تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ختم الرمرسلین آقائے دو جہاں حضرت محمد ۖ اور جیدخلفائے راشدین کے ادوار حکمرانی کے دوران معاشرہ شرافت ،پاکیزگی اور اعلیٰ ترین اقدارکا حامل بن چکا تھا جس میں نوزائیدہ معصوم بچیوں کو سابقہ جاہلیت کے دور کی روایات کے مطابق ان کو قتل کرکے زندہ درگور کر ڈالنے کی بجائے ان کی عزت و وقار کا مکمل تحفظ موجود تھا آج بھی بیشتر اسلامی ممالک میں اس دورکی روشن کردہ شمعیں نظر آتی ہیں سعودی عرب میں اول تو ایسے واقعات ہوتے ہی نہیں کہ شرعی قوانین کی موجودگی میں کوئی فرد ایسی قبیح حرکت قتل و غارت گری معصوم نوخیز بچیوں سے زنا بالجبر کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتااگر اکا دکا واقعات ہوجائیں تو فوراً سر قلم کرنے اور لٹکانے جیسی سزائیں ملزم کو عبرت کا نشان بنا ڈالتی ہیں ایران اور بنگلہ دیش میں معصوم بچیوں کے ساتھ ایسے مظالم پر تین ماہ میں فیصلہ کرکے مجرموں کو سر عام پھانسی دے ڈالی گئی تھی اور اب ایسے واقعات ناپید ہو چکے ہیں۔
ہمارے ہاں تو ضلع قصور میں گذشتہ سالوں سینکڑوں کم عمر بچیوں و بچوں کی ننگی ویڈیو فلمیں بنائی گئیں اور پھر انہیں بلیک میل کرکے مقتدر و طاقتور با اثر افراد کے ڈیروں ،ان کی قبحہ کمین گاہوں پر ان کی “حاضری ” اور پھر ان کے ساتھ معاشرہ کے کمینہ خصلت افراد کے اپنے منہ کالاکرنے کے واقعات کا پتہ چل جانے کے بعد بھی کسی ملزم کو قرار واقعی سزا نہ دینا دنیا و مافیا سے بے خبر بدمست حکمرانوں اور ہمارے ہاں رائج انگریز قوانین کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ایسے واقعات پاکستان بھر کی دیگر جگہوں سے بھی رپورٹ ہو رہے ہیں مگر ملزمان بااثر ہونے کی وجہ سے صاف بچ نکلتے ہیں کہ پولیس تو نوٹوں کے بنانے کی مشین ہونے کی بناء پر صرف اسی کی طرف دار ہوتی ہے جو انہیں “ڈھیروں مال “ادا کرے ۔ایس ایچ او تک پولیس والے جب تک “اوپروالوں کو مقرر کردہ نذرانہ “پیش نہ کریں وہ تھانوں کے انچارج لگ ہی نہیں سکتے اور پھر “ماہانہ بھتہ” باقاعدگی سے اوپر تک پہنچاتے ہیں۔اس لیے پولیس محکمہ کی اصلاح کیے بغیر برائیوں کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکتا ان کی تنخواہیں پانچ گنا بڑھا دیں ایسا کرنے کے بعد ان سے تھانوں کی قریبی مساجد میں عوام و دیگر سویلین افسران کی موجودگی میںحلف لیا جائے کہ وہ اب کوئی کام بھی سفارش اور رشوت لیکر نہیں بلکہ میرٹ پر کریں گے تبھی جاکر تھانے مظلوموں کی داد رسی کے ٹھکانے بن سکتے ہیں وگرنہ ویسے تو تھانہ کے قریب سے گزرنے والے ہر شخص کے دل و دماغ میں ان کا انتہائی غلیظ ،ظالمانہ اور رشوت خور پیٹوئوں کا کردار ہی گھومتا رہتا ہے۔
موجودہ حالات میں زینب کے اصل قاتل تو وہ سارے لوگ ہیںجنہوں نے ووٹ دیکر منتخب افراد کو بھاری مینڈیٹ دے رکھا ہے ایسے افراد چونکہ علاقہ کے چوہدری ،خان ،ملک ،ظالم وڈیرے ،بدکردار جاگیرداروڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکاروں کے علاوہ دوسرے کوئی ہو ہی نہیں سکتے۔کیونکہ انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں ضلعی وتحصیل چیر مینوں کی سیٹیں کروڑوں روپیہ خرچ کرکے حاصل کی ہوتی ہیںپھر اگلے انتخابات کے لیے بھی وافر مال لوگوں کی گردنوں پر مستقل سوار رہنے کے لیے بنانا ہوتا ہے۔ اسلئے ان کے دل ودماغ میں تو ہر وقت اپنا خرچہ کیا گیا پورا کرنے کی دھن سوار رہتی ہے وہ تھانوں عدالتوں و سویلین افسروں سے حرام مال میں سے حصہ بقدر جسہ ماہانہ وصول فرماتے رہتے ہیںاور ان جگہوں سے مال متال صرف اور صرف مجرم ہی دے سکتے ہیں نہ کہ وہ جن کی چوری چکاری یا ڈکیتی ہوئی ہو یا جن کی معصوم بچیوں کو حوسناکیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہو۔پولیس اور متعلقہ بیورو کریٹوں کی” اصل آسامی ” مجرمین اور معاشرے کے ناسور بھتہ خور ڈاکو ڈکیت ،قاتل اور اغوا برائے تاوان والے ہی ہوتے ہیں جب کہ قانون ہمارا وہ بوسیدہ اور غلیظ پانی کا زہریلا جوہڑ ہے جس میں سے صاف پانی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔ اندراج مقدمہ ملزم کی گرفتاری ،ریمانڈ کا حصول تفاتیش چالان مقدمہ گواہیاں وکلاء کی بحثیں استغاثے وکلا ء کی پیشیوں پر اگلی تاریخیں لینا لوئر کورٹ کے فیصلے کے بعد ہائیکورٹ کے سنگل و ڈبل بنچ میں اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ اور پھر پھانسی پانے والوں کی صدر پاکستان کے پاس اپیلیں وغیرہ ایسے گنجلک اور گھوم چکریاں ہیں جن کا کوئی توڑ نہیں ہو سکتا۔
فیصلے سالوں تک بھی نہ ہوں تو ملزم کیسے سزا پائیں گے سرمایہ دار ملزمان لازماً بھاری فیسوں والے وکلاء کی خدمات حاصل کرکے سزا سے بچ رہتے ہیں غیر اسلامی انگریزوں کے دور کے “یاد گار بدنما قانون “کو دریا برد کرنا ہوگا تاکہ ملزم جلد سزا پائیں اور زینب جیسی معصوم بیٹی پر ظلم کا پہاڑ توڑنے والے خونخوار درندوں نمامجرم جلد جہنم واصل ہوسکیںوگرنہ روز محشر زینب کوانصاف ملکر رہے گا اور مقتدر افراد کا حشر برپا ہو گا۔ حضرت علی شیر خدا نے فرمایا تھا کہ جن کے قاتل نہ ملیں ان کے قاتل حکمران ہی ہوتے ہیں ہم عوام بھی خود ہی زینب کے ساتھ ظلم و بر بریت کرنے اور قتل کرنے کے بعد اسے گندگی کے ڈھیر پر پھینک ڈالنے کے مجرم ہیں کہ ہم نے لادینی مغربی جمہوریت کے گن گاتے ہوئے ایسے معاشرے کے غلیظ ترین افراد کو ووٹ دیکر مقتدر کر رکھا ہے جن کی شہ کے بغیر ان کی ” راجھدانیوں” میںایسے واقعات ہو ہی نہیں سکتے کہ وہ ایسے تمام غلیظ غنڈہ عناصر ڈکیتوں قاتلوں بھتہ خوروںاور معاشرہ کے ناسوروں کے سر پرست ہو تے ہیں۔
اگر ایسا نہ ہو تا تو قصور کے غریب عوام وہاں کے ایم این اے ،ایم پی اے کے گھروں میں گھس کر ہر چیز کو خاکستر نہ کر ڈالتے ہمیں خدائے عز وجل کو گواہ بنا کر وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم آئندہ کسی بھی بد کردار وڈیرے ظالم جاگیردار ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکار ار معاشرہ کے کریہہ و غلیظ افراد کو قطعاً ووٹ نہ دیں گے وگرنہ بھوکوں مرتے مہنگائی کے جن کے ستائے ہوئے خود کشیاں کرتے بیروزگاری کے ظلم و بر بریت سے تنگ پسے ہوئے طبقات کے گلیوں کوچوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر اور یا نبی ۖ یانبیۖ کے نعرہ زن لوگ تحریک کی صورت میں نکل کر بوسیدہ نظام کی جڑیں اکھاڑ کر پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنا کر رہیں گے جہاں انصاف کا بول بالا ہو گا غربت مہنگائی ظلم و بر بریت بیروزگاری کے عفریت دم توڑ دیں گے غریب کو مفت خوراک لباس رہائش تعلیم علاج مہیا ہوگا مزدوروں کو ماہانہ پچاس ہزار روپے تنخواہ اور سبھی کو تمام کھانے پینے کی اشیاء و ہمہ قسم تیل 1/3قیمت پر بذریعہ سبسڈی حاصل ہو گا ایٹمی پاکستان کو تمام اسلامی ممالک کے محافظ ہونے کے ناطے ان کی سربراہی حاصل ہو گی۔تمام پولیس و انتظامی فسران اور ان کی سرپرستی کرنے والے حکمرانوں کو ایک دفعہ نشان عبرت بنا ڈالیں تو معصوم زینب جیسے واقعات قطعاً نہ ہوں گے۔