ وہ سندھ میں موجود رہنمائوں کو ہمت دلاتے اور انہیں دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ نوازشریف کے اردگرد بیٹھے لوگوں نے انہیں اس طرح کے مشورے دیئے جس میں نوازشریف نے سندھ میں مسلم لیگ کو یکسر نظر انداز ہی کردیا خاص طور پر اردو بولنے والے کارکنوں کو سخت مایوس کیا ۔اس وقت سندھ میں نوازشریف کی غیر سنجیدہ توجہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انہوںنے سندھ میں موجودہ وقتوں میں جس آدمی کو سندھ کا صدر لگایا ہے اس کا نام بابو سرفراز جتوئی ہے جو انتہائی غیر مقبول شخصیت کا حامل آدمی ہے جو زیادہ سے زیادہ اپنے ہی شہر تک محدود ہے مگر ایسے آدمی کو پورے سندھ کا ہی صدر بنادیا گیا یعنی اسے مسلم لیگ کے کارکنوں سمیت میڈیا کے لوگ بھی نہیں جانتے کہ سندھ میں مسلم لیگ کا صدر ہے کون ؟ ۔ ویسے طریقہ کار تو یہ ہے کہ سندھ میں ہر سیاسی جماعت اپنا صدر سندھی رکھتی ہے جبکہ جنرل سیکرٹری اردو بولنے والا ہوتا ہے یہ ہی دستو رپاکستان بننے سے لیکر اب تک مسلم لیگ نے بھی اپنا رکھا تھا۔مگر موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ نوا زنے صدر بھی سندھی ہی لگا رکھا ہے اور جنرل سیکرٹری بھی ایک سندھی کو ہی بنایا گیا ہے جس کا نام شاہ محمد شاہ ہے،اور اس جنرل سیکرٹری صاحب کی داستان امیر حمزہ یہ ہے کہ موصوف نے نوازشریف کی دوران جلاوطنی میں موقع پرستی کی سیاست کرتے ہوئے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی پھر اس کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی کو چھوڑ کرفکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کرلی پھر ایسا ہوا کہ ان کا فنکشنل لیگ سے بھی دل بھرگیا تو انہوں نے ایک صوبائی اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی مگر میاں صاحب کی جلاوطنی ختم ہوتے ہیں انہوں نے تمام سیاسی سیروتفریحی کو ختم کیا اور پھر سے مسلم لیگ میں جا پہنچے اور آج انہیں ان ہی خدمات کے صلے میں سندھی ہونے کے باوجود سندھ کا جنرل سیکرٹری بنادیا گیا ہے۔
جبکہ اس عمل سے سندھ میں اردو بولنے والوں کے دلوں پر کیا گزری یہ کسی نے نہ دیکھا۔ہم ایک مثال سندھ میں صدر اور جنرل سیکرٹری کی دیتے ہیں 85سے قبل سندھ میں صدر زوالفقار علی جاموٹ ،اور جنرل سیکرٹری نواب محمد یامین ،1985میں سید غوث علی شاہ صدر ،الحاج شمیم الدین جنرل سیکرٹری، پھر غوث علی شاہ صدر اور جنرل سیکرٹری کیپٹن حلیم صدیقی ۔کیپٹن حلیم صدیقی کے بعد نواز لیگ کی حکومت ختم ہوگئی مگر سلسلہ یونہی چلتا رہاہے کہ صدر سندھی اور جنرل سیکرٹری اردو بولنے والا رہا مگر اب جبکہ نوازشریف کی جانب سے اس قسم کے فیصلے کیئے گئے یا ان سے کروائے گئے ہیں کہ سندھ بھر میں نہ صرف اردو بولنے والوں سے ان کے لیے جنرل سیکرٹری کا عہدہ چھین لیا گیا ہے بلکہ گورنر کا عہدہ بھی ان کی دسترس سے کوسوں دور کردیا گیا ہے کیونکہ موجودہ گورنر سندھ کووفاق کی جانب سے پنجاب سے لاکر ان پر بٹھایا گیاہے،گورنر سندھ کی کہانی چھیڑنے سے پہلے میں اپنے پڑھنے والوں کو اوردو بولنے والو ں کی اہمیت بتاتا چلو ں،1993میں جب ایم کیو ایم الیکشن سے باہر ہوئی تو جو لوگ قومی اسمبلی میں کراچی اور حیدرآباد سے سب سے زیادہ منتخب ہوئے وہ سب اردو بولنے والے تھے۔
جبکہ پیپلزپارٹی کی دوسیٹیں کورنگی ٹائون اور اورنگی ٹائون سے ملی ،اورنگی ٹائون سے آفاق شاہداور کورنگی سے ایم ڈی خان منتخب ہوئے ،ایک سیٹ جماعت اسلامی کے مظفر ہاشمی جو ناظم آباد سے جیتے اور اس طرح سات سیٹیںمسلم لیگ ن کے حصے میں آئی ،یعنی اس سے یہ ثبوت ملا کہ جب ایم کیو ایم نہیں ہوتی تب بھی لوگ اردو بولنے والوں کو ہی منتخب کرتے ہیں۔ نوازشریف نے 2013کے انتخابات میں سندھ میں عدم توجیحی اور اردو بولنے والے کارکنوں کو نظر اندازکرکے تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کی ہے ایک تو ان کو صوبے کے جنرل سیکرٹری کی قیادت سے محروم کرنا اور دوسراموجودہ گورنر کا فیصلہ تھا، جس نے سندھ میں مسلم لیگ کے کارکنوں کو سخت حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔ جس طرح بیان کیا گیا ہے کہ سندھ میں صدر سندھی اور جنرل سیکرٹری کا عہدہ اردو بولنے والے کا ہوتا ہے اسی طرح جو گورنر سندھ کا اہم عہدہ ہے وہ بھی اردو بولنے والے کے لیے ہی مختص کیا گیا ہے ۔جس کی مثال یہ ہے کہ سندھ میں گورنر کے لیے بیگم رعنا لیاقت علی خان جو اردو اسپیکنگ تھی سندھ کی پہلی گورنر بنی ۔ اشرف ڈبلیو تابانی اردو بولنے والا گورنر سندھ، دلاور خانجی نواب آف جونا گڑھ ،فخروالدین جی ابراہیم ،محمود ہارون ،حکیم محمد سعید،کمال الدین اظفر،معین الدین حیدر،ممنون حسین ،عشرت العباد سمیت جتنے بھی لوگ جمہوری ادوار میں منتخب ہوتے رہے وہ سب کے سب اردو بولنے والے ہی تھے۔
جبکہ غیر جمہوری ادوار میں دوسری زبانوں کے لوگ بھی منتخب ہوئے مگر جمہوری دور میں یہ ہی طریقہ اپنا یا جاتارہاہے ،علاوہ ازیں اگر زوالفقار علی بھٹو نے ممتاز بھٹو جو کہ سندھی تھے ان کو یکم جولائی 1971کو گورنر بناتو تو دیا تھامگراس نے اپنی نفرت انگیز گفتگو اور طرز عمل سے کچھ ہی عرصہ میں سندھی ،مہاجروں،پٹھان اورپنجابیوں کو آپس میں لڑوادیا یعنی سندھیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر کھڑا کردیا اور پٹھان ،مہاجر پنجابیوں کو دوسرے پلیٹ فارم پر لاکر کھڑا کردیاجس سے وہ ہنگامہ خیزی اور ہلاکتیں ہوئی جس کا داغ آج تک نہیں دھل سکا ،ممتاز بھٹو کو گورنر سندھ لگانے کے غلط فیصلے کا احساس ذالفقار علی بھٹو کو جلد ہی ہوگیا تھا تب انہوںنے 20اپریل 1972کو ہی انہیں گورنری کی عہدے سے فارغ کردیا ۔میرا اس واقعہ کو لکھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اور نہ ہی کسی سندھی بھائی کی دل آزاری کرنا ہے کہ گورنر کے عہدے پر اگر کوئی اور زبان کا آدمی بیٹھے گا تو وہ صوبے میں لسانی جھگڑو ں کی بنیاد رکھے گا،بلکہ ایک تاریخ کا حوالہ دینا تھا کہ اس منصب کو اردو بولنے والوں کے لیے مختص کیا گیاہے۔میاں نوازشریف کی جانب سے جو سیاسی غلطیاں کی گئی ہیں اس کا اندازہ انہیں اگر ابھی نہیں ہوا ہے تو 2018کے انتخابات میں انہیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے سندھ میں اردو بولنے والے کارکنوں کو نظر انداز کرکے پارٹی کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔