تحریر : شیخ خالد زاہد آج صبح قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ایک پیغام سے آنکھوں کو بصیرت میسر آئی اور یہ پیغام جیسے آنکھوں میں جم کر رہ گیا ، کوشش کریں کے اسے پڑھنے کیلئے دل کی زبان استعمال کریں ، میں نے جب یہ پیغام پڑھا تو قائد کی نکاہت سے لبریز آواز جسکے لئے وہ اپنی سارے بدن کی طاقت سمیٹ کر کہہ رہے ہوں ،میری سماعتوں میں گونجنے لگی ، میرے سامنے انکی تھکن سے چور آنکھیں جو امید کی روشنی لئے چمک رہی تھیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ میں اپنا کام کرچکا ہوں، قوم کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے مل گئی ہے ، اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اسے تعمیر کرے ۔ قائد کے فرمان سے جو چیز میں نے نکالی ہے وہ ہے قوم ، کیا ہم قوم ہیں ؟ ہم تو قومیتوں کا ایک ریوڑ ہیں۔
پیغام بہت آسان الفاظ میں اور مکمل وضاحت کے ساتھ ہے۔ اس پیغام میں سب پہلااہم نقطہ یہ دیکھائی دے رہا ہے کہ قائد اعظم نے جو تحریک ،پاکستان کیلئے چلائی وہ ایک قوم کیلئے تھی مگر یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ قائد کے دل و دماغ میں اس قوم کو امت کی دوبارہ سے تشکیل کی ذمہ داری دینا چاہتے ہوں ۔گمان کر رہا ہوں کہ یہ بات انکے تصورمیں پوشیدہ ہو، وہ بہت اچھی طرح اپنی روز بروز گرتی ہوئی صحت کی صورتحال سے بخوبی واقف تھے جسکی وجہ سے انہوں نے ایسی کسی بات کا عندیہ دینا مناسب نہیں سمجھا ہو اور یہ کام آنے والے لیڈران کے ذمہ چھوڑ دیا ہو۔قائد کے لفظ قوم میں تمام مذاہب کو ماننے والے ، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد تھے ، جنہیں ایک قومی تشخص دے کر ایک قوم کی صورت پاکستان میں آباد کیا گیا تھا۔
دنیا کا اصول ہے کہ نسلیں ذمہ داریاں منتقل کریں نا کریں وہ خود باخود ہوتی چلی جاتی ہیں۔ منتقل کی جانے والی ذمہ داریوں میں موجود کسی بھی قسم کے سوال و جواب یا ابہام کے بارے میں تحقیق کرنے کا وقت اور موقع دونوں ہی مل جاتے ہیں اور کام آسان ہوجاتا ہے لیکن اگر خود بخود ہی منتقلی کا عمل ہو تو معاملات بگڑتے سنبھلتے آگے بڑھتے ہیں۔ سب سے پہلے اس بات کو سمجھ لیجئے کہ کوئی بھی ہمیشہ رہنے کیلئے نہیں ہے سوائے اللہ رب العزت کی ذات کے ، اور شائد یہ وہ عقیدہ ہے جس پر دنیا کے تمام مذاہب متفق ہیں۔ شائد قائدِ اعظم نے اپنی سوچ اوراپنے افکار پاکستان کے آنے والے حکمرانوں کو منتقل نہیں کئے جسکی وجہ سے سارا کا سارا قافلہ بھٹک گیا اور شائد اپنے ہی وطن میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں لٹتا چلا گیا۔
ہم اپنی بدعنوانیوں کی وجہ سے ساری دنیا میں بدنام ہوتے چلے جا رہے ہیں ، امریکہ ہمارے حکمران جسکے آگے پیچھے گھومتے رہے اور اس کی من مانی کی بنیاد پر اپنی حکومتی حکمت عملیاں مرتب کیں آج ہمیں آنکھیں دیکھا رہا ہے ۔
ستر سال گزر جانے کے بعد آج جب پہلی بار قائد کے اس فرمان کو پڑھا ہے تو ایسا لگا جیسے کل رات کو قائد اعظم نے یہ پیغام عوام کیلئے دیا ہے ۔ ۲۰۱۸ انتخابات کا سال ہے اور تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں ، سب ہی ایک دوسرے کی بدعنوانیوں کے قصے ساری دنیا کو چیخ چیخ کر سنا رہے ہیں ۔ہماری قومی غیرت نامی لفظ سے کوئی شناسائی نہیں ہے ۔ یہ ہماری بدعنوانیوں کا نتیجہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو دھمکیوں پر دھمکیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اس بات کو خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں دیکھائی دے رہے کہ پاکستان نے امریکہ کی لگائی ہوئی آگ میں اپنے آپ کو کس بری طرح سے جھلسالیا ہے ۔ امریکی صدر نے پاکستانیوں کی قابلیت کی اعتراف کچھ اس انداز سے کیا ہے کہ اپنی خارجہ حکمت عملی ہی نہیں بلکہ تھنک ٹینک (سوچنے والی توپیں)پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے ، پاکستان کے دفتر خارجہ اپنا احتجاجی بیان ضرور جاری کرنے والے ہونگے مگر دل ہی دل میں ہمارے حکمران و سیاستدان اور حکمت عملی ساز بہت خوش ہونگے کہ دنیا کو چلانے والے اور ساری دنیا کو آنکھیں دیکھانے والوں کو ہم نے بیوقوف بنا دیا ہے (جو امریکی صدر خود کہہ چکے ہیں)۔ سادہ لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا نے اپنے منہ سے اپنی نااہلی کا اعترف کر لیا ہے ۔
پاکستان کو ایک قوم ہونے کی ضرورت ہے پاکستان کو اب اور محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے دشمنوں کی فہرست میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس کی اہم ترین وجوہات میں سی پیک منصوبہ اول نمبر پر ہے اور چین سے اتنی مضبوط دوستی ۔ ہم جب انڈیا کی دراندازی کا بھرپور جواب دیتے ہیں تو انڈیا امریکہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے اور پھر امریکا سے اسی طرح کا کوئی نا کوئی بے سر و پیر کا بیان ڈونلڈ ٹرمپ داغ دیتے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان اور ایران بھی ہمیں پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔گوکہ ایران خود اسوقت اندرونی خلفشار کا شکارہے۔
گھوم پھر کر موضوع پر واپس آتے ہیں ، قائد اعظم نے جو توقعات اس ملک میں رہنے والوں سے لگائیں تھیں ان میں سے شائد ایک بھی پوری نہیں ہوسکی ہے ۔ الٹا اس قومیتوں کے جتھے نے قائد اعظم اور انکے تحریک پاکستان کے ساتھیوں کو اور انکے کرداروں کو ہی متنازع بنا کر رکھ دیا ہے اور نئی نسل کے ذہنوں میں مختلف ابہام پیدا کر کے چھوڑ دئیے۔ اس قوم نے کیا کرنا تھا اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا کر سب بیٹھ گئے، جس کسی ایک سوچ رکھنے والے کو تنگ کیا گیا تو دوسرے نے یہ کہہ کر اس کا ساتھ نہیں دیا کہ یہ تو میرا مخالف ہی ہے اچھا ہوا جو اکچھ اس کے ساتھ ہوا، جوکہ آنے والے کل میں اسکے اپنے ساتھ ہونے والا ہے ۔
یہ ایک ایسا معمہ ہے جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۷۰ سال گزر جانے کے بعد بھی ہم اپنے وطن کی تعمیر ان خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے نہیں کرسکے جو اس ملک کو حاصل کرنے والوں نے اپنی جانیں دیتے ہوئے دیکھے تھے۔ کیا لوگ تھے وہ جانتے تھے انکی زندگی انہیں اتنی مہلت نہیں دے گی کے وہ پاکستان کا وجود دیکھ سکیں مگر انہوں نے ہمارے لئے کہ ہم نا صرف اسکا وجود دیکھیں بلکہ اسے خوب سجائیں اور سنواریں۔ ہم نے دنیا کو تو دھوکا دے دیا اور اپنے عزائم پورے کئے مگر کیا پاکستان کو کچھ فائدہ ہوا یا پاکستانی ہمارے سیاستدانوں سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کرسکے ، انتخابات کے جلسے جلوسوں کے بعدیہ ملک کے اہم ترین لوگ دستیاب ہوئے ۔ کسی ایک کا جواب بھی ہاں میں نہیں ہوگا۔
ہمیں کسی بھی ملک کو جواب دینا ہوتا ہے تو ہم بہت مہذب اور عالمی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے ، ماہرین امور خارجہ اور خزانہ سے ملاقاتیں کرتیں ہیں اور پھر کہیں جاکہ جب معاملہ کسی حد تک خود ہی خول میں چلا جاتا ہے تو اعلامیہ جاری کروادیتے ہیں۔ جو اتنا ڈپلومیٹک (منافقانہ) ہوتا ہے کہ دنیا کو بھی تسلی ہوجاتی ہے کہ پاکستان کی قیادت کم از کم جذباتی ہاتھوں میں نہیں ہے۔ یوں تو پورا پاکستان امریکی صدر کو اپنی دانست میں گالیاں دے رہا ہے ۔ ہم پاکستانی دنیا کی نظروں میں بہت طاقتوار اور منظم بنے ہوئے ہیں مگر ہمارے اندرونی حالات ہم ہی جانتے ہیں۔ ہم اگر اب بھی ایک قوم نہیں بنے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمیں نیست و نابود کر دیا جائے گا۔