تحریر : ملک محمد سلمان وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے ایک مقامی فور سٹار ہوٹل میں Freedom Gate اور”Friedrich Naumann Foundation”کے تحت ”Developing New Leadership in Young Leaders”کے موضوع پر دوروزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔جس میں پاکستان بھر سے منتخب افراد نے شرکت کی۔ Friedrich Naumann Foundation کے ہیڈ آف ایڈمنسٹریشن محمد انور نے شرکاء سے گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ ہم سب کو مذہبی،لسانی اور علاقائی تعصبات سے بالا تر ہو کر پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ایسی نوجوان لیڈرشپ تیار کرنا ہے جس میں قیادت کے بہترین اوصاف موجود ہوں ۔جن کے نذدیک ذاتی مفاد سے زیادہ ملکی سالمیت اور انسانیت کی خیر خواہی مقدم ہو۔انہوں نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ آپ کو تقسیم کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں کے فرسودہ خیالات کو دفن کرنا ہوگا۔جنہوں نے اپنے مفاد کی خاطر قوم کو مذہب، زبان اور علاقائی تعصبات میں مبتلا کرکے نفرت کے بیج بوئے ہیں۔آئین پاکستان کی رو سے تمام مذاہب،اقوام ،علاقوں اور زبانوں کے افراد کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔
معروف ٹرینر اور پروگرام کی ماڈریٹرگلمینہ بلال نے کہا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو متحرک کرتا ہے، جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کی جماعت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں، اور جو کہ مختلف النوع افراد کی ایک ٹیم کو ایک مشترکہ مقصد کے لئے کام کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے۔فیصلہ کرنے کی اہلیت، خصوصاً انتہائی دبائو کے عالم میں فیصلہ کرنا ایک لیڈر کا نہایت قابل قدر وصف ہوتا ہے۔ لیڈر اس لئے منتخب کئے جاتے ہیں تاکہ وہ ایک ٹیم، ایک تنظیم یا ایک جماعت کی قیادت کریں۔ صورتِ حال ہمیشہ مثالی نہیں ہوتی، مگر لیڈر کی حیثیت سے آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ صورتِ حال کو بہتر سے بہتر انداز میں تبدیل کر سکیں۔۔لیڈر کی سوچ وسیع ہونی چاہئے تاکہ وہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اہداف کا تعین کر سکے اور اس کی بدولت اس کی ٹیم درست سمت پر اور قابل اطمینان رفتار پر نمو پائے۔ لیڈرشپ مینجمنٹ کا ایک حصہ ہے جس میں یہ طے پاتا ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں سے ابلاغ کیسے کرتے ہیں۔ بعض لوگ آپ کو یہ یقین دلانا چاہیں گے کہ اچھے لیڈر پیدائشی طور پر ہی ایسے ہوتے ہیں اور اگر شروع سے ہی آپ میں قائدانہ اوصاف موجود نہیں تھے تو آئندہ بھی کبھی ان کے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ تاہم، بہت سے اچھے لیڈر آپ کو بتائیں گے کہ سکول کے زمانے میں ان کی کارکردگی اچھی نہ تھی، اور بعض اوقات تو وہ کالج میں بھی نکمے تصور کئے جاتے رہے۔ عموماً زندگی کا کوئی خاص واقعہ یا زندگی میں آنے والا کوئی خاص فرد ان کی شخصیت کو بدل دینے کا موجب بنا اور ہجوم سے الگ ہو کر لیڈر بن گئے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لیڈر صرف پیدا ہی نہیں ہوتے بلکہ بنائے بھی جاتے ہیں۔وقت کی اہم ضرورت نوجوانوں میں لیڈرشپ سکلز پیدا کرنا ہے ،نوجوانوں کے اندر مایوسی ختم کر کے مثبت سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، لیڈر شپ ایک مشن کا نام ہے۔جس انسان کا زندگی میں کوئی مثبت مشن نہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
گلمینہ بلال نے تعارفی سیشن میں ایک ایکسرسائز کے زریعے سمجھایا کہ آپکا تعارف صرف آپکا نام علاقہ اور کام نہیں ہوتا۔آپکے تعارف کا لازم جز و یہ ہے کہ آپ خود کیا ہیں؟کیا سوچتے ہیں اور کیا کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں۔آپ کی پسند ناپسند اور کچھ کر گزرنے کی خواہش بھی آپکے تعارف اور شخصیت کا اہم خاصہ ہوتی ہے۔پاکستان بھر سے آئے ہوئے مختلف صوبوں اور اضلاع کے لوگوں کو باہم گروپوں میں تقسیم کرکے ایک عملی مشق کرنے کو دی گئی کہ آپ اپنے علاقے کا مختصر تعارف پیش کریں ۔ آپ کے ضلع کے وسائل ، ایکسپورٹ اور اہم جگہوں کا تذکرہ۔علاقے میں درپیش مسائل کا احاطہ کریں اور اس کے حل کیلئے عملی اقدامات میں بطور شہری آپ کیا کرسکتے ہیں۔اس مشق سے پاکستان بھرسے آئے ہوئے مختلف علاقوں اور تہذیبوں سے آشنائی ہوئی وہیں ماڈریٹر گلمینہ سب سے اہم نکتہ سمجھانے میں کامیاب رہیں کہ آپ کو اپنے علاقے کے وسائل کا بہترین استعمال کرنا چاہئے اور مسائل سے اگاہی کے ساتھ ساتھ ان کے حل کیلئے گورنمنٹ کا انتظا ر کرنے کی بجائے خود عملی اقدامات کریں۔مسائل کے حل کیلئے متعلقہ محکموں کو مسائل سے اگاہ کرتے رہیں اور اگر ممکن ہوسکے تو امداد باہمی کے تحت خود بھی ملک کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ضرور اد کریں۔
معاون ماڈریٹر محمد انور نے بتایا کہ فائونڈیشن کا مقصد افراد کو روزمرہ زندگی میں درپیش مسائل سے نمٹنے اور بہتر معاشرے کی تشکیل کیلئے کارآمد شہری بنانا ہے۔ایک بہترین معاشرے کے خواب کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے جب لوگوں کو اپنے حقوق و فرائض سے آگاہی ہو،حق لیتے ہوئے ہم ”ساڈا حق ایتھے رکھ”کے مصداق چھیننے کے عادی ہوتے جارہے ہیں مگر اپنے فرائض کو یکسر بھلا بیٹھے ہیں۔بطور ذمہ دار شہری ہم پر ریاست کے حقوق بھی ہیں جن کو ہمیں ادا کرنا چاہئے۔جب افراد میں تعلیمی شعور بیدار ہو گا پھر روشن پاکستان کی منزل دور نہیں۔ کانفرنس کے دوسرے روز سنیٹر محسن لغاری نے ڈیبیٹ سیشن میں شرکت کی۔دلائل سے بھرپور ڈیبیٹ سیشن کے کے آخر پر محسن لغاری نے شرکاء سیشن کی ذہانت کو بھرپور داد دیتے ہوئے کہا کہ میرے لیے اس پروگرام میں شرکت یقینی طور پر اعزاز کا باعث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان ہر وقت سیکھنے کے مرحلے میں ہوتا ہے اور وہ برملہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے اس سیشن سے بہت کچھ سیکھا۔
پروگرام کے آخری روز بین الاقوامی تنظیم کی کنٹری ہیڈ ڈاکٹر الموٹ بیزولڈ نے شرکاء کانفرنش میں تعریفی سرٹیفیکیٹ تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نوجوان نسل انتہائی باصلاحیت ہے۔ہمیں اس نوجوان نسل سے بہت امیدیں وابستہ ہیں اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں فرسودہ سیاسی سسٹم کی جگہ با صلاحیت اور پرامن نوجوان بہتر انتظامی اور سیاسی اصلاحات لیکر آئیں گے جس سے پاکستانی معاشرے سے مذہبی تنائو اور استحصال کا خاتمہ ہوگا اور سب کو برابری کی بنا پر تمام بنیادی حقوق حاصل ہوں گے۔پاکستان سمیت پوری دنیا کا مستقبل نوجوانوں سے ہی وابستہ ہے۔