تحریر: سجاد علی شاکر:لاہور والدین کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے محبت کے ایسے خزانے رکھ دیئے ہیں جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتے، اُولاد فرمابردار ہو یا گستاخ والدین شفقت کی برسات کرتے ہی چلے جاتے ہیں، اُولاد بوڑھی بھی ہو جائے تب بھی والدین اُسے بچوں کی طرح لاڈ لڈاتے رہتے ہیں ،راقم والدین کی شان بیان کرنے کے قابل نہیں کیونکہ والدین کی شان کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔بس اتنا کہوں گاکہ اگر والدین کی قدر پوچھنی ہے تو اُن سے پوچھو جو ان عظیم ہستیوں کی شفقت سے محروم ہیں۔
آپ نے یہ مشہور کہاوت تو ضرور سنی ہو گی کہ جس کی ماں مر جائے اس کا باپ بھی مر جاتا ہے۔اللہ نہ کرے کہ کو ئی بچہ ماں جیسی عظیم ترین نعمت اور محبت و شفقت سے محروم ہو ہم ساری عمر بھی ما ںکی خدمت کرتے رہیں۔اور پھر سیاست دانوں کی طرح اپنے ہاتھ ہوامیں لہرا کرکہیں کہ ہم نے ما ںکا حق ادا کر دیا ہے۔تو میرے خیال میں یہ ماں کی شان میں بہت بڑی گستاخی ہو گی۔اس ضمن میں یہ بات اس حدیث مبارکہ سے عیاں ہوتی ہے (مفہوم)ایک شخص نبی کریمۖکے پاس آس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول ۖ!میری ماں نہایت بوڑھی ہے ۔اور حرکت نہیں کر سکتی میں اسے یمن سے اپنی پیٹھ پر سوارکرکے لایا اور حج کروایا۔اسے اپنی پیٹھ پر سوار کر کے بیت اللہ کا طواف کرایا صفاو مروا کے درمیان سعی کی۔
غرض سارے ارکان ادا کیے تو کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا ؟آپۖنے فرمایا۔’نہیں ۔’اس شخص نے پوچھا اے اللہ کے پیا ر ے حبیب ۖوہ کیسے؟آپۖنے فرمایااس لیے کہ اس نے تمہارے بچپن میں تمہارے لیے ساری مصیبتں صرف اس تمنا کے ساتھ جھیلیںکہ تم زندہ رہو۔اور تم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا محض اس لیے کیا کے تم اس کے مرنے کی تمنا رکھتے ہو۔ہمیں آپۖکا فرمان مبارک یاد رکھنا چاہیے کہ ‘اللہ نے تم پر مائوں کی نافرمانی اور حق تلفی حرام قرار دی ہیں۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہم والدین کے ساتھ حسن سلوک اس لئے نہیں کرنا کہ اُن کے احسانات کا بدلہ چکتا ہوجائے بلکہ ہمیں اپنے والدین کی خدمت،فرمابرداری اور احترام اس لئے کرنا چا ہئے کہ جب والدین راضی ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہم پر راضی ہوگیا تو سمجھو ہم دنیا و آخرت کی عزت پاجائیں گے ۔اکثر دوست والدین کی چھوٹی موٹی ناراضگی کو وجہ بناکر سمجھنے لگتے ہیں کہ اُن کے والدین اُن سے مال و دولت کی تمنا رکھتے ہیں حتیٰ کہ ایسا ممکن ہیں نہیں ،والدین کی محبت مال و دولت کی محتاج ہو توپھر وہ اپنی جوانی کے بہترین دن و رات اپنے اُولاد پر خرچ کرنے کی بجائے دنیا کا مال و متا جمع کرنے میں گزارتے ،جو دوست آج اس وجہ سے اپنے والدین کے قریب نہیں جاتے کہ اُن کے خیال میں والدین اُن سے مال و دولت کی تمنا رکھتے ہیں تو اُن کی خدمت میں سوال عرض ہے کہ جب وہ بالکل ننگے اس دنیا میں خالی ہاتھ آئے تھے تب کتنے پیسے دے کر والدین کی محبت ،خدمت اور خالص پن خریدہ تھا؟ ماںنے جو تکالیف اُن کے پیداہونے سے پہلے اُٹھائی تھی اُس کی کتنی قیمت ادا کی تھی۔
جب رات کو اپنا بستر گیلا کرلیا تھا تو ماں کوسوکھی جگہ تجھے دے کر خود تیری گیلی کردہ جگہ لیٹنے کی فیس کس نے ادا کی تھی؟تو ذرہ سا گِر کیا گیا، ماں تیری ساری بلائیں اپنے سر لے لیا کرتی تھی جو آج بھی لیتی ہے ،اُن بلائوں کو اپنا خون کون پلاتا ہے۔
باپ تیرے کھانے،پینے اور پہننے کا انتظام کرنے کی غرض سے کڑی دھوپ میں مزدوری کیا کرتا تھااُس احسان کا بدلہ کس طرح چکا سکو،کیا آج تیرے پاس اتنی دولت موجود ہے کہ والدین کی جوانی کے دن خرید کر دے سکو جو اُنہوں نے تیرے بچپن پر قربان کر دیئے؟ میں صدقے جائوں اُن اللہ والوں پر جو آج کے نفسانفسی بھرے دور میں بھی ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک ،خدمت، فرمابردای اور اُن کے ہاتھ ،پائوں چومنے کا درس دے رہے ہیں۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر: سجاد علی شاکر:لاہور sajjadalishakir@gmail.com 03226390480