تحریر : شیخ خالد زاہد آج صبح گھر سے دفتر کیلئے آتے ہوئے اسکول جاتے ہوئے معصوم بچوں پر جب جب نظر پڑ رہی تھی دل پر ایک خراش پڑھ رہی تھی۔ قصور میں ہونے والے واقع کی تحقیق یا اسکی گہرائی میں جانے کی مجھ میں سکت نہیں ہے اور نا ہی مجھے اس واقع کے سیاق و سبق سے کوئی واسطہ ہے، میرا اس سے واقع سے بہت گہرا واسطہ ہے جس کے باعث گزشتہ شب بیداری کی نظر ہوکر گزر گئی، در اصل میری بیٹی کا نام بھی زینب ہے اور اس نام کا تعلق ہمارے پیارے نبی ﷺ کے گھیرانے سے بہت گہرا ہے۔ میری خواہش تھی کے میرے پاس اتنا اختیار ہوتا کہ میں پاکستان بھر کے اسکول آج احتجاجاً بند کروا سکتااور زینب کے خاندان والوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کر سکتا دوسرا یہ کہ ارباب اختیار تک یہ بات پہنچاسکتا کہ زینب صرف قصور کی ہیں پورے پاکستان کیلئے کتنی اہم ہے۔
یہ انسانیت سوز سلوک زینب کیساتھ نہیں ہوا ہے اور نا ہی اس واقع کا ذمہ دار قصور شہر ہے یہ واقع پورے پاکستان کے ساتھ ہوا اور پورا پاکستان اس واقع میں زینب کے قتل میں برابر کا شریک ہے ۔ یہ اس معاشرے کیساتھ ہوا ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے خود ہی قانون شکن ہوں قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہوں ۔ کیا قانون اتنا اندھا اور بہرا ہے کہ ابھی سرزد ہونے والے واقع میں ملوث افراد کو گرفتار نہیں کرسکا۔یہ بات حق ہے کہ معاشرے ہر برائی کیساتھ چل سکتے ہیں مگر انصاف کے بغیر نہیں چل سکتے ۔ واقع کو چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی ٹیلی میڈیا پر چلتی پٹیوں میں یہ پڑھ کر کہ ہمارے قانون کے اعلی ترین حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ مجرم کو کٹہرے میں لاکر قرار واقع سزا دی جائے گی۔
دیجئیے دھرنے نکالئے جلسے جلوس اور مفلوج کردیجئے نظام زندگی ، ایک معصوم سی زندگی آپ کو یہ سب کرنے کیلئے ، اس بڑھ کر اپنی اپنی سیاست کی دکان چمکانے کیلئے اپنی زندگی کا نظرانہ دے کر چلی گئی ہے ۔ درندگی کی مثال قائم کرنے والا قصور شہر میں ہی ہوگا بلکہ قصور کے کسی مخصوص علاقے میں ہی ہوگا اور یقیناًکسی کی پناہ میں ہوگا نہیں تو اپنے گھر میں ہی روپوش ہوگا ۔ کیا یہ اس علاقے میںیا پورے قصور میں صرف ایک ہی زینب رہتی تھی اب کوئی اور زینب نہیں رہتی ، یہ کیسے زینب کے تعلق دار ہیں یہ کیسے زینب کے چچا ، ماموں ، بھائی اور باپ ہیں کہ وہ اپنی اپنی زینب کی زندگی کیلئے اس درندہ صفت انسان کو جو قطعی کسی بھی قیمت پرقابل معافی نہیں ہے اسے پکڑکرکیوں نشان عبرت نہیں بنادیتے یا قانون کے حوالے نہیں کرتے ۔ ایسے شخص پر فرد جرم عائد کی جائے اور یہ فیصلہ عوامی عدالت میں سنایا جائے، اول تو اسے رب کائنات کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق سنگسار کیا جائے یا پھر اسے سر عام پھانسی دی جائے اور ایسی جگہ پر جہاں دنیا جہان کا ہر قسم کا میڈیا موجود ہو۔ایسی سزا کے تاریخ میں جلی حروف میں لکھا جائے کہ اب ایسا کرنے والے کیساتھ یہ سلوک کیا جائے گا۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہوپاتا اور رودھوکر سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں یاپولیس ڈرا دھمکا کر لواحقین کو گھروں کو روانہ کردیتی ہے تو پھر یقین رکھئیے کہ ہم نے اللہ کے عذاب کو دعوت نامہ بھیج دیا ہے اور جب یہ عذاب آئے گا تو اس جرم کی پاداش میں ہم سب سزاوار پائیں گے، گیہوں ہو یا گہن سب پسے گا۔ یہ سب اٹل حقیقت ہے۔
ہم کسی ایسے جرم کی ذمہ داری کسی ایک کے کاندھوں پر نہیں لاد سکتے ، ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں کم از کم اپنی نسلوں کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری خود ہی اٹھانی پڑے گی، اسکولوں اور ٹیوشن سینٹروں میں دی جانی فیسوں کے ساتھ اب انکے تحفظ کی بھی فیس شروع کئے جانے کا امکان روشن ہوچکا ہے ۔ ہم لوگ اخلاقیات کی قدروں سے انحراف کرنے کی سزا ضرور بھگتینگے، ہم خود کو مشرق سے مغرب میں منتقل کرنے کی سزا ضرور بھگتنینگے۔ ہم بے راہ روی کو سماجی ترقی کا نام اور ساتھ دینے کی سزا ضرور بھگتینگے۔ ہم گھر وہی رکھنے اور پتے بدلنے کی سزا مجھے یقین ہے کہ یہ مضمون مجھ جیسے بہت سارے افراد کے جذبات کی عکاسی کر رہا ہے کیونکہ میں بھی ایک زینب کا باپ ہوں۔
گو کہ میں معاشرے کی گندگی صاف کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوں مگرجیتا جاگتا انسان ہونا مجھ سے تکازہ کرتا ہے کہ اس نگاہ سے پوشیدہ اور حد نگاہ تک پھیلی ہوئی گندگی اور انتظا میہ کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا چلوں اور معاشرے کو اسکی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا چلوں ،جسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شائد میرا ضمیر اتنی گھٹن ذدہ آب و ہوا میں ابھی تک سانس لے رہا ہے ۔میں قلم کے ہتھیا رسے کسی کی گردن تو نہیں کاٹ سکتا مگر اسے اسکے جرم کا احساس تو دلا سکتا ہے ۔ میں تمام قلمقاروں سے دردمندانا اپیل و درخواست کرونگا کہ اس واقع کو اس وقت تک زندہ رکھنیگے جب تک ایسے جرم کا خوف معاشرے کے ایسے عناصر کے دل میں کھب نا جائے ۔ہمارا یہ اقدام شائد ارباب اختیار کے دلوں میں عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے بھی خاطر خواہ کوششوں میں اضافہ کا سبب بن سکے۔ مصطفی زیدی صاحب نے اس معاشرے کی بے حسی کو کس خوبصورتی سے درجہ ذیل شعر میں بیان کیا ہے جس پر میں اپنا گریہ بھی تمام کرونگا کہ
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں داستانے