تحریر : عتیق الرحمٰن ہمارا معاشرہ اپنی اخلاقی قدریں کھو چکا ہے علمی و مادی ترقی کے باوجود اخلاقی تنزل کہ بچوں سے زیادتی جیسا مکروہ فعل کرتے ہوئے بھی لوگ نہیں ڈرتے۔ ہمارے مجموعی معاشرتی رویے میں اخلاقی قدریں، معاف کر دینے کی ہمت اور دوسروں کو مان لینے کی برداشت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ انسان نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور اپنی خواہشات اور ہوس میں اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ انکو 8 سالہ معصوم زینب بھی جنسی تسکین کا ذریعہ دکھائی دیتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ 2016 کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے، گذشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی سمیت اغوا، گمشدگی اور جبری شادیوں کے 4139 کیس رجسٹرڈ ہوئے اور یہ تعداد 2015 کے مقابلےمیں دس فیصد زیادہ ہے۔
2016 میں بچوں کے خلاف کیے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے اُن میں اغوا کے 1455 کیس، ریپ 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی 453 کیس، گینگ ریپ 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔ ان واقعات میں سب سے زیادہ سنگین جرم زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کا قتل ہے۔ 2016 میں جنسی حملوں کے بعد قتل کے کُل 100 واقعات سامنے آئے۔
اس سال کے آغاز میں ایسا ہی دل ہلادینے والا واقعہ قصور کی معصوم زینب کا ہے قصور کی سرزمین پر یہ سال میں ہونے والا بارواں واقعہ ہے۔ زینب جو کہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ گھر سے قرآن پڑھنے نکلی تھی، گھر سے نکلتے ہی معصوم زینب نے چھوٹے بھائی کی انگلی چھڑائی اور ایسی گئی کہ وہ اب کبھی لوٹ کے نہیں آئے گی۔
اس واقعہ نے جہاں ہر درد دل رکھنے والے پر گہرے اثرات مرتب کئے اسی طرح زینب کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور سامنے آنے والی تصاویر نے مجھے جھنجھوڑکے رکھ دیا۔ یہ واقعہ میرے لیے اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ میں وہ پہلا شخص تھا جس نے سوشل میڈیا کی سائیڈ ز، ٹوئیٹر اور فیس بک پر انصاف کے لیے آواز اٹھائی۔ پیر کو تقریبا رات 9.00 بجے مجھے قصور میں رہنے والے دوست نوید احمد کا میسج آیا اور انہوں نے اس واقعہ کے بارے میں بتایا، میں نے ان سےتفصیل مانگی تو انہوں نے بتایا کہ وہ محترم امین انصاری صاحب ( زینب کے والد ) کے محلے میں ہی رہتا ہے اور اس وقت بچی کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی ہے جسےپانچ دن قبل اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا گھونٹ کے موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا وہ اور محلے کے دیگر افراد مظاہرہ کررہے ہیں دوست سوشل میڈیا پر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا مطالبہ کررہا تھا میں نے دیگر زرائع سے اس واقعہ کی تصدیق کی اور سوشل میڈیا پر کام کرنے والے پاکستان عوامی تحریک کے ذمہ دار افراد جو کہ پاکستان اور بیرون ملک رہتے ہیں رابطہ کیا تمام احباب نے اس ظلم پر آواز بلند کرنے کا عزم کیا، رات 9.30 بجے ہم نے #JusticeForZainab کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئیٹر اور فیس بک پر تمام محب وطن پاکستانیوں سے التجا کی کہ اس واقعہ پر آواز بلند کرنے میں ہماری مدد کریں ، چند گھنٹوں میں یہ خبر پاکستان میں ہر سو پھیل چکی تھی میڈیا ، ہر سیاسی و مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے اور سول سوسائٹی کے اہم افراد نے اس واقعہ پر غم و غصہ کا اظہار کیا۔
دنیا جدید ایجادات کی وجہ سے سکڑ گئی ہے اور اس گلوبل ویلج میں سوشل میڈیا نے پیغام کو عام کرنے کی سمت میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے دنیا کی طرح پاکستان میں بھی عوام اپنے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کررہی ہے زینب کے ساتھ ہونے والا یہ واقعہ اس کی زندہ مثال ہے جس پر ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس واقعہ نے حکومت کی ناکامی کو ایک بار پھر آشکار کردیا، عوام جو کہ اس انسانیت سوز واقعہ پر اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے پولیس نے ماڈل ٹاؤن کی طرح نہتے عوام پر سیدھی گولیوں کے فائر کئے جس سے تین قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور مظاہروں میں مزید شدت آگئی۔
زینب کے والدین عمرہ کی آدائیگی کے لیے پاکستان سے باہر گئے ہوئے تھے اور حکومت کی بے حسی کی وجہ سے اپنی بیٹی کی نماز جنازہ ادا نہیں کرسکے کیوںکہ کوئی فلائیٹ میثر نہیں تھی وہ مملکت پاکستان کے حکمران نہیں تھے جن کے لیے اسپیشل طیارہ فراہم کیا جاتا کہ انکے ساتھ ظلم ہونے والے ظلم کا کچھ مداوا ہوتا ۔ زینب کے والدین بدھ کی شام اسلام آباد سے ہوتے ہوئے لاہور ائیر پورٹ پر پہنچ گئے ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے زینب کی نماز جنازہ ادا کردی ہے والدین اس وقت تک تدفین کے لیے تیار نہیں جب تک ملزمان کو گرفتاری نہ ہوجائے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ پھول جو کہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد زینب نے اپنے والدین کو پہنانے تھے وہ اب زینب کی قبر پرچڑھائے جائیں گے۔
زینب کے لیے انصاف کی آواز جو کہ چند لوگوں کے درمیان مشاورت سے شروع ہوئی اسے سوشل میڈیا بلخصوص ٹوئیٹر نے پوری دنیا میں پہنچادیا، اور یہ آواز اس وقت دنیا کے ٹوئیٹر ٹرینڈ میں موجود ہے اس سلسلے میں عوام نے ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا اور پاکستان کی بیٹی کے لیے ایک ہوکر آواز اٹھائی۔ اگر عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اسی طرح ہم آواز ہوکر اٹھے تو پھر کوئی اور زینب درندگی کا نشانہ نہیں بنے گی۔