تحریر : ناز بٹ انڈین امیگریشن آفس میں جامہ تلاشی کی دوران رخسانہ نورکو دیر ہوگئی ، اچانک ہی رخسانہ نورکی ہلکی سی سرگوشی” کینسرہے سرجری ہوئی تھی ” سے میں جیسے پتھر کی سی ہوگئی ،سماعت پر یقین نہ آیا ۔اضطراری کیفیت میں فرحت کی طرف نظر اٹھی تو انکی نظریں بھی یہی استفسار کر رہی تھیں۔ فرحت نے رخسانہ کے باہر نکلتے ہی آہستگی سے کچھ پوچھا “یو نہی کنفیوز ہو ر ہی تھی بیچا ر ی میر ی کینسر کی سرجر ی ہو چکی ہے نا “رخسانہ نے بہت ہولے سے سرگوشی کی۔میری آنکھیں دْھندلا گئیں ، سانسیں جیسے رکنے سی لگیں چہرہ دوسری طرف کر لیا مْبادارخسانہ نورنہ دیکھ لے۔یہی وہ پل تھا کہ جس پل رْخسانہ نور سے درد کا رشتہ استوار ہو گیا۔
پانچ دن ہم لدھیانہ میں رہے کانفرنس ، مشاعرہ ، دعوتیں ، ملاقاتیں اور ہنستی مسکراتی، قہقہے لگاتی رخسانہ نور ۔ یہ گمان بھی نہ گزرتا تھا کہ اس نے اپنے اندرروگ بھی پالے ہوئے ہیں۔ واپس آئے تیسرا دن تھا کہ رخسانہ کی کال آگئی” دیکھو میں تمہیں آج سے نازنہیں نازو کہوں گی ، تم مجھے بہت عزیز ہوگئی ہو۔ رخسانہ اکثریہ قول دہرایا کرتی تھیں کہ “جس کو پرکھنا ہو اس کے ساتھ سفر کر کے دیکھو” نازو میں نے تمہیں سفر میں پالیا ہے، تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ تم مجھے کتنی پیاری ہو۔ ہرگزرتا لمحہ مجھے رخسانہ نور کی محبت کا اسیر کرتا گیا۔
امریکہ میں کینسر نے انہیں پھر جکڑ لیا ،لاہورواپس آئیں تو کیمو پر تھیں، انہیں جب پتہ چلا کہ پاؤں سلپ ہونے سے میری ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی اورمیں ایک ماہ سے بستر پر ہوں تو وہ اپنی تکلیف کو پسِ پْشت ڈال کرمیری دلجوئی میں لگ گئیں ۔ مجھے انکی فکر تھی اور انہیں میری۔ اپنی تکلیف کو وہ ہنسی میں ٹال جاتی تھیں لیکن میری تکلیف پر وہ تڑپ جاتی تھیں۔ ” نازو میں بالکل ٹھیک ہوں ، مجھے تیری بہت فکر ہے، میں تو دنیا دیکھ چکی ، تْونے ابھی کچھ نہیں دیکھا ” میں اس محبت پر حیران رہ جاتی تھی۔
وقت اچھا یا ب بُرا، گزر ہی جاتا ہے لیکن تکلیف دہ لمحات میں چونکہ حساسیت عروج پر ہوتی ہے سو روّیے اچھے یا برے دل پر نقش ہو جاتے ہیں۔ بہت مضبوط نظر آنے والی رخسانہ نور ٹوٹ بھی جایا کرتی تھی۔ دوستوں کے نظرانداز کرنے پروہ بہت تکلیف محسوس کرتی تھیں ، انہیں یہ لگتا تھا کہ دنیا کو ان کی ضرورت نہیں کئی بار اظہار بھی کیا، ” نازو میں جن کو ساری زندگی اپنا سمجھتی رہی وہ میرے اپنے نہیں”۔ کبھی ان کی آواز بھرا جاتی ” ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا نازو یہ دنیا ہمارے بغیر بھی اسی طرح چل رہی ہے ، سب محفلیں پہلے کی طرح سجی ہیں ” ۔
گلہ بھی تھا کچھ دوستوں سے انہیںکہ شائد اْن کی بیماری منتقل ہوجانے کے خوف سے وہ انکی خبر گیری کے لئے نہیں آئے ، میں انہیں ان کی اہمیت کا احساس دلاتی رہتی تھی کہ “آپ نے ٹھیک ہونا ہے سب کو ضرورت ہے آپ کی ، مجھے بھی آپ کی ضرورت ہے آپ کی ” رخسانہ کی محبتوں کو لکھنے بیٹھوں تو شاید کتاب ہی لکھ دوں ، وہ ماں تھی ، بہن تھی کہ دوست،میں سمجھ نہ پائی ، میرے لئے دھوپ چھاؤں کا یوں احساس رکھتی تھیں جیسے کوئی ماں اپنے بچے کا امی آغا خان میں ایڈمٹ ہوئیں اور میں کئی دن رخسانہ نور کا فون نہ سْن سکی ، میری اداسی ، میری چپ کو بھانپ گئیں اورمجھے آڈیو بھیجی ، اس قدر محبت اور درد ان کی آواز میں جیسے ماں کسی چھوٹے سے بچے کو لوری دیتی ہو “نازو نازو نازو، میری پیاری نازو ” آنکھیں چھلک گئیں انکی محبت پر اور جیسے ہی میں نے انہیںفون کیا دوسری جانب سے رخسانہ نور کی محبت بھری لوری ” نازو نازو نازو…میری پیاری نازو ” ان کی آواز بھیگ رہی تھی اور میری آنکھیں ۔ ٧ اکتوبر کو مجھے کہا ” “نازو فورتھ اسٹیج ہے کینسر ٹیومر بن گیا ہے تکلیف کا کیا بیان کروں کہ اللہ نے جانے اور آنے کا وقت مقرر کر رکھا ہے دعا کروکہ اللہ اتنا وقت دے دیں کہ شہظل کو اپنے پاؤں پر کھڑا دیکھ لوں” اپنے پیاروں کا حوصلہ ٹوٹتے دیکھنا ناقابل ِ بیان اذیت ہے “آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی پیاری رخسانہ آپ تو مجھے حوصلہ دیتی رہی ہیں نا آپ ہمت ہار جائیں گی تو میں کیا کروں گی ؟ ” میں انہیں حوصلہ دیتی اور وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیتیں نازو تم فورتھ اسٹیج کے بارے میں کیا جانتی ہو؟” میں خاموش رہی ڈاکٹر انصر کو فون کر کے میں نے رخسانہ نور کی پوزیشن جاننا چاہی “لاسٹ اسٹیج” اُن کے جواب سے جسم سے جیسے جان ہی نکل گئی۔آنکھیں بھیگنے لگ گئیں”پھر بھی کتنا جی لیتا ہے انسان لاسٹ اسٹیج میں ؟….. ” کئی سال بھی جی لیتے ہیں لوگ “عجیب کیفیت تھی ” نازواداس کیوں ہو میں جلدی اچھی ہو جاؤں گی میرا جشن ِصحت منانا ہے نا ؟”۔ ” ہاں کیوں نئیں آپ ٹھیک ہو جائیں جلدی سے”۔ جانے وہ کس مٹی کی بنی ہوئی عورت تھی چٹان جیسا حوصلہ ۔عشق و وفا کی تفسیر ۔آبرو تھی وہ محبت کی ۔اپنے محبوب کی بے وفائی نے اسے بُری طرح کھوکھلا کر دیا تھا ۔کئی بار تڑپ کر اس نے اس کرب کا اظہار بھی کیا۔
رخسانہ سے آخری ملاقات ان کے گھر پر ہوئی جو طویل دورانیے پر محیط تھی۔ زندگی سے بھرپور شخصیت جس سے محبت بھی ہو ، اسے زندگی کی رونق سے پَرے ، دْنیا سے کٹ کر جیتے دیکھنا بہت دْکھی کردیتا ہے۔ بار بار روکنے کے باوجود خود اٹھ کر خاطر تواضع کرتی رہیں، پرانی یادوں کے ورق الٹے ، آنے والے دنوں کے خاکے بْنے۔ “نازو تم ، میں اور قمر رضا شہزاد مل کرمیرے وڈیو پراجیکٹ پر دوبارہ کام شروع کریں گے ، ہم شاعروں ادیبوں کو بلا کر ان کے انٹرویو ریکارڈ کریں گے ، دیکھو کیمرہ ہے میرے پاس جگہ بھی ۔بس تم دونوں میرا ساتھ دو ۔ ” دوستوں کے بارے میںبھی گفتگو کی۔ انکاحوصلہ دیکھ کر میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ان کے پاس زندگی جینے کو وقت نہیں بچا ، ڈاکٹر انصرکے الفاظ بھی مجھے تسلی دیتے تھے”کئی سال بھی جی لیتے ہیں لوگ “۔ آٹھ جنوری کو کہہ رہی تھیں ” نازوطبیعت بہت ڈاؤن ہے ۔ دعا کرنا ” لیکن۔۔۔۔ مشیت ایزدی کے سامنے کسی کی کیا مجال !موت میراث ِ بنی آدم سہی مگر اس صدمے اور دکھ کو برداشت کرنے کا حوصلہ کوئی کہاں سے لائے عفت علوی کا میسج جان لیوا ہی تو تھا ، زمین و آسماں جیسے ایک ہو گئے ہوں۔ہاتھ سے سیل چھوٹ گیا ۔دل و دماغ جیسے سُن ہوگئے۔۔۔۔۔بعد میں کتنی ہی دیر میں اورعفت علوی روتے رہے ہچکیاں بندھ گئیںہمارے پاس کوئی لفظ نہیں تھا کہنے کو اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ نواز کھرل کا میسج “زمین کے اندر چراغ رکھ دیا ہے ” ہائے میرے اللہ !! ۔۔۔۔۔۔۔ بس جان ہی تو نہیں نکلی ۔۔۔۔۔۔۔
اپنے پیاروں کو اپنے سامنے سے جاتے ہوئے دیکھنا خالی کرجاتاہے ۔انسان بے بسی کی تصویربنا رہ جاتا ہے۔رخسانہ نور کی دائمی جْدائی نے توڑ پھوڑ کے رکھ دیا ۔ وہ ہم سے یوں رخصت ہوئی جیسے زرد دُھوپ اگلتا سورج مغرب میں اْترجائے اور رات کی سیہ چادر سر پر آن گرے ۔ رْخسانہ کے جانے کے بعد سب خالی خالی ہو گیا۔
جیسے جیسے زندگی آگے بڑھ رہی۔ اک عجب طرح کی اداسی اپنی لپیٹ میں لیے چلی جا رہی ، یہ پڑاؤ عارضی ہونے کا احساس گہرا ہوتا چلا جارہا۔آگہی عذاب ہی تو ہے۔ زندگی کی بے ثباتی۔۔ اندرہی اندر کچھ ٹوٹنے لگتا ہے۔۔ گزری زندگی چند لمحوں پر محیط۔۔ مانندِ حباب ۔لاحاصل اورآنے والے کسی بھی پل کا یقین ہی نہیں۔جیسے نیند۔۔۔ نیند میں خواب۔۔ اور ۔۔۔اب آنکھ کْھلے ، نہ کْھلے۔۔کچھ خبر نہیں۔ مرزا شوق لکھنوی سچ ہی کہہ گئے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے