تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی روزِ اول سے یہ قانون ِ فطرت رہا ہے کہ جب بھی کسی خو ش نصیب کے باطن میں دبی آتشِ عشق کی چنگا ری بھڑکی ‘پو ر پور میں ‘خون میں بسی جسم کا رواں رواں سلگنے کا لگا ‘کو چہ تصوف میں تصوف اورمعرفت الٰہی کی پر اسرار مشکل ترین گھا ٹیو ں سے گزرنا مقدر ٹھہرا ‘راہ سلوک کی مشکل گھا ٹیو ںسے جتنا کو ئی پا مردی اور استقامت سے گزرا قدرت نے پھر اُس کواتنی ہی شان بخشی ‘قدرت نے پہلے سے ہی انسان کو جنون کی دولت بخشی ہے پھر یہی جنون دشوار تا ریک راستے کی مشعل راہ بن جاتا ہے راہ فقر کی یہ گھا ٹیاں بھیس بدل بدل کر سالک کے پا ئے استقلال کو ڈگمگا نے کی کو شش کر تی ہیں یہاں پر سالک خدا اور مرشد کے سہا رے استقامت سے گزرتا ہے اور پھر منزل مراد پر پہنچ کر امر ہو جاتا ہے۔
بلھے شاہ کی زندگی کا جب ہم مطا لعہ کر تے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ایک کے بعد ایک مشکل آزمائش بلھے شاہ کا دامن تھا متی نظر آتی ہے بلھے شاہ کئی سال جھنگ دریا کے کنا رے عبادت ریا ضت فا قہ کشی اور مجا ہدو ں کے بعد جب مشاہدہ حق کے بعد مر شد کے چرنوں میں آتا ہے تو چند دن گزارنے کے بعد مر شد کا اگلا حکم جا ری ہو تا ہے کہ سید زادے اب تم اپنے گائوں ” پانڈوکے ” جائو جہاں تمہا را بچپن گزراماں با پ بہنیں تمہارا تر ستی آنکھوں سے انتظار کر رہے ہیں اور پھر طویل عرصے کی غیر حا ضری کے بعد بلھے شاہ اپنے گا ئوں آتے ہیں تو ماں با پ بہنیں دیکھ کر خو شی سے پا گل ہو جا تے ہیں درویش روز اول سے خانہ بدوشی کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیںکیونکہ راہ فقر معرفت الٰہی کے مسافر خدا اور اُس کی فطرت کی رعنائیوں کو پسند کر تے ہیں اِس لیے یہ کو چہ کو چہ ملکوں ملکوں پھر کر اپنی متجسس فطرت کو سکون دینے کی کو شش کر تے ہیں کیونکہ بلھا بھی اِسی فطرت اضطراب اوربے قراری کا مالک تھا اِس لیے بہنوں کو اب یہ فکر ستا نے لگی کہ ہما را لا ڈلا بھا ئی ما ضی کی طرح پھر چند دن گزار کر دوبارہ اُنہیں چھو ڑ کر کسی اور منزل یا آستا نہ مرشد پر نہ جائے اِس لیے انہوں نے ماں با پ کو تجویز دی کہ بلھے شاہ کے پائوں میں زنجیر ڈالنے کے لیے اِس کی شادی کر دی جا ئے ‘گھر داری کا بو جھ بلھے شاہ پر ڈا ل دیا جا ئے تاکہ بلھے شاہ پھر بیوی بچے اور گھر کا ہی ہو کر رہ جا ئے۔
ایک دن با پ نے بلھے شاہ کو بٹھا یااور پیا ر سے کہا کہ اب میں اپنی نسل کو پروان چڑھتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں تمہا ری شادی کر نا چاہتا ہوں ۔ بلھے شاہ اپنے مزاج سے بخو بی واقف تھے اِس لیے نہایت ادب سے درخواست کی ‘بابا جان شادی قید ہے میری فطرت میںقید ہونا پسند نہیں کر تی بیٹے کے مسلسل انکا ر سے با پ نے کہا شادی تو نبیوں پیغمبروں ولیوں نے کی ہے تم کس مذہب یاروش کے مسافر ہو جو شادی سے انکا ر کر رہے ہو بلھے شا ہ نہایت ادب سے بو لے بابا جان آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن میںاپنے مزاج سے خو ب واقف ہوں میں مر د آزاد ہوں پا بندی مجھے برداشت نہیں ہے بلھے شاہ کا انکا ر دیکھ کر با پ بہت پریشان ہوا کیونکہ اُس کی نسل بڑھتی ہو ئی نظر نہیں آرہی تھی جب گھر والوں کے شدید اصرار پر بھی بلھے شاہ انکار ہی کر تے رہے تو پو را گھرا نہ اِس مسئلے کا حل ڈھونڈنے پر لگ گیا کہ کس طرح بلھے شاہ کو شادی پر تیا ر کیا جا ئے آخر بہنوں کو لگا کہ یہ سب بلھے شاہ کے مرشد حضر ت عنایت قادری کی وجہ سے ہو رہا ہے جب تک بلھے شاہ مرشد سے دور نہیں ہو گا اُس وقت تک بلھے شاہ شادی نہیں کرے گا۔
بلھے شاہ پر مرشد کا رنگ خو ب چڑھ چکا ہے پہلے مرشد کا گہرا رنگ اتا رنا ہو گا پھر ہی مسئلہ حل ہو گا اب بہنوں نے باپ سے کہا بلھے شاہ کو حضرت عنایت قادری سے دور کر دیا جا ئے مگر باپ نے یہ کہہ کر انکا ر کر دیا کہ میں نے خو د ہی تو بلھے شاہ کو کامل مرشد کے پاس بھیجا تھا اب میں اُسے مرشد سے دوری کا مشورہ کیسے دے سکتا ہوں لیکن تم اپنی محبت کا واسطہ دو تو شاید وہ مان جائے کیونکہ بھا ئی بہنوں سے بہت پیار کر تے ہیں اب بہنیں اکھٹی ہو کر بھا ئی کے پاس آئیں اور بو لیںبھا ئی تم ہم سے کتنا پیا ر کر تے ہو اور آپ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہو تو بلھے شاہ بو لے بہت پیا ر کر تا ہو ںاور تمہا رے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں اب بہنوںنے اپنا مدعا بیا ن کیا بھا ئی اگر تم ہم سے محبت کر تے ہو تو ہما رے لیے مرشد سے دور ہو جا ئو مر شد کی محبت کم کر کے اب ماں با پ کی محبت اپنا لو ‘نیک اولاد کی طرح اب ماں با پ کی رضا اور خدمت میںزندگی گزار و’ اب بہنوں نے ماں با پ کی خدمت کا مقا م بتا نا شروع کر دیا بلھے شاہ آرام سے بہنوں کی با ت سنتے رہے لیکن شادی کی بات سے پھر انکار کر دیا اورکہا میں تو خدا اور مر شد کا ہو چکا اب ہمارے درمیان کو ئی تیسرا کیسے آسکتا ہے۔
میںمرشد سے دوری کا تصور بھی نہیں کر سکتا تا ریخ تصوف میں ایسے نا زک مقام اور بھی فقیروں پر آچکے ہیں مثال کے طو ر پرشہنشاہ پاکپتن زہد الاولیا ء با با فرید گنج شکر کے سگے بھا نجے مخدوم صابر کلیر کی والدہ ما جدہ نے جب صابر کلیر کی مرضی کے بغیر اپنے بیٹے کی شادی کر دی اور جب دلہن کو آپ کے سامنے لا یا گیا تو مخدوم زادے نے شدید حیرت سے کہا یہ کو ن ہے تو والدہ بو لی فرزند یہ تمہا ری دلہن ہے جس سے تمہا ری شادی ہو چکی ہے تو صابر کلیر جذب وسکر کے عالم میں بو لے میں تو پہلے ہی کسی کا ہو چکا اب میرے اورحق تعالیٰ کے درمیان کو ئی تیسرا کیسے آسکتا ہے کن فیکون کے مقا م پر فائز نوجوان درویش کو جلا ل آگیا دلہن کے کپڑوں کو آگ لگ گئی اور پھر چند لمحوں میں ہی دلہن راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی قافلہ شب و روز کی رفتار کے بعد پھر ایک درویش اُسی طرح ہی بو ل رہا تھا کہ میں تو کسی کا ہو چکا ہوں اب درمیان میں کسی دوسرے کے آنے کی گنجا ئش نہیں ہے بہنوں نے جب منت سماجت کر لی تو اب آخر ی وار کر نے کا فیصلہ کیا اب آپ کو ایک فیصلہ کر نا پڑے گا یا تو اپنے مرشد کو چن لو یا پھر بہنوں کو ‘بلھے شاہ نے بہنوں کو بہت سمجھا نے کی کو شش کی کہ مجھے اِس آزما ئش میں نہ ڈالو میرے ساتھ ایسی شرط لگا نے کی کو شش نہ کرو اگر آپ زیا دہ اصرار کر وگی تو انشا ء اللہ میں اِس آزما ئش میں بھی پورا اتروں گا۔
کاش آپ میری زندگی ما نگتیں تو سوچے سمجھے بغیر ہی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آپ کو پیش کر دیتا اور میں اپنی جا ن خو شی خو شی دے دیتا لیکن جو با ت آپ کر رہی ہو وہ میرے بس میں ہی نہیں ہے میں کسی بھی چیز اور رشتے کو قبو ل نہیں کروں گا جو میرے اور میرے مرشد اور خدا کے درمیان آنے کی کو شش کر ے اگر میرے گلے میں پھا نسی کا پھند ہ ڈال کر پو چھا جا ئے کہ زندگی یا مرشد تو میں زندگی ہنستے ہنستے دے کر مرشد کی غلا می گلے میں ڈالوں گا ۔ بلھے شاہ کی مستقل مزاجی اور ضد دیکھ کر بہنیں اداس واپس چلی گئیں اب با پ نے بھی بہنوں کو کہہ دیا کہ بلھے شاہ اپنے مرشد اور خدا کے عشق میں اتنا غرق ہو چکا ہے کہ اب دنیا داری اور رشتہ داریاں اُس کے لیے کچھ بھی معنی نہیں رکھتیں اب بلھے شاہ کے گھر والوں رشتہ داروں اور عزیز اقارب نے بلھے شاہ کو اُس کے حال پر چھو ڑ دیا بلھے شاہ مرشد کے عشق کی ایک اور گھا ٹی بھی استقامت سے سر کر چکا تھا بلھا واقعی ہی میں فنا فی الشیخ کے مرتبے پر فا ئز ہو چکا تھا بلھا اپنا آپ بھو لنے کے بعد اب رشتہ داری کی زنجیروں سے بھی خو د کو آزاد کر چکا تھا مرشد اور حق تعالیٰ ہی مرشد کے لیے اول آخر تھے شادی مذہبی فریضہ ہے بلھے شاہ مانتے بھی تھے لیکن وہ اپنے آزاد مزاج کی وجہ سے اِس زنجیر کو پا ئوں کی بیڑی نہیں بنا نا چاہتے تھے بلھے شاہ بہنوں کا خیا ل کر کے اکثر یہ شعر پڑھا کر تے تھے۔
بلھے نوں سمجھا ون آئیاں بھینا ں تے بھر جائیاں آل نبی اولاد نبی دی توں کیوں لیکاں لائیاں
بلھے شاہ معرفت ِ الٰہی عشق حقیقی مشاہدہ حق پا نے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ چکا تھا منزل پا نے کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربا نی خو شی سے دینے کو تیار تھا وہ مجبوریوں اور رشتہ داریوں کی تمام زنجیروں سے آزاد ہو چکا تھا۔
PROF MUHAMMAD ABDULLAH KHAN BHATTI SB
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org