تحریر : محمد اکرم باجوہ، ویانا ہر جاندار چیز نے ایک دن اس دنیا سے جانا ہے یہ سوچتے ہوئے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی افضل مخلوق ہے کیا آج کا انسان وہ انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے تخلیق فرمایا۔ ہم اس نبی اکرم محمدۖ کے اُمتی ہیں جس کے لیے وہ دن رات میری اُمت میری اُمت کہہ کر دعا مانگتے۔ آسٹریا کے دارلحکومت ویانا میں گذشتہ دنوں ایک پاکستانی مسلمان کو جلانے کا واقعہ پیش آیا مگر مجال ہے کہ کسی مسلمان یاخصوصاََ کسی پاکستانی نے اس پر کوئی مذمتی بیان دیا ہو اور یہ واقع کوئی پہلا نہیں اس سے پہلے بھی پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک کے لاوارث مسلمانوں کو اسی طرح جلا دیا جاتا ہے۔
دسمبر کے مہینہ میں ویانا میں عرصہ دراز سے مقیم ملک الیاس جو لاہور پاکستان سے تعلق رکھتا تھا ویانا کے مقامی ہسپتال میں انتقال کر گیا تھا اور ملک الیاس مرحوم کو اولڈہوم ہسپتال میں بیماری کی وجہ سے رکھا ہوا تھا اور طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد وہاں پر ہی انتقال کرگے تھے۔ملک الیاس نے تقریباََ 15 بیس سال سے کسی پاکستانی سے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی رابطہ رکھنے کی اُس نے ضرورت محسوس کی اور ہماری اطلاع کے مطابق وہ ایک غیر ملکی خاتون کے ساتھ رہائش پذیر تھا اور اب کوئی معلوم نہیں کہ وہ خاتون ساتھ رہتی تھی یا وہ بھی انتقال کر گئیں ہیں۔
آخری دنوں میں ملک الیاس اولڈہوم میں رہائش پذیر تھا اور جب اُسے بیماری نے اَن لیا تو اُنہیں اولڈہوم کے ہسپتال میں زیر علاج رکھا گیا اور ہسپتال کی انتظامیاں نے اپنی زمہ داری پوری کرتے ہوئے ملک الیاس سے فارم پر دستخط کرالیے کہ اگر کبھی کسی وقت اُس کی موت واقع ہوجائے تو اُس کی میت کے ساتھ آسٹرین قانون کے مطابق عمل کیا جائے بدقسمتی سے ملک الیاس کی اُسی ہسپتال میں موت واقع ہوگی اور ملک الیاس کی میت کئی دن تک ہسپتال کے کولڈسٹور میں لاوارث پڑی رہی اور اُسی دوران کچھ دنوں کے بعد ایک پاکستانی تدفین کمیٹی کو کسی زرائع سے پتہ چلا کہ ایک پاکستانی ہسپتال میں وفات گیا ہے اور ہسپتال میں میت لاوارث پڑی ہے اور اُس میت کو ہسپتال کی انتظامیاں جلانے کا انتظام کر رہی ہے اُس تنظیم نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح پاکستانی مسلمان کی میت ہمیں مل جائے اور ہم اُس کی تمام تر مذہبی رسومات کے بعد میت کو پاکستان اُن کے لواحقین تک پنچا دیں جب تما م تر کوشش کے باوجود ناکامی ہوئی تو پھر تدفین کمیٹی نے وکیل کا بھی بندوبست کیا مگر اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور تمام تر کوششوں کے باوجود ملک الیاس کو جلا دیا گیا اور جو مسلمانوں خصوصاََ پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اصل میں الیاس کو جلانے کی وجہ وہ فارم ہے جس پر اُس نے آسٹرین قانون کے مطابق دستخط کیے تھے ۔ہم سب کو سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے قانون پر مسلمانوں نے کبھی توجہ کیوں نہیں دی اور کبھی کوئی مسلمان کہیں لاوارث انتقال کر جائے تو کم ازکم اُس کی مذہبی رسومات ہی ادا کی کر دی جائیں۔ آسٹرین قانون میں ترامیم کے لیے مسلمانوں کے نمائندہ آسٹرین پارلیمنٹ سے تمام مسلم ممالک کی تنظیموں اور پاکستانی کمیونٹی کی مذہبی ،سماجی،رفاہی اور سیاسی تنظیمیں کو مل کر اس موقف پر کام کرنا ہوگا اور آسٹرین حکومت پراس قانون کو بدلنے کیے دباو ڈالنا ہوگااور ہمیں آسٹرین گورنمنٹ کو باور کرانا ہوگا کہ اگر کوئی لاوارث مسلمان کہیں انتقال کرجائے تو اُس کی مسلم طریقہ سے رسومات ادا کی جاسکیں اور مسلم قبرستان میں تدفین کی جائے۔اس قانون میں ترامیم کے لیے ہم سب مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا جو بضاہر مشکل ہے مگر خدا کے لیے میت پر تو ہم ایک جگہ پر جمع ہوجائیں جو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہتر ہوگا۔پاکستانی کمیونٹی کا کسی افراد کو جلانے کا یہ کوئی پہلاواقع نہیں اس سے پہلے بھی کئی واقعات ایسے ہیں جو گذشتہ کئی دہائیوں سے ریکارڈ پر ہیں کہ کسی پاکستانی کو جلایا گیا ہو ۔جلانے جیسے واقعات کو کس طرح قابو پایا جا سکے۔
سب سے پہلے ہم سب کو اپنی اپنی زمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کسی نہ کسی پاکستانی تنظیم سے رابطہ رکھنا چاہیے خصوصاََ مساجد میں جایا کریں اور پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ رکھیں اور دوسری جانب ہماری پاکستانی تنظیموں کو بھی کسی حد تک اپنی زمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے افراد کی لسٹ تیار کی جائے جو افراد پاکستانی کمیونٹی سے دور رہتے ہیں اور پاکستانیوں سے ملتے نہیں اُن سے کسی نہ کسی طرح رابطہ کرکے اُن کو قائل کیا جائے کہ آپ پاکستانی مساجد کی انتظامیاںیا کسی پاکستانی تنظیم یا کسی پاکستانی سے رابطہ رکھیں تاکہ کسی ناگہانی واقع سے بچا جاسکے کئی ایسے افراد آسٹریا میں دیکھے جاتے ہیں جو یا تو نشہ کرتے ہیں یا کسی گوری غیر ملکی خاتون سے شادی کرکے پاکستانی کمیونٹی سے دور رہتے ہیں اور مگر جب اُس شخص پرکوئی مصیبت بن جائے تو وہ غیر ملکی خاتون کسی پاکستانی سے رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی بلکہ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو پاکستان میں اپنے لواحقین سے بھی رابطہ رکھنا گوارہ نہیں کرتے ۔ہم سب کی مذہبی قومی اور اخلاقی زمہ داری بھی ہے کہ اپنے اردگرد ایسے افراد پر نظر رکھیں اور اُن سے رابطہ رکھیں اور ان سے رابطہ کریں اور اُنہیں رابطہ رکھنے پر قائل کریں۔
باقی پاکستان سفارتخانہ ویانا بھی اس میں کسی حد تک مدد میں اہم کرادار ادا کرسکتا ہے وہ اس لیے کہ پورئے آسٹریا میںپاکستانی کمیونٹی کی تعداد اُن کے پاس ہے اور ساتھ اُن کے پاس ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر بھی ہوگاجس سے پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ کرنا آسان ہوگااور اسی طرح ہم سب اپنی اپنی زمہ داریاں پوری کریں گے تو ایسے وقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔اور باقی جوپاکستانی سیاسی پناہ گزین ہیں اُن سے بھی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بھی کسی نہ کسی مساجد کی انتظامیاں سے رابطہ رکھیں۔