تحریر : روہیل اکبر ہم سب اس وقت فحاشی، عریانی اور بے حیائی کے ایٹمی بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں کیونکہ جس معاشرے میں بے حیائی، فحاشی اور فحاشی پھیلانے کے طریقے صرف 30 روپے میں سرے عام سی ڈی کی صورت میں فروخت ہو رہے ہوں اور 50 روپے میں موبائل فون کا پورا میموری کارڈ بھر دیا جاتا ہو یوٹیوب سمیت فحاشی پھیلانے والی عام ویب سائٹس پر سیکس کے ایک سو ایک طریقے ایک کلک پر کھل جائیں بلکہ کسی بھی سائٹ کو کھولنے سے پہلے سیکسی قسم کی تصویریں پہلے کھل جائیں اور جنسی تسکین کے نام پر پارلر، مساج سینٹر اور بے حیائی کے اڈے گلی محلوں تک پہنچ جائیں اور تو اور پنجاب کا صوبائی دارالحکومت لاہور جہاں خادم اعلی سے لیکر پاکستان کو کنٹرول کرنے والی بیوروکریسی موجود ہوں وہاں پر بھی جنسی جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں قابوں سے باہر ہو جائیں تو باقی پنجاب کا اندازہ ہم سب بخوبی لگا سکتے ہیں۔
قصور میں زینب کا معاملہ بھی اگر سوشل میڈیا سے ہوتا ہوا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک نہ پہنچتا توکسی کے کان میں جوں تک نہ رینگتی اور آج یہ معاملہ بھی دوسرے تمام معاملات کی طرح بے یارو مددگار بن چکا ہوتا اس وقت صرف لاہور کو دیکھا جائے تو حیرت انگیز اور رونگٹے کھڑی کردینے والی ایک رپورٹ نے مجھے پریشان کررکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں جنسی تشدد اور اغوا کی وارداتوں میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ایسے واقعات کو روکنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوگئی لاہور کے پوش علاقوں میں چینی افراد نے بھی شراب اور جسم فروشی کے اڈے کھول لیے جسکی وجہ سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی سے جنسی و اخلاقی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے لیکن انتہائی تشویشناک امر یہ ہے ایسا شہر جہاں نہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کی رہائش گاہ بھی ہے اور تمام اداروں کی شہر پر کڑی نگاہ بھی ہے اسکے باوجودشہر میں عیاشی کے اڈوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اورتیزی سے بڑھتے ہوئے جسم فروشی کے اڈوں کے سدباب کیلئے کوئی اقدام نہیں کیے جا رہے۔
شہر میں پارٹیوں کے نام پر ڈانس فلور بھی قائم ہوچکے ہیں۔ اس قبیح دھندے کو مبینہ طور پر پولیس، بیوروکریٹ اور بعض سیاستدانوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے اور اس سلسلہ میں ہمارے زرائع بتاتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو خفیہ ادارے کی جانب سے دی گئی رپورٹ میں شہر میں قائم 110 گیسٹ ہاؤسز سمیت 555 ہوٹلوں و کوٹھی خانوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں جسم فروشی کا قبیح دھندا بااثر افراد کی سرپرستی میں جاری ہے۔ ماڈل ٹاؤن ڈویڑن میں 138، صدر ڈویڑن میں 105، سٹی ڈویڑن میں 85، اقبال ٹاؤن ڈویڑن میں 60، سول لائن ڈویڑن میں 65 اورکینٹ ڈویڑن میں 70 قحبہ خانے و گیسٹ ہاؤس شامل ہیں جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں 2016 کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے سال 2017میں بچوں سے جنسی زیادتی سمیت اغوا، گمشدگی اور جبری شادیوں کے 4139 کیس رجسٹرڈ ہوئے اور یہ تعداد 2015 کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ہے۔ 2017 تک بچوں کے خلاف کیے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے ان میں اغوا کے 1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 453 کیس، گینگ ریپ کے 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔ان واقعات میں سب سے زیادہ سنگین جرم زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کا قتل ہے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ جنسی حملوں کے بعد قتل کے کل 100 واقعات سامنے آئے۔ بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والے مجرمان میں گھر کے اندر کے افراد، رشتہ دار اور واقفِ کار بھی ہو سکتے ہیں۔ زیادتی کا شکار ہونے والے 76 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں جبکہ 24 فیصد کا تعلق شہروں سے ہے۔ 2017ء کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بچوں پر تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو بچوں کو جانتے تھے۔ ان کی تعداد1765 ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق بچوں سے زیادتی کرنے والے افراد 798اجنبی ، 589ا جنبی واقف کار، 76 رشتہ دار، 64 پڑوسی، 44 مولوی، 37 اساتذہ اور 28 پولیس والے ملوث پائے گئے ہیں۔ملزمان بچوں کو تحائف دیکر ورغلاتے ہیں اورجنسی زیادتی میں کامیابی کے بعد یہ افراد بچوں کو بلیک میل کرتے ہیں میڈیا کے لئے موجود ضابط اخلاق کے باوجود 47 فیصد بچوں کے نام، 23 فیصد بچوں کے والدین کے نام جبکہ چھ فیصد واقعات میں نام کے ساتھ تصاویر بھی شائع کی گئیں۔
عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آکر عوام کی گردن پر مسلط ہونے والے حکمرانوں کا دین ایمان ہی پیسہ ہے عوام کیساتھ کیا بیت رہا ہے انہیں کوئی سروکار نہیں وہ معصوم کلیاں جو کھلنے سے پہلے ہی مسل دی جاتی ہیں لیکن اقتدار اعلی کے ایوانوں تک انکی آواز نہیں پہنچتی اگر ایسا پہلے ہو جاتا کہ جب قصور میں ہی کئی بے قصور پھولوں کو نوچا گیا توڑا گیا تو شائید آج زینب ہمارے بیچ ہوتی مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قوم نے ان حکمرانوں کو محض اپنا خون چوسنے کیلئے چنا ہے کیونکہ قصور میں جو لوگ اس معاملے پر آواز اٹھانے کیلئے جمع تھے ان پر سیدھی گولیاں برسائی گئیں جیسے سانحہ ماڈل ٹاون میں پرامن لوگوں پر گولیاں برسائی گئی جبکہ نا اہلیت کے باوجود آج بھی انکو پروٹوکول دیا جاتا ہے کیونکہ انکو ضرورت ہے عوام تو اگر حق کی آواز بھی بلند کریگی تو اسے بجائے انصاف دینے کے اسی کی آواز کو گولیوں سے دبا دیا جاتا ہے یہاں ایک اور بات بھی واضح کرتا چلوں کہ قصور کے علاقے میں زینب کے کیس کے سلسلے میں جو ایس ایچ او تعینات ہے وہ چند ماہ قبل ایک نجی چینل کی کاوش سے 25 ہزار روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا اور اسے معطل کیا گیا تھا وہ ہی علاقے میں ایس ایچ او تعینات ہے آخر وہ کیا پکڑے گا قاتلوں کہ جو خود چند ہزار روپوں میں بک جاتا ہے۔