تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم جل شانہ کی بے پناہ حمد و ثناء اور ذات کبریا جناب محمد رسول اللہ پر دروو سلام کے ان گنت نذرانے پیش کرنے کے بعد آج قصور کے انتہائی ناخوشگوار اور دل ہلا دینے والے واقعہ پر عزیزی یوسف سعیدی کے ساتھ ایک بھرپور نشست ہوئی جس میں ہمارے سیاست دانوں کے بیانات اور اپنی اپنی سیاسی نیوز کانفرنسز پر بات ہوئی جو من وعن نظر قارئین ہے۔
اللہ کریم نے حضرت انسان کو اپنا نائب اور پوری مخلوقات میں سے اشرف ہونے کا تاج پہنا کر زمین پر بھیجا اور جب شیطان مردود کو بارگاہ خداوندی سے راندہ ء درگاہ کیا گیا تو اس نے حیات ابدی طلب کرکے اللہ کریم کو برملا کہا کہ میں قیامت تک تیرے بندوں کو تیرے خلاف کرتا رہونگا اللہ کریم اپنے خاص بندوں کو اس شر سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا وطن عزیز ملک پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے مگر صد افسوس کہ اس کی باگ ڈور آج تک اسلام اور اسکے احکامات سے ناواقف لوگوں کے ہاتھ میں ہی ہے اور جانے کب تک رہے گی معاشرہ میں اسلامی اقدار اور قوانین پروان نہ چڑھ سکیں ہر حکمران نے صرف اپنے فائدے کے لیے وہ قانون بنائے جس سے اسکی دولت محفوظ رہے اور اسلام اور پاکستان کا اللہ مالک ہے جرم کرنے والے کو اگر اس بات کا ادراک ہو کہ اسے جرم پر سزا ملے گی تو معاشرہ کوئی بھی ہو جرائم نہیں ہوتے مگر یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے مجرم اتنی دیدہ دلیری سے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جیسے وہ اس بات سے واقف ہو کہ اسے کوئی پوچھنے والا موجود ہی نہیں۔
ننھی پری زینب جسے والدین دیار حبیب ۖ میں حاضری کے شرف سے بہرہ مند ہورہے تھے وہ شیطان کا شکار ہوگئی مجھے اس شخص کو انسان لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اس معصومہ کے ساتھ جو ہوا آزاد میڈیا کی بدولت پورے ملک کو علم ہے مگر اس واقعہ پر ہمارے اوپر مسلط سیاسی شعبدہ بازوں نے اپنی اپنی دوکانیں کھول لیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی وہی روش اپنائے ہوئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کسی بھی معاشرہ کی کامیابی کے لیے اسکے تین بنیادی ستون عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ ہی اہم تصور کیے جاتے ہیں افسوس کہ وطن عزیز میں یہ تینوں ستون اپنی اپنی جگہ پر موجود نہ رہے کوئی اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرگیا تو کوئی گردشوں کا غلام بن گیا ہماری عدلیہ کے ایک جج نے چینی کے بھائو پر خود کار ایکشن لے لیا تھا مگر اس کے دور میں بھی ایسے واقعات ہوئے مگر موصوف نے مقننہ سے کوئی ایسا مربوط اور مضبوط قانون نہ بنوایا جس سے آئندہ ہم یہ دن نہ دیکھتے اور ہماری مقننہ تو پچھلے تیس سال سے ہمارے لیے سڑکیں پل موٹر وے اور میٹرو ٹرین جیسے بے مثال منصوبے بنانے میں مصروف ہے۔
باقی رہ گئی انتظامیہ تو اس اسلامی ریاست میں ہر حکمران نے اسے اپنی باندی بنائے رکھا طبقہ اشرافیہ کے دروازوں پر بیٹھے پولیس اور دیگر محکموں کے جوان اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ پاکستان صرف وہی ہے جسکا وہ پہرہ دے رہے ہیں ہونا یہ چاہیئے تھا کہ سیاسی دوکانداریاں چمکانے کے بجائے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اسلامی احکام کو سامنے رکھ کر کوئی ایسا قانون بنا دیا جاتا جس سے آج قصور کا واقعہ نہ ہوتا آج شیخ رشید صاحب بھی ن لیگ کو برا کہنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے میرا ان سے سوال ہے کہ وہ جب اس ٹیم کے نائب کپتان تھے تو تب کتنے قوانین ایسے بنائے ؟ عمران خان پولیس کی بھرتیوں میں رشوت کا رونا رو رہے ہیں بھرتیاں تو ہو گئیں مگر کوئی قانون تو ہو جسکے تحت پولیس کو یہ خوف ہو کہ اگر ملازمین نے کام نہ کیا تو سزا ہوگی ۔ہمارے ہر محکمہ میں اب کرپشن کا راج ہے۔
معطل ہونے والے ملازمین چند دن بعد اکٹھی تنخواہیں اور پہلے عہدے سے بڑا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ایک حوالدار معطل ہو کر چھ ماہ بعد اے ایس آئی بن کر بحال ہوتا ہے اس ریاست میں پولیس تب تک ملزم کے خلاف ہوتی ہے جب تک وہ ہتھے نہیں چڑھ جاتا جب ملزم پکڑا جائے تو تفتیشی افسر کی مہربانی سے وہ علاقہ کا سب سے معزز بندہ بن کر باہر آجاتا ہے یہاں مقدمات کی دفعات کا بھائو لگتا ہے انصاف کے ترازو میں کرنسیاں ڈالی جاتی ہیں اور قاضی کے عہدے پر اس شخص کو بٹھانے کی کوشش ہوتی ہے جو حکمرانوں کے سیاہ سفید پر انگلی نہ اٹھائے یہ سب ہماری سزا ہے اللہ سے دور ہونے کی اسلام سے دور ہونے کی اور ایسے نمائندے منتخب کرنے کی جنہیں اللہ اور اسکے رسول ۖ سے رتی بھر بھی پیار نہ ہو آج بھی ہم تائب ہوجائیں تو وہ اللہ ہر شئے پر قادر ہے وہ ہمیں ایسے حکمران بھی عطا فرما دے گا جو قوم کی ہر زینب کو اپنی سگی بیٹی سے بھی عزیز سمجھے گا اور کسی شیطان کو یہ جرات نہ ہوگی کہ وہ حکمران کی بیٹی کو بری نظر سے دیکھے تب تک حوا کی بیٹیوں کا حشر کبھی قندیل بلوچ کی شکل میں بے راہ روی کا شکار ہونے والی اور کبھی اپنی معصومیت سے زینب کی طرح درندگی کا شکار ہونے والی پری کی طرح ہوتا رہے گا۔
والسلام ۔وے بلھیا تو اج مرگیا ،،،تیری قبر نہ وجے ڈھول،،،،تیرے شہر قصور دے شمراں اج اک زینب دتی رول