تحریر : ملک محمد سلمان امریکا نے پاکستان کی سیکیورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کردیا ،اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیدر نورٹ نے بتایا کہ حقانی نیٹ اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی تک معاونت معطل رہے گی۔امریکا نے پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ سنگین خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں بھی شامل کردیا ہے۔قبل ازیںڈونلڈ ٹرمپ نے سال کے پہلے روز ہی ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران پاکستان کو 33 بلین ڈالر امداد دیکر حماقت کی، امریکی امداد کے بدلے میں پاکستان نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس کے اگلے ہی روز وائٹ ہاؤس نے پاکستان کو امداد کی فراہمی روکنے کا اعلان کیا تھا۔سارا سینڈرز کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان کی 255 ملین ڈالرز یعنی 28 ارب روپے کی فوجی امداد پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ کے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکا ہمارا اتحادی ہے اور اتحادیوں سے جنگ نہیں ہوتی لیکن اگر امریکا نے قومی سلامتی کے خلاف کوئی کارروائی کی توفیصلہ ریاست کرے گی اور جواب عوامی امنگوں کے مطابق دیا جائے گا۔چین پاکستان کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہواجبکہ ترکی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ترک صدر نے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا کہ صدر ٹرمپ کا پاکستان سے متعلق ٹویٹ ناپسندیدہ اور پاکستان کی قربانیاں باوقار ہیں۔ ”ہم ہر طرح کی صورت حال میں شانہ بشانہ کھڑے ہیں”۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی ایم او اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت، وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر دفاع خرم دستگیر سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات نے شرکت کی۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے مشترکہ موقف اپناتے ہوئے کہا کہ پاکستان جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل اور معیشت کی قیمت پر لڑی، قربانیوں اور شہداء کے خاندانوں کے درد کا مالی قدر سے موازنہ کرنا ممکن نہیں۔ پاکستانی قوم نے دہشتگردی کیخلاف مثالی وغیرمتزلزل عزم کا مظاہرہ کیا۔خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکا ہمارا یار نہیں بلکہ یار مار ہے اور اگر امریکا نے جارحیت کی کوشش کی تو پوری پاکستانی قوم کی جانب سے متفقہ جواب دیا جائے گا۔وزیر خارجہ نے امریکی صدر کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے غلط بیانی سے کام لیا، امریکا نے ہمیں خدا واسطے امداد نہیں دی بلکہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری زمین، ہماری سڑکیں، ہماری فضائی حدود اور ہماری ریلوے استعمال کیا۔ امریکا نے آج بھی کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ہمارے 9 ارب ڈالر دینے ہیں جس کا ہم ان سے باقاعدہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ امریکا ہمیں جو امداد دیتا تھا اس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا تھا اور ہم امریکا کو ایک ایک پائی کا سرعام حساب دینے کے لیے تیار ہیں، پتا چل جائے گا کون سچ بول رہا ہے ، کون دھوکا دے رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا کہ امریکی صدر کا بیان قومی وقار کے مناف اور عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے۔اس سے بڑا اور کوئی لمحہ نہیں آیا جب اتنی دیدہ دلیری سے آپ کے وقار کا تیا پانچا کیا گیا، قصور ہمارا اپنا ہے، 33 ارب ڈالر کی بھیک کے پیچھے رہے، اس کے اوپر اپنی عزت کا سودا کرتے رہے ۔امریکا سے کہیں عزت کے ساتھ معاملات کریں گے، آپ کے پیسے، امداد اور قرض نہیں چاہیے۔ روکھی سوکھی کھالیں گے، کشکول اور مانگے تانگے کی زندگی میں عزت نہیں ملتی، اسٹیک ہولڈرز مل کر مشاورت سے فیصلہ کریں اور ایسی امداد سے توبہ کرلیں۔
وزیراعظم کے مشیر خزانہ و اقتصادی امور ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے پاکستان کے لیے نام نہاد امریکی امداد کے دعوئوں کا پول کھولتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو گزشتہ سال ایک ارب ڈالرز وصول ہوئے جس میں سے 55کروڑ ڈالرز کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں تھے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان کے 22کروڑ 50لاکھ ڈالرز کا روکا جانا کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ یہ رقم پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے محض ایک دن کے اخراجات کے مساوی ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان کو پندرہ برس میں 33 ارب ڈالر امداد دینے کا الزام لگایا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ رقم اسے کولیشن سپورٹ فنڈ سے دی گئی ہے جس کا مقصد جنگ میں فراہم کردہ سہولتوں کی ادائیگی اور نقصان کی تلافی ہے۔ امریکی صدر بظاہر اس وضاحت کو تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ 16 سالوں کے دوران120 ارب ڈالرکا مالی نقصان ہوا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث پاکستان کو ٹیکس وصولی کے نظام میں 5320 ارب روپے کا نقصان ہوا۔اسی طرح بیرونی سرمایہ کاری میں بھی 1995 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی جب کہ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو 928 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ نجکاری کی مد میں پاکستان کو 262 ارب روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا جبکہ غیر یقینی صورت حال کے باعث 15 ارب روپے کا نقصان ہوا۔پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان سال 11ـ2010 میں 2037 ارب روپے کا ہوا جبکہ 10ـ2009 میں پاکستان کو 1136 ارب روپے کا نقصان ہوا اور اسی طرح 13ـ2012 میں پاکستان کو 1964 ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔امریکہ کی33بلین ڈالر کی امداد کے بدلے پاکستان کو 120بلین یعنی چار گنا زائد مالی نقصان برداشت کرنا پڑا جبکہ ہزاروں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور شہریوں کی قیمتی جانوں کی شہادت ازلہ ناممکن ہے۔
“امریکی صدر کا ٹویٹ ایک پالیسی ٹویٹ ہے، امریکی صدر اگرچہ خواہ مخواہ کے ٹویٹس بھی کرنے کی عادی ہیں لیکن اس قسم کے ٹویٹ کے پیچھے ایک باقاعدہ ٹائمنگ پہلے سے طے کی جاتی ہے کہ ہم نے کس دن یہ ٹویٹ کرنا ہے۔ 2018 ء کے آغاز کے ساتھ یہ ٹویٹ سامنے آیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ وہ 2018 ء کے آغاز کو ایک پالیسی کی تبدیلی کے آغاز کے طور پر لے رہے ہیں اور تبدیلی پاکستان امریکی تعلقات کے حوالے سے تباہ کن قسم کی تبدیلی ہے۔” امریکہ پاک چین راہداری یعنی سی پیک کو تیزی سے تکمیل کے مراحل کی جانب بڑھتاہوادیکھ کر تلملا رہاہے۔ وہ پاکستان کو امریکی اثرورسوخ سے نکلتا اور اپنے پائوں پر کھڑا ہوتادیکھ کر سیخ پاہورہاہے۔ امریکی صدر کی پاکستان سے ناراضی کی اصل وجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور چین پاکستان اقتصادی راہداری پر ہے۔