مسیحائی کی آڑ میں ڈاکٹروں کی لوٹ مار

Doctor

Doctor

تحریر : چودھری عبدالقیوم
مکرمی؛ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی طالبعلم سے میٹرک یا بی اے میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے پر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا تو عام طور پر وہ کہتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا اور دکھی انسانیت کی خدمت کرے گا کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس شعبے کو ایک مقدس پیشہ سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت کی جا سکتی ہے ۔ لیکن افسوس کہ یہ بچے بڑے ہو کرجب ڈاکٹر بن جاتے ہیں تو انھیں دکھی انسانیت کی خدمت کا اپنا مشن بھول جاتا ہے اور وہ اسے مال و دولت اکٹھا کرنے کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عوام خاص طور پرغریب لوگوں کو ڈاکٹوں کے متعلق بہت زیادہ شکایات پائی جاتی ہیں۔آپ کسی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں یا پرائیویٹ کلینک میں ہر جگہ آپ کو مریضوں کے قطاریں لگی ہوئی نظر آئیں گی۔لیکن ڈاکٹرز ان کے علاج معالجے پر توجہ نہیں دیتے۔سرکاری ہسپتالوں میں تو یہ صورتحال نہایت ہی ناگفتہ بیانی ہے کہ وہاں ڈاکٹر سفارش اور تعلق کے بغیر مریض کو دیکھنا اپنی شان کیخلاف سمجھتے ہیں اور خوش نصیبی سے کسی غریب مریض کو ڈاکٹر میسر آ بھی جائے تو اسے دوائی نہیں ملتی مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ بہتر علاج کے لیے ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں جائیں ۔جہاں سے علاج کرانا عام غریب آدمی کے بس کا روگ نہیں ہوتاکیونکہ وہاں ڈاکٹر زسے مشورے کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ غریب آدمی افورڈ نہیں کر سکتا۔

اگر کوئی قسمت کا مارا کسی طرح پرائیویٹ کلینک پر ڈاکٹر سے مشورے کی جرات یا غلطی کر بیٹھتا ہے تو اسے اتنی زیادہ اور مہنگی دوائیں تجویز کردی جاتی ہیں کہ مریض اس مہنگے علاج کے نتیجے میں مقروض ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک تو ڈاکٹروں نے اپنی من مانی فیسیں اتنی زیادہ مقرر کی ہوئی ہیں کہ اللہ معاف کرے انھیں کوئی بھی نہیں پوچھ سکتا دوسرا ڈاکٹر علاج کے لیے وہ مخصوص ادویات تجویز کرتے ہیں جو بازار کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مہنگی ہوتی ہیں اور وہ عام میڈیکل سٹورز پر دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔یہ غیرمقبول اور غیر معروف ادویات صرف اس لیے تجویز کی جاتی ہیں کہ ان میں میں صرف ڈاکٹرز کا مالی مفاد وابستہ ہوتا ہے کہ ان ادویات کی فروخت میں غیر معروف کمپنیاں ڈاکٹروں کو سوفیصد سے زیادہ کمیشن اور بہت زیادہ مراعات دیتی ہیں۔ جن میں غیرملکی دورے کرانے کے علاوہ قیمتی گاڑیاں تک دی جاتی ہیں۔

اس طرح ڈاکٹرز جو دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ لے کر مسیحائی کے پیشے میں آتے ہیں عملی طور پر ان کی پریکٹس مین خدمت نام کی کوئی چیز دور دور تک نظر نہیں آتی وہ اس مقدس پیشے کی آڑ میں دولت اور مال کی ہوس میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کے انھیں انسانیت تو کجا اپنی آخرت تک بھول جاتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ ایسے نام نہاد مسیحا دولت کی ہوس میں راتوں رات بڑی بڑی کوٹھیاں اور قیمتی گاڑیاں تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن دنیا کے سکون اور آخرت کے انعامات اور ثواب سے محروم ہوجاتے ہیں۔

مسیحائی کے نام پر سرکاری ہسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس میں ڈاکٹروں کے کہ روپ یہ قصائیوں کی طرح مریضوں کی الٹی کھال اتارتے ہیں ۔عدلیہ اور دیگر ادارے کرپشن کیخلاف کاروائیاں تو ضرور کرتے ہیں لیکن مسیحائی کی پیشے میں چھپے بھیڑیوں کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا جو نادار مریضوں کیساتھ انسانیت سوز سلوک کرتے ہیں۔

Ch. Abdul Qayum

Ch. Abdul Qayum

تحریر : چودھری عبدالقیوم