تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے صفحات پہ ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اسی کی دہائی میں ایسے سیاسی واقعات رونما ہوتے دکھائی دیتے ہیں جہاں پہ ایک ” سیاسی لاڈلا” اپنی پوری توانائی ، جوش و جذبہ اور نہایت ”چمک” کے ساتھ چمکتا دمکتا نظر آئے گا ماضی کے اس سیاسی لاڈلے کے ساتھ جو ” لاڈلیاں ” کی جاتی رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیںماضی کے جھروکوں میں جھانکیں توایسے سیاسی واقعات کی بہتات نظر آئے گی جس میں ” سیاسی لاڈلے” کے ساتھ ”ہتھ ہولا”رکھا ہوا دکھائی دے گا سیاست کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والے ورکر بخوبی جانتے ہیں کہ اسی کی دھائی میں کس ” لاڈلے” نے اپنی سیاسی اننگز کا آغازکس کے زیرسایہ کیا اور پھر اس کے آگے سبھی محکوم ہوتے گئے پیچھے مڑ کا دیکھنا اس کی سیاسی ڈکشنری میں تھا ہی نہیں یہی وجہ تھی کہ بڑے کمال ہوشیاری سے سیاسی اننگز پہ چوکوں اور چھکوں کے ساتھ کلین سویپ کرتے گئے قدرت مہربان تھی اچھا وقت دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا ” سیاسی لاڈلے” کے راستے میں جو بھی آیا اور اس لاڈلے سے ٹکرانے کے بعد اپنی موت آپ مر گیا اگر کبھی برا وقت آیا بھی تو”مہربانوں کی مہربانیاں” رنگ لاتی رہیں اس ”لاڈلے” کیساتھ ہمیشہ اچھا برتائو ہوتا رہا اگر اقتدار کے ایوانوں سے اس ”لاڈلے” کو نکالا گیا تو عدلیہ نے انہیں پھر سے شہر اقتدار میں براجمان کردیا اس ”لاڈلے” کے مدمقابل سیاسی مخالفین بالخصوس پی پی پی والوں کو ہمیشہ سے گلا رہا ہے کہ ہمیں عوام اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتی ہے لیکن ”لاڈلوں ” کی سازشیں بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات لگا کر اقتدار کی راہ داریوں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اور پھر انہی الزامات کو بنیاد بنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
میڈیا وار پہ ایسی کردارکشی کی جاتی ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے عدالتوں میں ریلف کے لئے رجوع کرنے پہ جو سلوک ہوتا رہا یہ سبھی کو معلوم ہے اگر ”سیاسی لاڈلے” کے مہربان کسی بات سے ناراض ہوکر اور سیاسی مخالفین کی باتوں میں آکر ”لاڈلے”کی حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات لگا کر برطرف کر دی جائے تو پھر انصاف عدل سے ”شریف حکومت”بحال ہوتی رہی ہے،اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے ”لاڈلے” کے ”لاڈلوں”کو بھاری رقوم کے ”نذرانے”دے کر نوازنے کے قصے زیادہ پرانے نہیں ہیں اسی کی دھائی میں دو سیاسی قوتیں آنے سامنے ہوا کرتی تھیں ایک دوسرے پہ خوب کیچڑ اچھالا جاتا تھا ”لاڈلے” کے پیچھے”مہربان” اپنا کام دکھاتے تھے یوں ”بی بی ”کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔
کہتے ہیں جسے عروج ہو اسے زوال بھی تو آیا کرتا ہے سورج طلوع ہی ڈوبنے کے لئے ہوتا ہے کئی سالوں پہ محیط ”لاڈلے”کا اقتدارکا سورج تب ڈوبنے لگا جب سیاست کے میدان میں ایک ”کھلاڑی”اپنی پرفارمنس دکھانے کے لئے اترا شروع شروع میں تو ”کھلاڑی” کو بڑا ”ایزی فیل” لیا گیا لیکن کھلاڑی ہمت،لگن اور ایک جذبے کے ساتھ ”لاڈلے”کے پیچھے ”ہتھ دھوکر”پڑا رہا ”پانامہ” نے ایک ”ہنگامہ”برپا کردیا جو شکوہ”بی بی”کو ہوا کرتا ہے کہ ”لاڈلے” کے ساتھ ہمیشہ سے ”لاڈلیاں”کی جاتی رہی ہیں ”کھلاڑی” نے ساری کی ساری ”لاڈیاں ”نکال کر رکھ دی ہیں ”پانامہ”سے ”اقامہ”اور پھر ”ہنگامہ”یوں برپا ہوا کہ پاکستانی سیاست میںایک تلاطم پیدا ہو گیا ”کھلاڑی” کے چھکوں سے ”لاڈلا”کلین بورڈ ہوگیا کیونکہ ”لاڈلے”کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوں حالات بدل جائیں گے ،ایسے رسوائی مقدر بنے گی اچھے دور سے برے دور تک پہنچتے پہنچتے ایک طویل وقت اور لمبا سیاسی سفر طے ہوا ،برے دنوں میں اچھا وقت جب یاد آتا ہے تک زخموں میں درد اور بھی بڑھ جاتا ہے جب زخموں کو ”دوا سے شفا”نہ ملے توپھر یہی زخم ناسور بن جایا کرتے ہیں۔
برے حالات میں بیماری بڑھتی گئی جوں جوں دعا کی ،بدحواسی اور پریشانی کے عالم میں انہیں عدالتوں پہ خوب برسا جا رہا ہے جہاں سے ہمیشہ ”لاڈے” کو ”ٹھنڈی ہوا ” ہی آتی رہی ہے ”لاڈلا” جی کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جب وہ عدالتوں پہ چڑھائی نہ کریں چڑھائی سے یاد آیا کہ کبھی ایک وقت وہ بھی تھا جب انہی عدالتوں پہ”لاڈلے کے حامیوں” نے حملہ کردیا تھا اقتدار کا نشہ ہرن ہو چکا اب بدحواسی نے آگھیرا،حالات بدل گئے،ترجیحات بدل گئیں بدلتے ہوئے نئے منظر میں ”لاڈلا” خود کو تنہا سمجھ رہا ہے ”لاڈیاں” ختم ہو چکی ہیں قسمت کی مہربان دیوی روٹھ چکی ہے اور اب قسمت کسی اور پہ مہربان ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز شوشل میڈیا میڈیا کنونشن سے سے جوش خطاب میں ”کھلاڑی” کو ”لاڈلا ” بنا ڈالا کہتے ہیں ”عمران خان کہتے ہیں کہ یہ میرے اثاثے ہیںوہ کہتا رہا کمپنی میری ہے لیکن عدالت اس کی وکیل بن گئی اور ججز نے کہا ” پتر” آپ نہیں سمجھتے یہ آپ کے اثاثے نہیں ،آپ تو اس کے ڈائریکٹر تک نہیں ہوآپ صادق اور امین ہیں، شکر ہے آگے یہ نہیں کہہ دیا کہ عمران خان یہ آپ کے نہیں نواز شریف کے اثاثے ہیںمیری نااہلی کا مسئلہ نہیں بلکہ آئین اور قانون کی بے حرمتی اور عوام کے ووٹ کے تقدس کا ہے، میری اہلیت اور نااہلیت کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے اور عوام وہ فیصلہ کریں گے جو انصاف اور میرٹ پر مبنی ہوگا۔” عدالتی فیصلے کو شاعری کی زبان میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ
ہے نئی روش کی عدالتیں، ہے نئے ڈھنگ کے یہ فیصلے نہ نظیر ہے، نہ دلیل ہے، نہ وکیل ہے اور نہ اپیل ہے۔
نظیر،دلیل،وکیل اوراپیل سبھی کچھ ہے لیکن اگر کچھ نہیں رہا تو صرف ایسی باتیں کرنے والوں کے لئے اب اچھا وقت نہیں رہااور برے وقت میں انسان درست اور بروقت فیصلہ کرنے کا اہل نہیں رہتا اور یہی سب کچھ ”سیاسی لاڈلا” کر رہا ہے جو کسی بھی طرح وطن عزیز ،جمہوریت اور خود ان کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔