تحریر : نسیم الحق زاہدی بابری مسجد گزشتہ 25 برسوں سے انصاف کی منتظر ہے۔ اس کے مجرم کھلم کھلا بھارتی سیکولرازم کا تمسخر اڑا رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کے لئے بابری مسجد پر تالہ لگا دیا گیا ہے لیکن ہندوئوں کیلئے وہاں عارضی مندر بنا دیا گیا ہے تا کہ ان کی پوجا پاٹ جاری ہے۔ یہ انصاف کا دوہرا معیار نہیں ہے تو کیا ہے؟ آج صورتحال یہ ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر میں روزانہ پوجا، پراتھنا ہوتی ہے لیکن جس کے دروازے عدالتی حکم کے تحت مسلمانوں پر بند ہیں اور جہاں رام لیلا کی مورتی رکھی ہوئی ہے۔ وہ زعفرانی ٹولہ جس نے مسجد کی شہادت میں حصہ لیا تھا۔ آج بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں جبکہ لبرہن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تمام مجرموں، ایڈوانی، منوہر جوشی، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے کو بھی مجرم ثابت کردیا تھا۔ شیلائوں یعنی مندر کے لئے پتھر لانے کا کام جاری ہے۔ ”رام مندر” کے ماڈل کی جھانکیاں بھی جگہ جگہ نظر آتی ہیں اور یہ ماڈل فروخت ہوتے ہوئے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب مندر کا ڈھانچہ عارضی ہے تو اس کے ماڈل کیوں فروخت کئے جارہے ہیں۔
مندر کی تعمیر کے لئے پتھروں کو تراشنے کا کام بھی جاری ہے اور یہ کام شہید بابری مسجد سے محض ڈیڑھ کلو میٹر کی دوری پر ہورہا ہے۔ مندر کا پورا ڈھانچہ پلر یہاں پر بنائے جارہے ہیں۔ مندر کے تعمیری فنکاروں کی ٹیم اس پر کام کررہی ہے ادھر رام جنم بھومی کے ٹرسٹ کے مہنت کا واضح الفاظ میں کہنا ہے کہ ہمیں مودی حکومت سے یہ اشارہ ملا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کی مہم شروع کردی جائے اور اس کے لئے ہندوستان بھر سے پتھر جمع کرنے کا فیصلہ بھی رام مندر کی تعمیر سے جڑے تمام تنظیموں کے منعقدہ اجلاسوں میں کیا گیا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق ایک بار پھر رام مندر کے نام پر اکثریتی ہندو طبقے کو بھڑکایا جارہا ہے اور لوگوں کو بی جے پی کے قریب لایا جارہا ہے۔ چونکہ بی جے پی نے انتخابات میں رام مندر کی تعمیر کے نام پر ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس لئے اسمبلی انتخابات میں بھی رام مندر کی تعمیر کو اصل اور بنیادی ایشو بنایا جائے گا ۔ دہلی اور بہار اسمبلی انتخابات میں لگاتار شکستوں کے بعد سنگھ پریوار نے اب بی جے پی کو غالباً ترقی کا ایجنڈہ چھوڑ کر بنیاد پرستی کے روایتی ایجنڈے پر واپسی کا اشارہ دیدیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ گرمایا جارہا ہے۔
ویشواہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا نے رام مندر اور داعش کو جوڑ کر اس مسئلے کو خوب اچھالا ہے۔ فرقہ پرست لیڈر نے کہا کہ رام مندر بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پارلیمنٹ میں مندر بنانے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ بنگال اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو جتوانے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔ پروین توگڑیا کے بقول مندر کے لئے ہندو اور بابری مسجد کے لئے مسلمان دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افسوس بھارت میں سیکولر قوتیں خاموش ہیں انہوں نے سکوت اختیار کرتے ہوئے خود فرقہ پرستوں کی راہ ہموار کر دی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کیلئے ایودھیا میں پتھروں کی آمد پر واویلا نہیں مچایا گیا اور نہ ریاستی حکومتوں نے خوں ریزی کی اس کوشش کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ ریاستی سرکار مسلمانوں کے بارے میں کیا نظریہ رکھتی ہے یہ بابری مسجد کا ماڈل پیش کرنے والوں کے خلاف کی گئی کارروائی ظاہر کر رہی ہے۔
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے فرقہ پرست لیڈر اشوک سنگھل کی آخری رسومات کے موقع پر کہا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہی اشوک سنگھل کو خراج عقیدت پیش کرنا ہو گا۔ اس لئے ہمیں مندر کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ دوسری جانب بی جے پی کے مرکزی وزیر وینکنیا نائیڈو نے کہا کہ پورے بھارت کی خواہش ہے کہ رام مندر بنے۔ ان لیڈروں کے بیانات کے فوری بعد ہی راجستھان سے پتھروں کے ٹرک ایودھیا پہنچا دیئے گئے۔ ویشوا ہندو پریشد نے میڈیا کے سامنے پتھروں کی پوجا کا ڈرامہ کرتے ہوئے کہا کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پتھر لانے اور ان کی کٹائی کا کام رکا ہوا تھا۔ اب پیسوں کا انتظام ہو گیا ہے لہٰذا دوبارہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ مندر کے نام پر بیرون ملک سے کروڑوں روپوں کا چندہ جمع کرنے والے اشوک سنگھل کی زندگی میں اگر پیسے کم پڑ گئے تھے تو چندے کا پیسہ کہاں گیا اور ان کے مرنے کے بعد ہی اچانک روپوں کا بندوبست کہاں سے ہو گیا۔ کیا پیسوں کا انتظام مودی سرکار نے ازخود کر دیا؟آر ایس ایس متعدد بار اعلان کر چکی ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر میں پوری طاقت جھونک دے گی۔
ایک سوال پر بی جے پی پارلیمانی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ایودھیا میں پتھروں کا تراشنے کا کام 1990ء سے جاری ہے اور جس جگہ یہ کام ہو رہا ہے وہ متنازعہ جگہ ہے انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے کا احترام کیا جائے گا۔ البتہ پتھر تراشنے پر پابندی نہیں ہے۔
آر ایس ایس کے آل انڈیا تشہیر نائب جے نند کمار کا کہنا ہے کہ مندر کی تعمیر کیلئے وقت طے نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ مستقبل میں ضرور بنے گا۔
ویشوا ہندو پریشد اور دیگر فرقہ پرست تنظیموں کا ایک ہی مقصد ہے اور اگلے انتخابات میں مذہبی پولرائزیشن، اس لئے اس مسئلے کو زندہ رکھا جا رہا ہے ۔۔
رام جنم بھومی ٹرسٹ کے صدر نریتہ گوپال داس کے مطابق رام مندر کی تعمیر کیلئے تراشے گئے پتھروں کا شیلا پوجن ہو چکا ہے۔ شیلا پوجن کے بعد ان پتھروں کو ایک نئے مقام رامیسوری پورم میں رکھا جا رہا ہے اور یہیں سے انہیں تعمیراتی مقام پر بھیجا جائے گا۔ تراشے گئے پتھروں کی پوجا اس لئے بھی اہم ہے کہ کیونکہ رام مندر کو پتھروںسے بنایا جاتا ہے۔ گوپال داس کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بھگوان کی کرپا سے مرکز میں مودی کی حکومت ہے اور اب مندر بن کر رہے گا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق مندر کی تعمیر کیلئے ایودھیا میں سوا لاکھ مکعب میٹر پتھر تیار ہیں اور تقریباً دو لاکھ مکعب میٹر پتھروں کی ضرورت ہے۔
واضح ہو کہ 2004ء کے عام انتخابات سے پہلے سنگھ اور ویشوا ہندو پریشد کے لیڈروں نے رام مندر کے مسئلے کو خوب ہوا دی تھی۔ دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک اجتماع بھی ہوا تھا۔ وہاں واجپائی پر خوب تنقید کی گئی تھی کہ وہ مندر کی تعمیر کیلئے سنجیدہ نہیں۔ بعدازاں واجپائی نے خطاب میں کہا تھا کہ وہ ایسا ماحول تیار کرتے ہیں کوئی بھی مندر بنانے کی مخالفت نہ کر سکے۔ گزشتہ دنوں اشوک سنگھل کی یاد میں ہوئے جلسے میں سنگھ کے سربراہ نے کہاکہ مندر بنانے کا کام صرف اشوک کا نہیں تھا۔ سال 2015ء مئی میں بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے کہا تھا بی جے پی مندر کی تعمیر کے معاملے میں پیچھے نہیں ہٹی۔
بابری مسجد کیس کے اہم گواہ ہاشم انصاری نے اپنی وفات سے قبل کہا تھاکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ جو فیصلہ ہوگا’ اسے مانیں گے۔ انہوں نے حکومت سے شیلا پوجن روکنے کی اپیل بھی کی تھی ۔ ایودھیا میں تقریباً آٹھ سال بعد رام مندر کی تعمیر کیلئے پتھر لانے کا کام اچانک شروع ہو گیا ہے۔
ہندو فرقہ پرستوں کا یہ دعویٰ ہے کہ بابری مسجد درحقیقت ان کے دیوتا رام کی جائے پیدائش ہے’ تاہم ان کے دعویٰ کی کسی مستند حوالے سے تصدیق نہیں ہو سکی اور ہندوئوں کی مذہبی کتاب ”گیتا” میں بھی رام’ کی جائے پیدائش کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا’ تاہم انتہاپسند ہندو تنظیم بی جے پی کے پہلے دور اقتدار میں انتہاپسند تنظیموں نے اس دعوے کی بنیاد پر رام مندر کی تعمیر کی تحریک چلائی جس کے دوران بھارتی سپریم کورٹ کے روبرو اس امر کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ رام مندر کی تعمیر سے مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا’ لیکن 1992ء میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کیلئے نکالی گئی ہزاروں ہندوئوں کی ریلی کے بابری مسجد کے پاس پہنچتے ہی مشتعل ہندوئوں نے حملہ کرکے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ یقینا یہ اقدام ہندو انتہاپسند تنظیموں کے ایجنڈے کے تحت ہی اٹھایا گیا تھا جس کے خلاف بھارت کے مسلمانوںنے ردعمل کا اظہار کیا اور بھارتی ریاست اتر پردیش میں ہندومسلم فسادات شروع ہو گئے۔ اس بھارتی ریاست میں ساڑھے تین کروڑ مسلمان آباد ہیں اور مسجد کی شہادت پر سخت کشیدگی یپدا ہوگئی تھی۔ اس دوران الہ آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ صادر کر دیا کہ جس زمین پر بابری مسجد ہے’ اسے ہندوئوں اور مسلمانوں میں مساوی تقسیم کر دیا جائے۔ اس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنا کر رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندو جنونیت کے آگے بند باندھا کہ متنازعہ مقام پر کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں ہوگی مگر اب ہندو فرقہ پرستوں کے وزیراعظم نریندر مودی نے خود بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا اشارہ دیدیا ہے۔ جس سے رام مندر کی تعمیر اور بھی آسان ہو گئی ہے اور تیزرفتاری سے قیمتی پتھر و دیگر تعمیراتی سامان ایودھیا لے جایا جا رہا ہے اور اس پر مودی حکومت کی خاموشی سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے فرقہ پرستوں کی شرپسندی پر آنکھیں بند کر لی ہیں۔