تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری اب یہ بات اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں ممبر اسمبلی بننے کے لیے آئین میں موجود ختم نبوت کے حلف و دیگر قادیانیوں کے حق میں کی گئی تبدیلیاں حکومتی اعلیٰ ترین عہدیداروں کی اشیر باد کے بغیر ممکن ہی نہ تھیں راجہ ظفر الحق رپورٹ بھی چھ ہفتے گزرنے کے بعد منظر عام پر نہیں آسکی تاکہ اس میں مخصوص پردہ نشینوں اور ان کے سرپرستوں کے نام سامنے نہ آسکیں مگر جن کو باشعور،باعلم اور معاشرہ کی کریم سمجھ کر پاکستانیوں نے منتخب کرکے قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھیجا تھا ان میں سے سینٹ کے واحد ممبر حافظ حمد اللہ اور قومی اسمبلی میں سے بھی صرف صاحبزادہ طارق اللہ کے علاوہ سبھی عقیدتاً “پکے مسلمانوں” کی نگاہ میں مرزائیوں کے حق میں کی گئی تبدیلیاں کوئی جرم ہی نہ تھا یا پھر انہوں نے اس بل کا قطعی مطالعہ ہی نہ کیایا روایتی لاپرواہی برتی اس طرح بالخصوص حکومتی بنچوں اور نام نہاد اپوزیشنی ارکان کی عقل اس وقت کیا گھاس چرنے گئی ہوئی تھی؟کچھ بھی ہودونوں ہائوسز کے وہ سبھی کھلی اور جاگتی آنکھوں والے ممبران اس گناہ عظیم سے کیسے بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟کہ ان سبھی نے غیر مسلم قرار دیے گئے مرزائیوں کے بارے میںایسی ترامیم پرآمنا صدقناکہا جن میں ان پرغیر مسلم اقلیت والا ٹھپہ بالکل ختم ہورہا تھا پھر 7C اور 8Cوالی ترامیم کی بھی منظوری دے ڈالی جن کی بنا پر مرزائیوں کا ووٹ اندراج مسلم ووٹوں کے ساتھ ہوسکتا تھااور اسطرح مرزائی امریکی یہودی ،صیہونی سامراج کی غیر اسلامی اور پلید خواہشات کے مطابق ممبر اسمبلی بن کر اعلیٰ ترین عہدوں پر بھی قابض ہوسکتے تھے کوئی ان پڑھ ایسا جرم کرے تو اسے معافی نہیں دی جاسکتی تو پھر پنڈی اسلام آباد کے سنگم پر زاہد حامد کا استعفیٰ اور اب سیال شریف کے پیر و دیگر مشائخ عظام کی طرف سے فیصل آباد میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس اور بعد ازاں گجرانوالہ ،گجرات اور لاہور کی کانفرنسیں صرف رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ کا مطالبہ تحفظ ختم نبوت کی تحریک کا اختتام کیسے ہوسکتا ہے؟
اسلامی تاریخ میں محمد مصطفیۖ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے سبھی مرتدین کا خاتمہ کیا گیا جس میں1100 حفاظ کرام اور دیگر مسلمان شہید ہو ئے۔اب علماء کرام کی طرف سے صرف وزیروں کے استعفے چہ معنی دارد ؟ مرتد اسے کہتے ہیں کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا پھرے اور دین کی بنیادوں سے ہٹ جائے یہاں بیعنہہ وہی صورت حال ہے کہ رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان میں واضح طور پر غیر مسلم مرزائی مرتدین کے مسلمان ہونے کی وکالت کی ہے اور ان کے خیالات کئی چینلز پراور اینکروں نے نشر کیے ہیں اس لیے علماء مشائخ کرام و پیران عظام اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک ختم نبوت کی متعلقہ تمام شقوں میں تبدیلیاں کرنے اور انھیں منظور کرنے والے ممبران پر دفعہ295C کے تحت مقدمات کا اندراج ہوکریہ سبھی کیفر کردار تک نہیں پہنچ جاتے مرزائیوں کی کتب و رسائل میں جس طرح انہوں نے خدا تعالیٰ ،اس کے سبھی پیغمبروں ،نبیوں اور تاجدار ختم نبوت محمد ۖ،حضرت علی المرتضیٰ ،حضرت امام حسین،حضرت بی بی فاطمةالزہراہ سبھی مسلمانوں ان کی بیویوں اولادوںاور قران مجید کے خلاف غلیظ ترین توہین آمیز کلمات درج کیے ہیں جو کہ راقم کے مرتب کردہ پمفلٹ ” آئینہ مرزائیت”سے دیکھے جاسکتے ہیں(واضح ہو کہ جب 26مئی1974کو نشتر کالج ملتان کے طلباء کوربوہ حا ل چناب نگر کے اسٹیشن پر مرزائیوںنے اپنا غلیظ لٹریچر تقسیم کیا تو طلباء نے انہیںاسی مذکورہ پمفلٹ سے ان کی اپنی کتب رسائل کے مطبوعہ اقتباسات پڑھ کر سنائے تھے جس پر جھگڑا ہوا طلباء نے ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔
گاڑی چل پڑی اور جب 29مئی1974کو178طلباء سوات کی سیر سے واپس آئے تو مرزائیوں کے سینکڑوںمسلح نوجوانوں نے اسی ریلوے اسٹیشن پر انھیں شدید زخمی کر ڈالا۔ملک گیر تحفظ ختم نبوت کی تحریک شروع ہونے پرلاہور ہائیکورٹ کے دو ججوں پر مشتمل کمیشن جس کی سربراہی جسٹس غلام صمدانی کر رہے تھے بنایا گیا جسے تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ آئینہ مرزائیت نامی پمفلٹ ربوہ اسٹیشن پر جھگڑے کی بنیاد بناتو انہوں نے اس کا سخت نوٹس لیا اور نشتر کالج سٹوڈنٹ یونین اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے وکلاء کے کہنے پر قادیونیوں کے ان سبھی رسائل اور کتب کے ساتھ پمفلٹ کی تحریروں کا موازنہ کیا گیاتو سبھی اقتباسات ہو بہو وہی تھے جن کا ذکر پمفلٹ میں کیا گیا تھا۔
انکوائری کمیشن نے رپورٹ میں لکھا کہ یہ پمفلٹ اشتعال انگیز نہیں بلکہ قادیانیوں کی کتب و رسائل سے درج کیے گئے اقتباسات شدید قابل مذمت ہیں جو کہ ہو بہو مرازئیوں کی تحریروں سے درج کیے گئے تھے پمفلٹ جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر پوری دنیا ئے اسلام میں اسے مرزائیوں کے خلاف بطور ریفرنس پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں درج اقتباسات ان کی کتب سے ججوں نے چیک کر لیے ہیں آئینہ مرزائیت آج بھی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان سے حاصل کیا جاسکتا ہے ) دریں حالات رانا ثناء اللہ یا دیگر وزراء کے استعفے قطعاً کوئی معنی نہیں رکھتے جب تک علماء مشائخ پیران عظام تمام دینی جماعتیں مذہبی گروہ مل کرغداران ختم نبوت پر295Cکے تحت مقدمات کا اندراج نہیں کرواڈالتے تاکہ آئندہ کوئی کسی بھی صورت اشاروں کنائیوں میں بھی مرزائیوں کی وکالت کرنے حتیٰ کہ انہیں مسلمان ثابت کرنے کی جرآت غلیظہ نہ کرسکے ختم نبوت پوری دنیا کے مسلمانوں کے دین و ایمان کی بنیاد ہے جس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا جس نے ایسا کرنے کی کوشش کی خواہ وہ حکمران طبقات ہی کیوں نہ ہوں وہ دنیا و آخرت میں رو سیاہ ہو کر رہے گا اور قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان قرار دلوانے والے بھی اس جہان ہی میں نہیں بلکہ روز محشر بھی رسوا ہو کر رہیں گے باشعور ،باعلم ،باعمل علماء چونکہ مسئلہ ختم نبوت کے بارے میں عام مسلمانوں سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اس لیے اس مسئلہ پر خصوصی توجہ فرمائیں اور مسلمانوں کی صفوں میں گھس بیٹھئے ان غیر مسلم مرزائیوں اور ان کی طرف سے بار بار آئینی ترامیم کو چھیڑنے کا مکمل سد باب کریں ذمہ داران کو قرار واقعی سزا ملنے اور ان کا مکمل قلع قمع ہونے تک جدوجہد جاری رکھیں ان کی اور ان کے حواریوں کی طرف سے ایسی حرکات پر اسلامی ریاست کو مرتد کی شرعی سزا نافذ کرنی چاہیے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہ ہے پھر دیکھیں پاکستان پر کس طرح خدائی عنایات کی بارش ہوتی ہے۔