تحریر : پروفیسر رفعت مظہر کوئی ہمیں بتائے کہ پچھلے 70 سالوں میں کب امریکہ ہماری مدد کو آیا؟۔ کب اُس نے حقِ دوستی ادا کیا؟۔ کب اُس نے ایک مخلص اتحادی ہونے کا ثبوت فراہم کیا؟۔ سچ تو یہی کہ امریکی بزرجمہروں نے ہمیشہ ہمیں ”جہنم سے نکلا ہوا اتحادی” جیسے طعنوں سے ہی نوازا۔ امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ ہنری کسنجرکا کہا بالکل سچ ” امریکہ کی دشمنی بُری لیکن دوستی اُس سے بھی بُری”۔ضرورت پڑنے پر امریکہ ہمیشہ آنکھیں پھیر تا رہا۔ 65ء کی پاک بھارت جنگ میں اُس نے ہماری امداد بند کی، 71ء میں ہم ساتویں بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہ گئے اور ملک دولخت ہو گیا۔ افغان جنگ میں ضیاء الحق امریکہ کا بھرپور ساتھ دے کر وطنِ عزیز میں کلاشنکوف کلچر لے آیا لیکن جب روس بُری ہزیمت کے بعد افغانستان سے نکل گیا تو امریکہ نے پیچھے مُڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ 98ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ خاموش رہا لیکن جب پاکستان نے رَدِ عمل کے طور پر ایٹمی دھماکوں کی ٹھانی تو وہ کمر کَس کر میدان میں اُتر آیا،کبھی امداد کا لالچ تو کبھی دھمکیوں کی یلغار۔ پاکستان نہیں مانا تو امداد بند کر دی۔ وجہ صرف یہ کہ اُسے کسی بھی مسلم ریاست کا ایٹمی قوت بننا سرے سے قبول ہی نہیں۔
نائین ،الیون کے بعد آمر پرویز مشرف ایک ہی امریکی دھمکی پر ایساچاروں شانے چِت ہوا کہ اور وہ کچھ بھی مان گیا جس کا مطالبہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اُس نے ہر اَیرے غیرے امریکی کے لیے پاکستان کے دروازے کھول دیئے۔ اِس اندھی افغان جنگ نے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچایا، اُتنا نقصان تو قیامِ پاکستان سے اب تک نہیں پہنچا ہوگا۔ ساری امریکی طاقت اور نیٹو افواج 17 سالوں تک جدید ترین اسلحے کے زور پر طالبان کے خلاف برسرِ پیکار رہیں لیکن ہزیمت ہی حصّے میں آئی۔ اب اِس بُری ہزیمت کی شرمندگی کو ٹالنے کے لیے پاکستان کو موردِالزام ٹھہرایا جا رہا ہے حالانکہ ہم نے تو پاکستان سے طالبان کے ٹھکانوں کا مکمل طور پر صفایا کر دیا۔ ہمارے اربابِ اختیار بار بار امریکہ کو چیلنج کر رہے ہیں کہ اگر اُس کی اطلاع کے مطابق پاکستان میں حقانی نیٹ ورک یا کسی دوسرے گروہ کا ٹھکانہ ہے تو بتایا جائے۔ امریکہ جو آسمانوں سے زمین پر پڑی سوئی تک تلاش کر لیتا ہے ،وہ پاکستان کو شرمندہ کرنے کے لیے کیوں نہیں بتاتا کہ شمالی یا جنوبی وزیرستان میں فلاں جگہ حقانی نیٹ ورک ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ کہ طالبان کا سارا نیٹ ورک اِس وقت افغانستان میں ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” اُس کی پُشت پناہ۔ دہشت گرد افغانستان سے بارڈر کراس کرکے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے واپس بھاگ جاتے ہیںلیکن ”نزلہ بَر عضوِ ضعیف می ریزد”۔
آجکل امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے بیان کے خلاف ہر طرف سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور ٹرمپ کو طرح طرح کے القاب سے نوازا جا رہا ہے۔ وزیرِخارجہ خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا ”امریکہ یار نہیں، یار مار ہے۔ ہماری قُربانیوں کی توہین کی جا رہی ہے۔ پاکستان تنہا نہیں، ہمارے ساتھ قابلِ اعتماد دوست ہیں”۔ پارلیمانی کمیٹی نے امریکی بیان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عزت اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ وزیرِدفاع خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ہمیں ہمیشہ دھوکہ دیا۔ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ”دھمکانے والے سُن لیں کہ کوئی طاقت پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی”۔ اُن کا کہنا تھا کہ کوئی رقم ہمارے بہادروں کی حب الوطنی اور قربانیوں کی قیمت نہیں چکا سکتی۔ پاکستان نے جو قربانیاں دیں اُن کا مقصد حصولِ زَر نہیں ،حصولِ امن ہے۔ سابق وزیرِاعظم میاں نوازشریف نے بھی ایک پریس بریفنگ میں امریکہ کو آئینہ دکھایا۔ پوری قوم متفق ومتحد کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی جائے۔ امریکی صدر کے اِس ایک ٹویٹ نے نہ صرف پوری قوم بلکہ سیاسی و عسکری قیادت اور اپوزیشن کو بھی ایک صفحے پر لا کھڑا کیا۔
چلیں مان لیا غیر سیاسی ڈونلڈ ٹرمپ مَن مرضی کے فیصلے کرتے ہیں،سوال مگر یہ ہے کہ کیا سارے امریکی صدور ہی سیاسی نابَلد اور احمق تھے کیونکہ ہم تو یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ امریکہ کسی بھی ابتلاء کے موقعے پر ہمیشہ صف دشمناں میں ہی کھڑا نظر آیا۔ حقیقت یہی کہ یہ ٹویٹ امریکی صدر کا انفرادی نہیںبلکہ امریکی پالیسی اور سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس میں تمام امریکی ادارے شامل ہیں۔
دَراصل امریکہ پاک چین اقتصادی راہداری ہضم نہیں کر پا رہا۔ اُس کے دِل میں تو عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہی کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے، بھلا پاکستان کی صورت میں ابھرتی ہوئی معاشی قوت کیسے قبول ہوگی۔ اِس کے علاوہ انتہائی تیزی سے دنیا کو معاشی لحاظ سے مسخر کرتا چین بھی اُسے قبول نہیں۔ اقتصادی راہداری کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی پاک چین دوستی نہ صرف امریکہ بلکہ بھارت کو بھی مضطرب کر رہی ہے ۔ خطّے کا چودھری بننے کا احمقانہ خواب سجائے بھارت کے پیٹ میں بھی مروڑ اُٹھ رہے ہیںاور وہ کھلم کھلا اقتصادی راہداری کے خلاف آگ اُگل رہا ہے کیونکہ اِس منصوبے کے بعد اُس کا خطّے کا چودھری بننے کا خواب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چکنا چور ہو جائے گا۔ یہ سب امریکہ بھارت مِلّی بھگت ہے جس کے ذریعے یہ ممالک پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیںلیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ آزمائش کی ہر گھڑی میں پاکستانی قوم ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کا نعرہ ہی یہی ہے کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
یہ بجا کہ امریکہ ایسی سُپر طاقت ہے جس کے ساتھ جنگ کا تصور بھی احمقانہ لیکن جب بات قومی غیرت، آن بان اور شان کی ہو تو پھر بقول سلطان ٹیپو ”شیر کی ایک دِن کی زندگی گیدڑ کی صَد سالہ زندگی سے بہتر ہے”۔ ویسے بھی تاریخِ عالم ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں عزم وہمت نے محیرالعقول کارنامے سرانجام دیئے۔ نپولین اور سکندرِاعظم نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوجوں کے دانت کھٹے کیے۔ چنگیز خاں بھی ایک چھوٹے سے قبیلے سے اُٹھا اور تادمِ مرگ فتوحات کرتا چلا گیا۔ منگولوں نے اُس چین کو فتح کیا جو اُن سے 30 گُنا زیادہ آبادی پر مشتمل تھا۔ سب سے زیادی حیرت انگیز فتح سپین کے ناخواندہ ہسپانوی مہم جو فرانسسکو پیزارو کے حصّے میں آئی جسے سپین کے شہنشاہ چارلس پنجم نے ”پیرو” فتح کرنے کا اختیار دیا۔ اُس وقت پیرو 6 ملین سے بھی زیادہ آبادی والی سلطنت تھی جسے پیزارو نے 1532ء میں محض 177 سپاہیوں اور 62 گھوڑوں کی مدد سے فتح کیا۔ جس سلطنت کو نڈر، چالاک اور عزم وہمت کے پیکر پیزارو نے فتح کیا، اُس زمانے میں اُس سلطنت کی آبادی جنوبی امریکہ کی تمام ریاستوں کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ تھی۔ حرفِ آخر یہ کہ ہم ایک پُرامن ایٹمی قوت ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جنگ کسی بھی مسٔلے کا حل نہیں لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پھر دشمن کو نشانِ عبرت بنا دینے کا حوصلہ بھی ہم میں ہے۔