تحریر: اقبال زرقاش انسانی زندگی پر توارث اور ماحول دونوں اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچہ ماں باپ کے ہاتھوں میں حیوان ہوتا ہے،استاد اس حیوان کو انسان بنا تا ہے اور اللہ والوں کی صحبت اس انسان کو باخدا انسان بنا دیتی ہے۔ انسان پہچانا ہی اپنے اوصاف سے جاتا ہے ورنہ ایک حیوان میں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔محض جسم کی زیب و زینت اور لباس کی تراش خراش سے انسان عظیم نہیں بنتا بلکہ سیرت و کردار کی عظمت اْسے انسانیت کی بلندیوں تک لے جاتی ہے۔
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط خوشبو اْڑی تو پھول فقظ رنگ رہ گیا
اللہ والوں کی صحبت سے انسانوں کا کردار سنورتا، سیرت نکھرتی اور عادات میں حسن آتا ہے۔ جس طرح لالے کا ایک پودا کسی نہر کے کنارے پر ہو تو وہ نہر کے پانی سے ہر لمحہ سر بلند و سرمست رہتا ہے۔ اسی طرح بزرگان دین کی صحبت سے دل کی ظلمتوں کو نور عطا ہوتا ہے۔ روح کی تشنگی وصل محبوب سے سیراب ہوجاتی ہے حضوری کے کیف سے طلب مٹ جاتی ہے اور نور و حضور مل کر نگاہوں کو ایسا سرور عطا کرتے ہیں جسے لفظوں کا کوئی سا ذخیرہ اور اظہار کا کوئی سا انداز بھی بیان نہیں کر سکتا۔ گویا زندگی کو نیکیوں کی تابندگی، دلوں کا اطمینان اور نگاہوں کی ٹھنڈک، نیک لوگوں کی پاکیزہ صحبت سے ملتی ہے۔ ورنہ زہر، امرت میں مل جائے تو وہ اسے بھی زہر بنا دیتا ہے۔ سانپ کے منہ میں جانے والا پانی کا قطرہ زہریلا ہو جاتا ہے اور وہی پانی کا قطرہ صدف میں داخل ہو جائے تو موتی ہو جاتا ہے۔
آج کے دور میں اللہ والوں کو ڈھونڈنے کے لیے بھی ایک صدف درکار ہے اور اس کے ساتھ سچی طلب بھی اور یہ خیال بھی کہ بظاہر خوبصورت لگنے والی چیزیں دراصل حلاوت میں ملفو ف ایک ایسا زہر ہوتی ہیں جس کے اثرات فوری اور دیرپا ہوتے ہیں۔آگ کے قریب بیٹھنے والا حدت کو محسوس کرے گا اور عطار کی صحبت میں رہنے والا اپنے مشام جاں کو معطر پائے گا۔ گویا بْری صحبت سم قاتل ہے اور اللہ والوں کی صحبت ایک ایسی نعمت ہے جو گو ،مشکل سے ملتی ہے مگر اک بار مل جائے تو متاع حیات ہو کر ابدی سرور بن جاتی ہے۔ پاک و ہند میں اسلام انہی بزرگ ہستیوں کی وجہ سے چار سو پھیلا اور برصغیر کو نور کی روشنی سے منور کر گیا۔
تاجدار گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ جیسی جلیل القدر ہستی نے خطہ پوٹھوہار کو روحانی برکات و فیوض سے فیض یاب کر دیا۔ آپ کی ذات با برکات فطرت کی روحانی ، فیاضی اور باطنی عنایات کا ایک مکمل نمونہ تھی۔ آپ کے حضور لوگ آتے اور فیوض و برکات سے اپنے دامن بھرکر لے جاتے۔ آپ کا سکہ دلوں پر چلتا تھا۔ شریعت محمدی کی تلقین آپ کی تبلیغ تھی۔ آپ کا مزاراقدس آج بھی مرجع خاص و عام ہے۔
بقول ڈاکٹر محمد اقبال “یہ بھی ممکن ہے تو موت سے بھی نہ مرسکے”۔ بزرگان دین کے پاس حاضری اور ان کے مزاروں پر سلام ودْعا سے اطمینان قلب اورسکون کی دولت ملتی ہے۔ا فسردہ پیشانیاں ستاروں کی طرح دمک اْٹھتی ہیں۔ پریشان دل شگفتہ ہو جاتے ہیں۔ جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی الہیٰ کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
آج نئے مکتبہ فکر کے مفکرین بزرگان دین کے خلاف جو پروپیگنڈہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، اس کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ بات نمایاں نظر آتی ہے ، یا تو یہ لوگ اولیاء کرام کی بزرگی کے منکر ہیں یا پھر انہیں ایک راہنما کی حیثیت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ بزرگان دین کی تعلیمات و فرمودات کے تو قائل ہیں لیکن ان کی ریاضت و مجاہدہ اور کشف و کرامات کو من گھڑت افسانے قراردیتے ہیں اور عشق کے مقابلے میں اپنی عقل کو کسوٹی بنائے ہوئے ہیں۔ آج ہمارے معاشر ے کا یہ المیہ ہے کہ ہم نے بزرگان دین سے دوری اختیار کرکے مادہ پرستی کے اس دور میں مال و زر کو ہی ترقی کا پیمانہ بنا لیا ہے۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ہر سو کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔
ہر شخص راتوں رات ارب پتی بننے کے چکر میں ہر جائز و ناجائز ذرائع کو استعمال کرنے کے لیے سرکردہ ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے امیر و غریب کے درمیان ایک لکیر کھینچ رکھی ہے جو کسی بھی بڑے فساد کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سب بگاڑ عہد نو کی تہذیب کے فلاسفروں کے عقل کی کسوٹی ہے۔ جنہوں نے آج دنیا کو بے سکونی کی طرف دھکیل رکھاہے۔رسول اکرم ۖ نے فرمایا کہ “دنیا مردار ہے اور دنیا کی طلب کرنے والا کتا ہے”۔ اور سید عبدالقادر جیلانی رح سے کسی نے پوچھا کہ دنیا کیا ہے تو آپ نے فرمایا “ہر وہ شے دنیا ہے جو انسان کو خدا سے غافل کر دے”۔
آج ہمیں اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنے کی ضرورت ہے جو ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ مجلس، ماحول اور صحبت کے اثرات لاشعوری طورپر قلب و نظر کا حصہ بن جاتے ہین۔ انسان لاکھ بچنے کی کوشش کرے، ماحول کی اثر آفریینوں سے وہ بچ نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نیک ماں باپ کی اولاد بھی بگڑ کر معاشرے کے لیے وجہ شرم بن جاتی ہے گویا انسان بنیادی طور پر اپنے ماحول کی پیداوار ہے اور گردو پیش کے اندھیرے خلقی صلاحیتوں کے نور کو دھندلا دیتے ہیں۔ یہ بات تاریخی صداقتوں میں سے ہے کہ کسی نیک بزرگ ہستی کے فیض صحبت سے ڈاکو اور گمراہ لوگ بھی عرفان خداوندی کے بلند مقام تک پہنچ گئے۔