تحریر : حفیظ خٹک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا وہ صدر ہے کہ جسے مورخ اچھے لفظوں میں نہیں لکھے گا۔ صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد سے اب تلک ان کے اقدامات سے امریکی عوام سمیت دیگر متعدد ممالک کی عوام بھی غیر مطمئن و ناخوش ہے۔امریکہ کا یہ صدر ماضی میںعالمی ریسلنگ (WWE)میں اک شاطر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس کردار کو وہیں پر چھوڑ کر دیگر ذمہ داریوں کو احسن انداز میں نبھانے کے بجائے اس کے اب تلک سار ے اقدامات طنز و مزاح اور ذومعنی ہی رہے ہیں۔ ریسلنگ کے کھیل میں کامیاب وہی پہلوا ن ہوتا ہے کہ جو طاقتور ہونے کے ساتھ شاطر بھی ہو ، دھوکہ دہی سے وہ اپنے مد مقابل کو ہراتا ہو، اس مکاریت میں اسے شکست اس وقت ہوتی ہے کہ جب اسی طرح کی صلاحیتوں والا کوئی اور پہلوان اسے کے سامنے آجاتا ہے۔بحرحال اس تفصیل جانے کے بجائے اس امریکی صدر کیلئے یہی کہنا بدرجہ درست ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سابقہ سپر پاور ملک روس کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ جس طرح روس اپنی حرکات کے سبب متعدد حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے اسی طرح مستقبل قریب میں امریکہ کو اس کا یہ صدر اسی حال میں پہنچائے گا۔
روس یہ سمجھتا کہ وہ افغانستان کو روندتا ہوا پاکستان کو فتح کر سمندری حدود تک پہنچ جائیگا لیکن اس کی یہ سمجھ اس کی ہی تباہی کا سبب بن گئی۔ افغانستان میں روس کو شکست ہوئی اور وہ روس ویسا نہ رہا ، اسی روس کے متعدد ٹکرے ہوگئے۔امریکہ بھی روسی روش پر عمل پیرا ہے اس نے ماضی میں جہاں قدم رکھے اپنی فوج کو قبضوں کیلئے استعمال کیا ، اس ملک کی عوام نیست و نابود کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اس کے باوجود بھی انہیں کامیابی حاصل نہیں پائی۔عراق کے حالات سے اس امریکی صدر کو کچھ حاصل کرنا چاہئے ، اسے اس صحافی کا جوتا بھی یاد ہوگا کہ جو امریکی صدر کو بھری مجلس میں نشانہ بنایا گیا۔ اپنا اسلحہ کم ترقی یافتہ ممالک کو بیچ کر ، انہیں امداد کے نام پر رقم دے کر امریکہ اپنے من پسند قائدین کو اس ملک کا حکمران بناتا رہا ہے اور اس کے بعد اپنے مفادات حاصل کرتارہا ہے۔ امریکہ نے اب تلک کوئی جنگ اپنے ملک کے اندر نہیں لڑی ہے ،ڈھائی کڑور آبادی والا ملک شمالی کوریا جو براہ راست امریکہ پر حملے کرنے کی بات کرتاہے اوراس کا صدر نئے سال کی آمد پر یہ پیغام تک دیتا ہے کہ وہ امریکہ کو تباہ کرنے کچھ بھی کرسکتاہے ، ایسے حکمران اور ایسے ملک کے سامنے امریکہ کی ساری بہادری ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی ساری منافقت عروج پر رہنے کے بعد بھی بھٹک جاتی ہے ، اس کے ہم خیال بھارت و دیگر ممالک بظاہر امریکہ کا ساتھ دینے والے رویئے رکھتے ہیں لیکن اب دنیا کی عوام یہ جان چکی ہے ایسے ممالک کا یہ کردار کیونکر اور کن وجوہات کے باعث ہوتے ہیں۔
اس بات کا یقین ہے کہ جس افغانستان کو امریکہ نے برسوں کی محنتوں کے باوجود فتح نہیں کیا اور اب امریکی فوجیوں میں خودکشیوں تک کا رجحان بڑھ رہا ہے ، نیٹو کی افواج ان کا مزید وہاں ساتھ دینے کیلئے راضی نہیں ہیں ، بھارت تک اپنی فوج کو امریکی ایما پر افغانستان نہیں بھیجنا چاہتا ہے تو اس مخدوش صورتحال میں امریکہ کا یہ ذہین صدر عافیت اسی میں سمجھتا ہے کہ اپنی تمام تر ناکامیوں کو پاکستان کے سر ڈال اپنے سر میں خم نہ لائے اور اپنے مفادات کو مستقل انداز میں حاصل رکھنے کیلئے اقدامات کرئے اور نئے مورچے کی جانب بڑھے لیکن حقیقت میں یہ سب ناممکن ہے۔امریکہ معاشی طور پر چین کے سامنے جھک چکا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ عالمی سطح پر اس کی اب وحالت نہیں رہی جو کھبی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ اسرائیل کے دارلخلافے کے نام پر اقوام متحدہ میں 129ممالک نے امریکی اقدام کی محالفت میں اپنی رائے کا اظہار کیا حتی کے سلامتی کونسل میں بھی 14اراکین اس کے حلاف رہے ۔اس صورتحال کے منفی اثرات امریکہ کی حکومت پر مرتب ہورہے ، اس کے ساتھ امریکہ صدر و پوری حکومت پاک چین کے سی پیک منصوبے کو بھی منفی نظروں سے دیکھ رہے ہیں انہیں اس بات کا علم ہے کہ اس منصوبے سے چین سمیت پاکستان کی معیشت کس قدر مضبوط ہوگی ، یہ امریکہ نہیں چاہتا ہے ۔ سی پیک کے خلاف وہ بھارت کو اپنے ساتھ رکھ کر اس منصوبے کو ناکا م کرنا چاہتا ہے ان مقاصد کیلئے امریکہ کی اندورنی و بیرونی حرکات و سازشیں جاری ہے لیکن تمام تر کاوشوں کے باجود اسے اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئیں ہیں اور ان شاءاللہ ہونگی بھی نہیں۔
دہشت گردی کے عالمی جنگ میں اقوام عالم سمجھتی ، جانتی اور ماننے کے ساتھ یہ کہتیں ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کا کردار ناقابل بیاں ہے ، پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف اس عالمی جنگ میں شدید جانی و مالی نقصان پہنچا ہے ، اندرونی و بیرنی تمام تر سازشوں کے باجود پاکستان کی افواج و عوام نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کامیابی حاصل کی ہے اس حقیقت کے باوجود امریکی صدر کا یہ کہناکہ پاکستان نے اسے دھوکہ دیا بے وقوف بنایاہے ، 15برسوں میں اربوں ڈالرز لے بھی پاکستان نے کچھ نہیں کیا ۔ اب امریکہ پاکستان کے ان اقدامات سے باخبر ہوگیا ہے ، یہ اور اسی طرح کی دیگر قابل مذمت باتوں بھرے ٹویٹ کے ذریعے امریکی صدر نے یہ سمجھا کہ وہ درست قدم اٹھا رہے ہیں بعدازاں وائٹ ہاﺅس کی ترجمان نے اسی طرح کی دیگر باتوں کا اضافہ کرکے پاکستان کی حکومت و عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ چین جو کہ پاکستان کا بہترین ہمسایہ و دوست ملک ہے اس نے امریکی صدر کی اس ٹویٹ پر فورا اپنا بیان دیا اور امریکہ کے اس اقدام کی محالفت کی۔ چین کے اس اقدام نے پاکستانی عوام وحکومت میں اس کے تاثر کو مزید مثبت لیا۔
ملک کے اندر کی سیاسی صورتحال جس طرح بھی تاہم جب ملکی ساکھ کا معاملہ آتا ہے تو سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ وطن عزیز کے محالفین یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان کو سامنے سے شکست نہیں دی جاسکتی اسے اندورنی طور پر سازشوں کے ذریعے ہی نقصان پہنچایا جاسکتاہے ، دشمنان وطن ہمیشہ یہ کاوشیں کرتے رہے ہیں ، وقت گذرنے کے ساتھ افواج پاکستان کے ساتھ عوام نے اب ملک دشمنوں کو ختم کردیا ہے اور اس خاتمے کا سفر ابھی جاری ہے۔ پاکستان باصلاحیت عوام سے بھراہے وہ صلاحیت کسی بھی شعبے میں ہو وقت اسے دنیا کے سامنے لے آتاہے۔ بھارت کسی بھی طرح سے اکھنڈ بھارت کا سپنا پورا نہیں کرسکتا ہے ، کھیل کے میدان تک میں وہ پاکستان کا سامن نہیں کرسکتا فوج کا اور پوری عوام کا سامنا وہ کیا کرے گا۔وہ تو وہ اب امریکہ بھی پاکستانیوں کا سامنا نہیں کرسکتا ہے اسے روس کے ماضی سے ہی کچھ سبق لینا چاہئے ۔ امریکی صدر اگر امداد کی بات کرتاہے تو اسے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پاکستان کی سرزمین کو اس افغانستان کی جنگ میں کس طرح سے استعمال کی ہے۔ پاکستان کو کس قدر نقصان پہنچا ہے اس نقصان کو امریکہ نے دیگر نیٹوافواج نے پورا کرنے کی کیا کاوشیں کیں ہیں۔ پاکستان کی پوری عوام متحد ہے اور یہ اتحاد امریکہ ، بھارت و اسرائیل توکیا ہر دشمن کے خلاف رہے گا۔ پاکستان کی پوری عوام فوج کے ساتھ ہے اور ساتھ رہے گا ۔ آزمائش و پریشانی کا یہ وقت بھی گذر جائیگا اور ان شاءاللہ کشمیر بھی پاکستان حصہ بنے گا یہ ملک بہترین مستقبل کی جانب منظم منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے پہنچے گا۔