تحریر : مسز جمشید خاکوانی جیسے موت والے گھر ہوتے ہیں وہ بھی ایک ایسا ہی گھر تھا کچھ عورتیں زمین پر بیٹھی تھیں ایک بیوہ ،ایک بوڑھی ماں،چند نوعمر بچیاں ،یہ قصور کے ایک شہری محمد علی کا گھر تھا جو گذشتہ روز پولیس کی گولی کا شکار ہو گیا یہ ایک ایسا ہی گھر تھا جس کے درو دیوار سے غربت ٹپک رہی تھی محمد علی بے قصور مارا گیا وہ تو اپنے شہر کی بارھویں بچی کے لیے دوستوں کے ساتھ انصاف لینے نکلا تھا اس نے بھی سوچا ہو گا گیارہ بچیاں ماری گئیں ککھ نہیں ہلا اب احساس ہوا ہے تو میں بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالوں ورنہ غریب کے لیے انصاف کہاں ملتا ہے غریبوں کو کبھی تین لاکھ کبھی تیس لاکھ میں خرید لیا جاتا ہے وہ بھی بہل جاتے ہیں نامعلوم ملزم نامعلوم ہی رہتا ہے کیس پر وقت کی راکھ جمتے ہی نامعلوم دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑے عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں قاتل، مجرم انہی سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں پھر کسی اور شکار کی تلاش میں شائد اس بار بھی ایسا ہی ہو؟ یا شائد اس بار ایسا نہ ہو ؟یہ سوال اس لیے میرے ذہن میں پیدا ہو رہا ہے کہ کیمرہ جب مقتول محمد علی کے نوعمر بیٹے کے چہرے کے تاثرات دکھا رہا تھا وہ بیزاری اور نفرت کی انتہا پر تھا۔
اس نے کہا میں شہباز شریف کو تیس لاکھ دیتا ہوں وہ مجھے میرا باپ زندہ سلامت لوٹا دے واضح رہے کہ لڑکے کی ماں یعنی مقتول کی بیوہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے اور مقتول خود بھی محنت مزدوری کر کے کنبہ پالتا تھا جس میں مقتول کے بوڑھے والدین ،تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں ایک بیٹا ابھی حال ہی میں وفات پا گیا ہے دیکھنے میں یہ کنبہ غربت کے باوجود صحت مند اور خوش شکل تھا گلابی شال میں لپٹی اس کی نو عمر بیٹی سے جس کے ہاتھوں پہ مہندی لگی تھی جب اینکر نے سوال کیا آپ حکمرانوں سے کچھ کہنا چاہیں گی تو اس کی حیران آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اس نے سسکتے ہوئے صرف اتنا کہا میرے باپ کا کیا قصور تھا؟ ہمیں صرف انصاف چاہیے،تو وزیر اعلی صاحب عوام کے پیسوں سے عوام کی مجبوریاں خریدنا بند کر دیجیے یہ کاروبار بند ہو چکا ہے عوام بھی جان چکی ہے یہ بوگس چیک ان کی محرومیوں کا مداوہ نہیں کر سکتے چند لاکھ اگر کسی کو مل بھی جاتے ہیں تو ان کے باپ کا نعم ابدل نہیں ہو سکتے جس حساب سے مہنگائی بڑھتی ہے یہ لاکھ خاک ہو جاتے ہیں آپ تو ایک ہی رات میں کسی بھی چیز کی قیمت بڑھا کر یا روپے کی قدر گھٹا کر اپنا دیا واپس لے لیتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ آپ کے پاس واپس آ جاتا ہے اس لیے اب رات کے اندھروں میں یہ ڈرامے بند کیجیے زینب کے باپ کا کہنا تھا ہمارے لوگ خود اپنے طور پر بچی کو تلاش کرتے رہے پولیس نے کوئی مدد نہیں کی بلکہ رات ایک بجے تک اس جگہ بھی لوگ موجود رہے جہاں سے بچی کی لاش ملی ہے۔
اس معاملے میں پولیس کا کردار مشکوک ہے جہاں رات گئے تک لوگ موجود رہے وہاں سے اچانک پولیس کو لاش مل گئی بلکہ بچی کے لواحقین سے لاش کی نشاندہی کرنے والے پولیس مین کو دس ہزار انعام دینے کی فرمائش بھی کی گئی زینب کی بہن کا کہنا تھا اس سے زیادہ بے شرمی کیا ہو گی کیا بچی زندہ بازیاب ہوئی تھی؟ جو انعام طلب کیا گیاپولیس کا ہے فرض مدد آپکی ” یہ سنہرا اصول کہاں گیا ؟تحریک انصاف کی تنزیلہ عمران نے وزیر اعلی اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے خلاف لاہور کی سیشن کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
گو قصور میں جزوی طور پر کاروبار زندگی بحال ہو رہا ہے لیکن زینب کے باپ کا کہنا تھا انصاف ملنے تک پر امن احتجاج جاری رہے گا اس کے علاوہ لوگوں نے انتظامیہ سے ایک مطالبہ بھی کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ پک اینڈ ڈراپ دینے والی وینز دو سے تین شفٹس میں بچوں کو اسکولز ڈراپ کرتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے سکول ہنچ سکیں لیکن یہ سیکورٹی رسک ہے بچے بچیاں وقت سے پہلے اسکول پہنچ کر اسکول کھلنے کا انتظار کرتے ہیں وہ کسی بھی سانحے کا شکار ہو سکتے ہیں اس لیے اسکول انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی بچہ وقت سے پہلے اسکول کی حدود میں داخل نہ ہو۔
زینب کی موت نے لوگوں کا احساس ضرور جگا دیا ہے اور حکمرانوں کو بھی جاگ جانا چاہیے آنے والا وقت ان کے حق میں نہیں ہے لوگوں کا سڑکوں پہ نکلنا اور قانون ہاتھ میں لینا کسی بھی طرح کسی کے لیے سود مند نہیں اس سے کوئی بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے جس طرح کراچی میں غلط فہمی کی بنا پر لوگوں نے ایک اسکول کے چوکیدار کو مار مار کے لہو لہان کر دیا بچی کا باپ چلاتا رہا کہ بچی سے زیادتی نہیں ہوئی لیکن مشتعل ہجوم کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھا سیکورٹی احکام نے بر وقت پہنچ کر اس کی جان بچائی تو ایسے سانحوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے غفلت کی نیند سے جاگا جائے۔