تحریر : عابد علی یوسف زئی پاکستان میں معصوم بچوں کو ہوس کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں۔ آئے روز جنسی استہسال کی خبریں اخباروں کی زینت بنی ہوتی ہے۔ معصوم کلی زینب کی موت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ نجانے کتنی خواتین اپنی عزتیں گنواچکی ہیں، کتنی کلیوں کو مسل کر مارا جاچکا ہے۔ یقینا ان سب کی وجہ اسلامی قوانین کی مخالفت ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ اسلام کی رو سے زنا کیا ہے اور اس کی شریعت نے کیا سزا متعین کی ہے؟
زنا ایک عربی اصطلاح ہے جس سے اسلامی قوانین میں مراد ایک ایسے جماع (sexual intercourse) کی لی جاتی ہے جو اپنے وقوع میں قبل ازدواجی ہو۔ چونکہ زنا اپنے حیاتیاتی معنوں میں جماع ہی ہے اور زنا کی تعریف کے مطابق مرد کے قضیب (penis) کا عورت کے مہبل (vagina) میں ادخال ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا بیان سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ عربی اصطلاح زنا میں دونوں مفاہیم شامل ہیں۔ اول قبل ازدواجی (fornication) جماع جو نکاح (شادی) سے قبل یا غیرشادی شدہ افراد کے مابین واقع ہو اور دوم بیرون (غیر) ازدواجی (adultery) جماع جو اپنے غیرمنکوحہ (مرد یا عورت) سے کیا جائے۔ گو کہ دونوں صورتوں میں یہ زنا (جماع) ہی ہے لیکن پہلی صورت میں اس گناہ کی سزا قرآن کی رو سے سو(100) کوڑوں کی شکل میں اور دوسری صورت میں اس گناہ کی سزا احادیث کی رو سے رجم کی شکل میں بتائی جاتی ہے۔
غیرازدواجی زنا کی سزا رجم کا ذکر احادیث میں آتا ہے لیکن قرآن میں زنا کی سزا کے طور پر اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سزا کی موجودگی قرآن سے ثابت نہیں ہے۔ رجم پر آج بھی مسلم دنیا میں متنازع افکار پائے جاتے ہیں جبکہ غیرمسلم دنیا میں مسلم علماء کی جانب سے بھی رجم کی سزا کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی کوئی فرد رجم کی سزا دینے کا مستحق قرار دیا جاتا ہے۔ پتھروں سے مارنے کے عمل (رجم) کا ذکر ناصرف اسلامی ، بلکہ قدیم یونانی ، یہودی اور عیسائی دستاویزات میں بھی ملتا ہے۔
زناشرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور اسلام میں اس کے مرتکب کے لئے سخت سزائیں متعین کی گئی ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ قتل کے بعد زنا سے بڑھ کر کوئی اور گناہ ہو۔مسلم علماء زنا کی تعریف کے بارے میں مختلف سطحوں کا نظریہ پیش کرتے ہیں اور اس لحاظ سے کوئی بھی ایسا فعل کہ جس میں جنسی تسکین حاصل ہوتی ہو وہ زنا میں شمار ہو جاتا ہے۔ ان افعال میں بوسہ، مخالف جنس کو چھونا، جنس دہن حتٰی کے مخالف جنس کی جانب دیکھنا یا جنسی خیالات رکھتے ہوئے اس کے قریب ہونا بھی زنا میں شمار کیا جاتا ہے۔ علماء کے مطابق کچھ زنا ایسے ہیں جن پر کوئی سزا (عام حالات میں) نہیں دی جاتی۔ جبکہ وہ زنا جس پر سزا نافذ ہوتی ہے اس کی قانونی تعریف وہی ہے جوپہلے ذکر کی جاچکی ہے یعنی عورت اور مرد کے جنسی اعضاء کا ایک دوسرے میں داخل ہونا۔ اس قسم کے زنا کے علاوہ دیگر اقسام کے زنا پر اگر فحاشی یا حرام کاری کی سزا ہو بھی تو وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَی ِنَّہُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِیلاً زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یہ بے حیائی اور برا راستہ ہے ۔ الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ زانیہ اور زانی، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں، سوسو کوڑے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ شادی شدہ مرد اور عورت زناکریں تو دونوں کو سنگسار کردو یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے۔ زانی ایمان کی حالت میں زنا نہیں کرتا ( یعنی جب وہ زنا کرتا ہے تو ایمان سے خالی ہوجاتا ہے)۔
اسلامی معاشرہ کی پاکیزگی کی حفاظت کرنا،ہرمسلمان کی عزت، نفس اور روح کی طہارت باقی رکھنا اوراچھے نسب کے لوگوں کو ملاوٹ کی غلاظت سے محفوظ کرنا زنا کی حرمت کی حکمت ہے۔
زنا کرنے والا مسلمان، عاقل اور بالغ ہو جس نے یہ جرم اپنے اختیار سے کیا ہو اور جرم کے لئے اس پر کوئی زبردستی نہ کی گئی ہو اس پر حد قائم کیا جائے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: 3 قسم کے لوگوں کا کوئی عمل نہیں لکھا جاتا نابالغ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔ سویا ہوا جب تک بیدار نہ ہو جائے۔ مجنون جب تک ٹھیک نہ ہو جائے۔
یعنی نابالغ سے ان گناہوں کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا جن کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے ۔ جن گناہوں کا تعلق بندوں کے ساتھ ہے مثلاً قتل ، چوری وغیرہ تو ان گناہوں کے متعلق نابالغ سے بھی باز پرس کی جائے گی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ میری امت کی بھول چوک اور جس چیز پر وہ مجبور کئے جائیں معاف کردیا گیا ہے ۔
رجم کا طریقہ کار یہ ہے کہ زمین میں گڑھا کھودا جائے۔ زانی کو اس میں کھڑاکرکے،سینہ تک اس کو مٹی سے دبادیاجائے اور پھر پتھر مارے جائیں۔ یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ یہ کارروائی امام اورمسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے کی جائے۔ فرمان الٰہی ہے : (ترجمہ) اور ان کی سزا کے وقت ایمان والوں کی ایک جماعت حا ضر ہونی چاہئے۔ رجم کے بارے میں عورت اور مرد کا حکم برابر ہے۔ البتہ عورت کے کپڑے باندھ دیے جائیں تاکہ وہ بے پردہ نہ ہو ۔
آج اگر معاشرے میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا تو کسی بھی زینب کو نہ مسلا جاتا۔کسی پاکدامن خاتون کی عصمت دری نہ کی جاتی۔ اگر ضرورت ہے تو صرف اور صرف اسلامی نظام کی نفاذ کی۔