تحریر : اسلم انجم قریشی 17 جنوری کو لاہور میں ماڈل ٹائون مال روڈ پر حلیف پارٹیوں نے عوامی تحریک کے سربراہ کی قیادت میں احتجاج کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا ہے کہ حریف حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گا ۔خطرہ نمبر 17 ہرگز نہیں غیر جمہوری عمل ماضی میں بھی کیا گیا جس کا نتیجہ صفر رہا اور اب بھی غیر جمہوری عمل کو قوم مسترد کردے گی ہوا یہی شخص جس نے پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کے خاتمے کے لئے سرد موسم میں اس کے خلاف احتجاج کیا تھا اور ان دونوں کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہوا تھا جو ہوا کے نظر ہوگیا پھر اس کے بعد یہ دونوں حلیف جماعت پی ٹی آئی اور عوامی تحریک جہاں ان دونوں جماعتوں نے نواز شریف حکومت کے خلاف طویل دھرنا دیا قوم نے وہ بھی دیکھ لیا کہ کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی قوم پر ان کے احتجاج اوراس طویل دھرنے کا اثر ہوا اس کی وجہ ان کے قول فعل میں تضاد ہی تضاد ہے جس کی شکل غیر جمہوری عمل ہے کیونکہ ہم ماضی میں ان کے احتجاج کو دیکھ چکے ہیں اسی حکومت یعنی پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف جو کچھ ماہ پہلے اس ملک کے وزیر اعظم تھے ان کے حریف پی ٹی آئی عمران خان سراج الحق ، اور شیخ رشید احمد سمیت دیگر افراد نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پہلی مرتبہ یکم نومبر 2016 کو پانامہ کیس کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل دیا گیا کچھ روز سماعت کے بعد سابق جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے یہ بینچ ٹوٹ گیا اس کے بعد نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا جس نے کیس کی سماعت کی اور سماعت مکمل کرنے کے بعد 20 اپریل 2017 کو اپنا فیصلہ سنایا۔
پانچ رکنی بینچ کے تین ججوں نے پاناما پیپرز کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ سنایا جبکہ دو ججوں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو صادق اور امین قرار نہ دیتے ہوئے نااہل قرار دیا بعد ازاں جے آئی ٹی نے 63 روز میں تحقیقات مکمل کرکے 10 جولائی کو رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو پیش کی تھی جے آئی ٹی نے 10 جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں وزیر اعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فریقین کے اعتراضات 17 جولائی سے سنے اور پانچ روز مسلسل سماعت کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے 28 جولائی کو سنانا تھا وہ پھر گھڑی بھی آگئی اور28 جولائی کو پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ نے ا نہیںنااہل قراردے دیا تھا اثاثوں سے متعلق حقائق چھپانے پر وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار، جسٹس شیخ عظمت سعید،ا و جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ کمرہ عدالت نمبر ایک میں دن کے ١١ بجکر ٥٨ منٹ پر پہنچا۔ دوپہر ١٢ بجے کے قریب جسٹس اعجاز افضل نے متفقہ فیصلہ پڑھ کر سنایا پانچوں ججز نے نوز شریف کو دبئی کی کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنی میں اپنی قابل وصول تنخواہ (اثاثہ) کو ظاہر نہ کرنے پر نا اہل قراردیا عام انتخابات 2013 کے کاغذات نامزدگی میں متحدہ عرب امارت کی کیپٹل ایف زیڈ ای جبل علی کمپنی کے قابل وصول اثاثہ جات جوکہ نکالے نہیں گئے ان کو عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 کے سیشن ٹو ایف کے تحت ظاہر نہ کرنے پر اور غلط ڈیکلیئریشن داخل کرنے پر میاں نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ سیکشن 99 ایف اور آئین کے 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہیں رہے جس وجہ سے ان کو بطور ممبر پارلیمنٹ ناہل قراردیا جاتا ہے۔ اب جبکہ وزیر اعظم شاہد خان قان عباسی ہیں اس موجودہ حکومت کیخلاف کل کی حریف آج حلیف بن کر جس میں شامل پیپلز پارٹی بھی ہے۔
قتل کسی بھی فرد یا جماعت کے کا رکنان و رہنما کا ہو وہ قابل مذمت ہے۔ عوامی تحریک ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ا ور دیگر جماعت ایک دوسرے کے حریف اور حلیف Rival ally and یہ کوئی نئی بات نہیں ہاں مگر اب جو گرما گرم بحث کے سبب ایک دوسرے کے حریف اس قدر بننے ہوئے ہیں کہ کوئی حد ہی مقرر نہیں جو دل میں آئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں کسی بھی قسم کا موقع ضائع نہیں ہونے دیتے کبھی یہ ایک دوسرے کے حلیف بن جاتے ہیں جس میں قسمیں کھا کھا کر اپنے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔پچھلی باتوں کو وقتی طور پر چھوڑیں فی الوقت ان پارٹیوں کا ذکر کررہا ہوں جو اس وقت سرگرم عمل ہیں جو کہ ایک دوسرے کے حریف اور حلیف ظاہر ہورہے ہیں دونوں صورتوں کی وضاحت سامنے لائے جائے گی کہ کون کس کا حریف اور حلیف ہے۔
حریف اور حلیف کے متعلق معروف کالم نویس ہارون الرشید فرماتے ہیں خبطِ عظمت اور نرگسیت کے مارے ہوئے لوگ ،عام آدمی کو جو انسان نہیں سمجھتے، اختلاف کرنے والے سے نفرت کرتے ہیں، بے فکری سے قومی خزانہ لٹاتے اور خلقِ خدا سے امید رکھتے ہیں کہ ان کی پوجا کرے ۔ ایک ایک سرکاری اشتہار پر جن کی تصاویر چھپتی ہیں۔ ایک ایک سڑک اور پل تعمیر کرنے پر قوم سے جو داد کے طالب ہیں گویا کوئی ذاتی احسان ہے۔ دنیا کسی قوم کو ایسے عالی ظرف کب نصیب ہوئے ہوں گے ۔ اجڑے ہوئے سنگا پور کولی ان یو نے عظیم معاشی قوت بنادیا ۔ چین میں ساٹھ کروڑ انسان غربت کی دلدل سے نکالے لیے گئے۔ مہاتیر محمد کے ملائیشیا میں فی کس آمدنی پچاس ڈالر سے پانچ ہزار ڈالر تک جا پہنچی۔ کسی نے اپنی قوم پر احسان نہیں جتلایا۔ شریف خاندان جتلاتا ہے ؛ حتیٰ کے زرداری صاحب بھی ۔ زرداری کا مطالبہ یہ ہے کہ اقتدار کی کشمکش میںمارے گئے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو قرونِ اولیٰ کے شہدا میں شمار کیا جائے اور آنجناب کو ان کا وارث مانا جائے لوٹ مار کی اجازت انہیں حاصل رہے ۔ چند بڑی سڑکیں اور پل بنانے والے شریف خاندان کی خواہش یہ ہے کہ انہیں قائد اعظم کی سی عظمت کا امین سمجھا جائے جبکہ قائد اعظم اپنی اولاد کو اقتدار سونپنے کے آرزومند نہیں تھے عمران خان اور ان کے پیرو کا روں کا انداز فکر بھی یہی ہے آپ مزید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ جب تک یہ خود پسند لیڈر اور ان کے فدائین کی غلامانہ فکر کارفرما ہے ؛ معاشرہ اسی طرح خوار و زبوں رہے گا اسی طرح بیمار۔ ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں ۔ اہمیت قوم اور ملک کی ہے ، خود اپنی قصیدہ گوئی کرنے والے لیڈروں کی نہیں اور کہتے ہیں نواز شریف، آصف علی زرداری، اور عمران خان کے ملفوظات سنتے رہیے، سردھنتے رہیے۔
موجودہ حکومت کے خاتمے کی خواہش لئے یہ دونوں حلیف حضرات اپنے حریف کے لئے ایک نیا منصوبہ حکومت کے خاتمے کے لئے بنایا ہے جس میں حلیف پارٹی عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 17 جنوری سے موجودہ حکومت کے خاتمے تک تحریک چلانے کا اعلان کیا او ر یہ ا حتجاج مال روڈ پر ہوگا اس سلسلے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پوری طاقت سے سڑکوں پر نکلیں گے ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ احتجاج میں تما م سیاسی جماعتوں کی قیادت شریک ہوگی ۔ انصاف کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں طاہر القادری نے کارکنان کو ہر قسم کی تیاری کرکے آنے کی ہدایت کی ہے اس احتجاج میں سانحہ ماڈل ٹائون اور سانحہ قصور پر انصاف کے حصول کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کرلیا جس میں شامل پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ 17جنوری کو ہونے والے احتجاج میں زرداری اور عمران ایک کنٹیز پر ہونگے جبکہ تحریک انصاف کا کہنا ہے دونوں ایک کنٹیز پر نہیں بلکہ الگ الگ ہونگے پی پی کے مرکزی سیکر ٹری جنرل نے کہا کہ 17جنوری کو مال روڈ پر عمران خان اور آصف علی زرداری ایک ہی کنٹیز پر ہونگے پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا ڈرنے والے ہیں نہ جھکنے والے پنجاب کے حکمرانوں کو بھر پور احتجاج سے عہدے چھوڑنے پر مجبور کردینگے طاقت کا استعمال ہوا تو جواب دینا جانتے ہیں پیپلز پارٹی ا حتجاج میں بھرپور شرکت کریگی ۔ آئینی اور قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں حکمرانوں کو سانحہ ماڈل ٹائون کا حساب دینا ہوگا تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے کہا کہ عمران خان اور آصف علی زرداری ایک کنٹیز پر نہیں علیحدہ علیحدہ ہونگے ہمارا پیپلز پارٹی سے الائنس نہیں ہونے جارہا ہے ہماری تحریک کرپشن کے خلاف ہے۔
آصف علی زرداری کو ساتھ بٹھایا تو کرپشن کے خلاف دھچکا لگے گا سانحہ ماڈل ٹائون کے مرکزی ملزموں کو وزیر اعلیٰ پنجاب نے ترقی دی انصاف کے حصول کیلئے ہم ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دینگے لوگوں کی طرف سے براہ راست چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف مانگنا حکومت کی ناکامی ہے ۔ دوسری طرف عوامی تحریک کے سربراہ نے عہدیداروں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 17 جنوری کا احتجاج ملکی تاریخ کا پہلا احتجاج ہے جس کا ایجنڈا مظلومین اور مقتولین کے ورثا کو انصاف دلوانا ہے اور اب اللہ نے چاہا تو انصاف ہوگا اور ہوتا ہوا سب کو نظر بھی آ ئیگا۔ ادھر پنجاب حکومت نے لاہور کے مال روڈ پر احتجاج یا دھرنا کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے انتظامی مشینری کو ہدایت جاری کی ہیں کسی بھی غیر قانونی عمل سے نمٹنے کی تیاری کرے اور اپوزیشن جماعتوں سے ملکر انہیں تجویز دے کہ احتجاج کیلئے ناصر باغ حاضر ہے لیکن مال روڈ کی بندش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا اس احتجاج کا مقصد قطعی طور پر انصاف نہیں ، گھیرائو جلائو اور غیر معمولی صورتحال طاری کرنا ہے جس کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دینگے اور ایسا کرنیوالوں کیخلاف قانون حرکت میں آئیگا انتظامی مشینری سے کہا گیا ہے کہ ایسے عناصر پر نظر رکھیں جو سڑکیں اور چوک بند کرکے لاہور کے امن اور معمولات زندگی پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہر قیمت پر قومی املاک ، عوام کے جان و مال کا تحفظ اور امن وامان کو یقینی بنا نا ہے اور کسی کو اس پر اثر انداز نہیں ہونے دینگے، لاہور کے عوام کسی ایسی آگ کا ایندھن نہیں بنیں گے جس کا مقصد امن وامان کو غارت کرنا اور اپنے شہر کے امن وسکون سے کھیلنا ہو اور یہ سارا تماشا ایک ایسا شخص لگا رہا ہے جو اپنا مستقبل کینڈا سے وابستہ کئے ہوئے ہے اور ہمیشہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور انتشار پیدا کرنے کیلئے یہاں آتا ہے۔
جبکہ اب ڈاکڑ طاہر القادری کہتے ہیں کے 17 جنوری کا احتجاج ایک دن کا ہوگا انہوں نے واضح کیا کہ احتجاج دھرنے میں تبدیل ہوسکتا ہے تاہم فیصلہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
بہر حال احتجاج ایک دن کا ہو یا جب حکومت اپنی آئینی معیاد پوری کر لے اس تک پر امن احتجاج جاری رہے عوام کو خطرہ نمبر 17 ہرگز نہیں لہذاحکومت کا بنیادی فرض اور اولین ذمہ داری ہے کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات کرے اور خوش اسلوبی سے اس دن کو گزارنے میں بھرپور کردار ادا کرے اور حکومت ایسے کام ہر گز نہ کرے جس سے ا س قسم کے احتجاج کی نوبت پیدا ہو پر امن احتجاج کا ہم سب حق ہے اب اپوزیشن جماعتوں کا بھی کردار امن کی صورتوں میں آنا چاہیے۔